اگر ہم معاشرے پر نگاہ ڈالیں تو
مشکل ہی سے کوئی ایسا انسان ملے گا جس کے اندر انا(Ego) نہ ہو۔مگر ہر ایک
اپنے بارے میں حسنِ ظن رکھتا ہے کہ میں تو اس برائی سے قطعا پاک ہوں اور
بقیہ تمام لوگوں میں یہ موجود ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کے اندر نیکی اور
بدی دونوں کے رجحانات و میلانات رکھ دیئے ہیںاور دونوں راستوں کا انجام بھی
اس پر واضح کر دیئے ہیں۔ جیسا کہ قرآن کریم کہتا ہے:
الم نجعل لہ عینین۔و لسانہ و شفتین۔و ھدینٰہ النجدین(الشمس:8-10)
کیا ہم نے اسے دو آنکھیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے؟اور (نیکی اور
بدی کے)دونوں نمایاں راستے اسے (نہیں)دکھا دیے؟
جب کوئی انسان برا عمل کرتا ہے تو اس کا ضمیر اسے ملامت کرتا ہے لیکن وہ
انسان ہی کیا جو اس کی آواز پر کان دھر لے، تو وہ اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے
کے لئے مختلف طرح کے جواز کا پہلو تلاش کرتا ہے اور جب اس میں بھی ناکامی
ملتی ہے تو وہ اس کی طرف سے غافل ہو جاتا ہے ۔ ایسے انسانوںکے بارے میںاللہ
تعالی ارشاد فرماتے ہیں:
ان شر الدوآب عند اللہ الصم البکم الذی لا یعقلون(الانفال:22)
یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے
کام نہیں لیتے۔
ایسے لوگ رہتے تو عام انسانوں ہی کی طرح ہیں مگر جذباتی، ذہنی اور روحانی
طور پر کمزور ہوتے ہیںاور ان کے اندر عزتِ نفس نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی
ہے ۔ لیکن چونکہ خود کو ہر حال میں صحیح ثابت کرنا انسانی عادت ہے اس لئے
یہ لوگ برائی پر ضمیر کی تسلی کے لئے جھوٹ کا سہارا لیا کرتے ہیں جس کو
دوسرے لفظوں میں’ جھوٹی انا‘ (Ego)کہا جاسکتا ہے۔
انا کے ذریعہ انسان اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے
اور مختلف بودے ، کمزور اور بے سر پیر مگر خوش نما دلائل کے ذریعہ اس پر
قائم رہنے کی جدوجہد کرتا ہے۔ انا کے نقصانات کا اثر انسانی زندگی کے ہر
پہلو میں ہوتا ہے۔اس کی مختلف شکلیں ہیں ۔اگر ہمیں احساس ہو جائے کہ کن
عادات کا شمار انا میں کیا جاتا ہے تو لازمی طور سے ہم اس سے اجتناب کریں
گے۔
انا کی سب سے اہم شکل ’غصہ‘ ہے جو ہماری قوم میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا
ہے۔گھر ،محلے،بازاراور حتی کہ شادیوں میں خوشی کے موقع پر بھی لوگ آپس میں
لڑتے ہیں ۔اس میں خواص و عام سب شامل ہیں جو ذرا ذرا سی بات پر ناک بھوں
چڑھائے ، غصہ میں فوں فوں کرتے ہوئے ،منہ سے کف اڑاتے ہوئے اور ایک دوسرے
پر الزام تراشی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ بسا اوقات اس طرح کا نظارہ دینی
جلسہ و جلوس یا ملی اور مسلکی اجتماع میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ان تمام کے
پیچھے صرف ’انا‘ ہوا کرتی ہے۔جس سے اسلام نے خصوصی طور سے منع کیا ہے۔ اس
کام کو انجام دینے میں ایک بڑا طبقہ ان لوگوں کا ہے جنھوں نے دولت کی وجہ
سے رہن سہن تعلیم یافتہ لوگوں جیسا تو بنا لیا مگر حرام کھانے نے ان کی
خودداری اور عزتِ نفس کا خاتمہ کردیا۔اس کمی کو چھپانے کے لئے یہ لوگ دولت
اور طاقت کا سہارا لیتے ہیں۔
انا کی ایک شکل ’معافی نہ مانگنا‘ ہے ۔ اس کو لوگ اپنی شان کے خلاف سمجھتے
ہیں ۔اگر کسی سے ٹکر ہو گئی تو معذرت کر کے معاملہ ختم کیا جا سکتا ہے مگر
عموما جس کی غلطی ہوتی ہے وہی سامنے والے پر چڑھ دوڑتا ہے اور چیخنا چلانا
شروع کر دیتا ہے ۔ اس کی مثالیں راستہ چلتے ، بسوں یا ٹرینوں وغیرہ میں
آسانی سے مل جائیں گی۔لوگوں میں معاف نہ کرنے کی عادت عام ہے ۔ ہم اللہ
تعالی سے تو پوری امید کرتے ہیں کہ وہ ہمارے گناہوں کو معاف فرما دے مگر ہم
کسی کو معاف نہیں کرنا چاہتے۔حضرت محمدﷺ پر ایک یہودی عورت روز کوڑا کرکٹ
اور غلاظت ڈال دیا کرتی تھی۔ ایک دن اس نے نہیں ڈالا تو آپﷺ اس کی خیریت
پوچھنے گئے۔ یہ رہتی دنیا تک لوگوں کے لئے معافی اور بہترین اخلاق کی روشن
مثال ہے۔
انا کی ایک شکل’جھوٹی شان‘ ہے جس کے نمایاں اثرات روزگار پر نظر آتے
ہیں۔نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ خلیج ممالک میں برتن دھونے، جھاڑو لگانے
،ٹیکسی چلانے اور مزدوری کرنے کو تیار ہے مگر اسی طرح کے کاموں کو یہاں
انجام دینے میں شرم محسوس کرتا ہے ۔ اس لئے کہ باہر جا کر جو بھی کریں کوئی
دیکھنے والا نہیں ہے ۔ جب کہ اسلام نے حلال روزی کمانے کی ہدایت دی ہے خواہ
کسی بھی پیشے میں کام کیا جائے۔مگر ہماری قوم میں رواج ہے کہ مانگ کے کھاﺅ
یالوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھرو مگر اپنی ’شان ‘سے کم تر پیشہ نہ
اختیار کرو۔ اسی وجہ سے مسلمانوں میں بھکاریوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ سکھ قوم
میں آپ کو شاید ہی کوئی بھکاری نظر آئے۔
مردوں میں انا کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ وہ عورتوں کی تعلیم کے خلاف ہوتے
ہیں کہ ہمارے رعب سے نکل جائیںگی اور برابری کا دعوی کرنے لگیں گی۔اسی وجہ
سے مرد حضرات سوائے’ حسن وجمال ‘کے اپنی بیویوں کو کسی اور میدان میں آگے
بڑھتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتے۔ جب کہ عورت کو اللہ تعالی فطرتا ایسا بنایا
ہے کہ مرد واقعی اچھا سلوک کرے تو وہ اسی کے تحفظ میں رہنا پسند کرے گی۔آفس
میں بھی مردوں کے ساتھ یہی مشکل ہے کہ اگر خاتون باس کے تحت کام کرنا پڑا
تو مرد سوچے گا نوکری رہے یا نہ رہے میری بلا سے مگر میں بھلا ایک عورت کے
ماتحت کیوں رہوں؟
اس کے علاوہ مردوں کی انا پسندی میں عورتوں کو کم عقل اور کم درجہ
سمجھنا،ان کو مارنا پیٹنا ، گھر کے کاموں میں حصہ نہ لینا، بچوں کو ڈرا
دھمکا کے رکھنا،خود کو سب سے عقلمند سمجھنا ، دولت کا اظہار گاڑیوں ، لباس
،موبائل اور بعض صورتوں میں زیورات وغیرہ پہن کرکرنا ہے ۔ بعض تو کچھ
معاملات میں عورتوں کو بھی’ نمود و نمائش ،چغلی ،مسلسل باتیں،اپنی کامیابی
کا ذکر اور مشہور شخصیات کا نام اپنے ساتھ جوڑنے‘ میںپیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔
عورتوں میں بھی انا(Ego) کی بیماری پائی جاتی ہے۔ایسی عورتیںیا لڑکیاں اپنی
جھوٹی انا کی تسکین کے لئے زیورات ،میک اپ اور کپڑوں وغیرہ کے ذریعہ خود کو
لوگوں میں نمایا ں کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور خاص کر اپنی عمر کو چھپاتی
ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں ایسی خواتین کی کثرت ہے جن کے بچے تیس، پینتیس سال
کے ہو جاتے ہیں مگر وہ خود پچیس، تیس سال سے آگے نہیں نکلتی نظر آتیں اور
خود کو ہمیشہ اپنے ہم عصروں میں چھوٹی ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہیںیا ان کو
انکل ، آنٹی بنانا چاہتی ہیں۔ یہ نہایت ہی مضحکہ خیز اور غیر اخلاقی عمل ہے
لیکن اپنی ذہنی حالت سے مجبور ہو کر انجام دیتی ہیں۔
انا ہی کی وجہ سے ساس بہو میں سب سے زیادہ اختلاف اس بات کو لے کر ہو تا ہے
کہ گھر کا کل مختار کون ہے اور کس کا حق زیادہ ہے جس کے نتیجے میں بیٹا
دونوں کے درمیان پس کر رہ جاتا ہے کہ کس کی سنے اور کیا کرے۔پھر خوشی اور
سکون کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور زندگی عذاب بن کر رہ جاتی ہے۔ اسی لئے کسی سے
پوچھو کہ کیسے ہو؟ زندگی کیسی گذر رہی ہے؟ تو عموما یہی جواب ملتا ہے کہ
’بس کٹ رہی ہے‘۔
جب انسان انا پرستی کا شکار ہو جاتا ہے اس کا اثر زندگی کے ہر پہلو پر
نمایا ں ہوتا ہے۔ اس لئے اس سے اجتناب کی ضرورت ہے ۔ مسلم ہونے کے ناطے ہم
میں یہ بری عادت تو ہونی ہی نہیں چاہیے تھی کیوں کہ اسلام ایک ایسامکمل دین
ہے جو ہماری تمام جسمانی ، ذہنی اور روحانی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے ۔
مغربی ترقی یافتہ ممالک نے اسلامی تعلیمات مثلا سچ بولنا،ایماندار ہونا،
محنت کرنا ، وقت کا صحیح استعمال کرنا ، تعلیم پر خصوصی توجہ دینا اور اپنا
محاسبہ کرتے رہنا وغیرہ کو اپنالیا تو وہ ہم سے آگے نکل گئے اور ہم جھوٹی
انا کا شکار ہو کر رہ گئے جس کے نتیجے میں آج ہم خود کو ان کے سامنے مجبور
اور بے بس پاتے ہیں۔ |