دلوں کا حکمران

ہم میں سے ہرایک، خواہ بڑا ہو یا چھوٹا ۔امیر ہو یا غریب یہ چاہتاہے کہ ہماری بات کی اہمیت ہو ،ہرایک کی خواہش وآرزو ہوتی ہے کہ میری بات غور سے سنی جائے ۔ کون ہے جس کی من کے مندر میں یہ خواہش نہیں کہ ”ہر دل عزیزی میری گھرکی لونڈی ہو“مگر اس کیلے کیا کرنا چاہئے، وہ کیا منتر ہے جسے پڑہ کر اس گنج نمایاں کو اپنے نام کیا جاسکے ۔یہ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے ۔ اس کیلے کو ئی لمبی چوڑی مہارت اور برسوں کا تجربہ نہیں چاہئے بلکہ تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے ۔فطری طور پر ہر انسان کی دل میں الفت ومحبت ہوتی ہے بس اس کو جگانے کی دیر ہے لوگ آپ کے گرویدہ ہوجائیںگے ۔ہم اگر یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ہماری بات پسند کی جائے توہمیں خود اچھی گفتگو کو شعار بناناہوگا ،ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم کوئی ایسی بات نہ کریں جو مخاطب کو بری لگے یااس کی دل آزاری کا سبب بنے ،ہمیں اپنے سننے والے کی جذبات کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا ہوگا، اس کی اختلافِ رائے کو خوش دلی سے سننا ہوگااور اس کیلے کسی دولت کی حاجت ہے نہ طاقت و اقتدار کی ۔طاقت سے جسموں پہ حکمرانی تو ہوسکتی ہے مگر دلوں کو مسخر کرنے کاایک ہی نسخہ ہے اعلی اخلاق ۔

چونکہ ہر انسان اپنے آپ کو شریف سمجھتا ہے ،ہر آدمی اپنے آپ کو باعزت بلند مرتبہ اور صاحب ِعظمت گردانتاہے اور اس کی خواہش ہوتی ہے کہ دوسرے لوگ بھی اسے ایسا ہی مقام دیںجو وہ چاہتا ہے ۔ اگر ہم کسی کی یہ تمنا پوری کرلیں تو بلاشبہ وہ شخص ہمیں بھی عزت دے گاہماری باتوں میں اس کی دلچسپی بڑھے گی یہی ہے دلو ں پر حکمرانی کا گر جسے اپنا کرہم دلوں کا حکمران بن سکتے ہیں،آج ہم کسی کی دل کی زمین پہ میٹھے بول کا ایک پودابوکر تودیکھیں بہت جلد وہ ایک تناوردرخت بن جائے گا ۔

آج ہمارے ہاں جو صورتِ حال ہے اور ہم جس بدامنی وانتشارسے دوچارہے جس کے بارے میں افتخار عارف کہہ چکے ۔
شاخ ِزیتون پر کم سخن فاختاؤں کے اتنے بسیرے اجاڑے گئے
اور ہوا چپ رہی
اور ہوا چپ رہی
آرزومند آنکھیں، بشارت طلب دل، دعاو ¿ں کو اٹھے ہوئے ہاتھ ،سب بے ثمر رہ گئے
جب کبھی رنگ کی خوشبوو ¿ں کی اڑانوں کی آواز کی اور خوابوں کی توہین کی جائے گی
اور منادی کرا دی گئی
زرد پرچم اڑاتا ہوا لشکر ِبے اماںگل زمینوں کو پامال کرتا رہا
اور ہوا چپ رہی
بے کراں آسمانوں کی پہنائیاں بے نشیمن شکستہ پروں کی تگ و تاز پر بین کرتی رہیں
یہ عذاب ان زمینوں پہ آتے رہیںگے
اور ہوا چپ رہی
اور تب حبس کے قہرماں موسموں کے عذاب ان زمینوں پہ بھیجے گئے

ضرورت اس امر کی ہے ہم اخلاقیات پہ توجہ دیں۔کاروباری زندگی ہو یاگھریلو ماحول ،خاندان کی بات ہو یا قوموں کی ،بستی کا مسئلہ ہویا شہروں کا بس ایک میٹھے بول کے طفیل دلوںکی خریداری کا میلہ ہے جو چاہے لوٹ لے یا ٹھکرادے۔
فضل حق شہبازخیل
About the Author: فضل حق شہبازخیل Read More Articles by فضل حق شہبازخیل: 7 Articles with 4576 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.