بسم اﷲ الرحمن الرحیم
یونان - عظیم ثقافتی ورثے کا امیں
(25مارچ:قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)
ملک یونان قدیم اور جدید تہذیبوں کی حسین آماجگاہ ہے۔یونان کا محل وقوع
بلکان کا انتہائی جنوب ہے،یہ سمندروں اور پہاڑوں کی سرزمین ہے۔یہ سمندر اور
پہاڑیونان کی معیشیت سمیت اس ملک کی تاریخ و تہذیب میں بھی اہم کردار
اداکرتے رہے ہیں۔یونان کم و بیش اکیاون ہزار مربع میل کے رقبے پر
پھیلاہواہے اور رقبے کے اعتبار سے یہ ملک برطانیہ کے تقریباََ برابر
ہے۔یونان ایک جزیرہ نما کی مانند ہے یعنی اسکے کے تین اطراف میں سمندر ہے
اور ایک طرف جہاں خشکی ہے وہاں اس ملک کی سرحدیں یوگوسلاویاجسے اب میکڈونیا
کہا جاتاہے اور بلغاریہ اور ترکی سے ملتی ہیں۔سمندر کے کم و بیش دو
ہزارچھوٹے بڑے جزائر یونان کے تحت ہیں اور بعض جزائر تو یونان سے دور اور
ترکی کے قریب ہیں لیکن ان پر یونان کا ہی قبضہ ہے۔اس ملک کا دارالحکومت ’’ایتھنز‘‘ہے
جو تاریخ یورپ میں اپنی الگ ایک تاریخی و تہذیبی شناخت رکھتاہے۔یہ شہراپنے
ملک کا سب سے بڑا شہر ہونے کے علاوہ مملکت کی ایک تہائی آبادی کواپنے اندر
سموئے ہوئے ہے۔25مارچ یہاں یوم آزادی کے طور پر منایاجاتاہے۔یونان
جغرافیائی طور پر ایسے مقام پر واقع ہے جہاں یورپ افریقہ اور ایشیا کے
راستے باہم مل رہے ہیں۔اسی لیے یہ سرزمین ماضی کی تاریخ میں بہت اہم کردار
اداکرتی رہی ہے۔بازنطینی حکمرانوں اور عثمانی ترک بادشاہوں نے یونان کے اس
محل و وقوع کو اپنی حکومتوں کی وسعت کے لیے خوب خوب استعمال کیااور اس ملک
کے ذریعے تینوں براعظموں کے علاقوں پر اپنااقتدارطویل سے طویل تر کیا۔شاید
اسی وجہ سے آج کایونان گزشتہ تین ہزارسالوں کی ثقافت کا امین ہے اور اسکی
زبان میں صدیوں کی تحقیق اور انسانی خوشبو رچی بسی ہے۔ایک اندازے کے مطابق
پانچ سو سال قبل مسیح سے ’’ایتھنز‘‘میں یہی زبان بولی جا رہی ہے جس پر
زمانے کے نشیب و فراز نے کم ہی اثرات ڈالے ہیں۔یونانی اپنی اس خصوصیت پر
نازاں ہیں اور وہ اپنے آپ کو دنیا کی قدیم ترین ایسی قوم سمجھتے ہیں جس کی
تاریخ میں کوئی انقطاع نہیں اور وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ دنیا کی بہترین
انسانی وراثت کے حامل وہی ہیں۔
یونان چونکہ ایک قدیم ملک ہے اس لیے صدیوں سے یہاں پر ہجرت کا عمل کثرت سے
جاری رہاہے۔ترکوں کے بہت سے قبائل یہاں مستقل آباد ہوتے رہے،افریقی غلاموں
کے خاندان کے خاندان یہاں صدیوں سے آباد ہیں ان کے علاوہ مسلسل سیاسی
انقلابات کے باعث کئی ایشیائی نسلوں کے لوگ بھی اب اس سرزمین کو اپنا وطن
کہ کر خوش ہوتے ہیں اور یورپ سے آنے والوں کو تو یہ وطن اپنا کہ کر ہمیشہ
گلے لگاتا ہی رہا ہے۔یونان کی آبادی میں مسلمان اقلیت زیادہ تر ترک قبائل
سے متعلق ہے باقی بہت بڑی اکثریت یونانی مسیحی چرچ کی پیروکار ہے اگر چہ
بہت کم تعداد دوسرے مسیحی فرقوں سے بھی تعلق رکھتی ہے۔تھیٹریہاں کی ہمیشہ
سے پہچان رہا ہے،دوسری جنگ عظیم کے بعد جب سے یونان پر معاشی تنزل کے بادل
چھائے اسکے بعد 1990ء سے تھیٹر نے جہاں یونان کی تہذیبی زندگی میں اہم
کرداراداکیا وہاں یونان کی معاشی زندگی میں بھی اہم سنگ میل کی حیثیت
اختیار کر گیا۔یہاں قدرتی وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں اور قابل کاشت رقبہ
بھی تیس فیصد سے زائد نہیں ہے اسکی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ یونان میں
بارشیں بہت کم ہوتی ہیں۔سیمنٹ اور کپڑا ہی یہاں کی چیدہ چیدہ پیداوار ہیں
جو مقامی ضروریات ہی پورا کرپاتی ہیں۔
29مئی1453کو عثمانی ترکوں نے یہاں قبضہ کیا،اس وقت بازنطینی آخری بادشاہ
یہاں حکومت کرتا تھا جو میدان جنگ میں شکست کھا تا ہوا یونانی حدود سے نکل
گیااور اس طرح یہ ملک مسلمان سلطانوں کے زیر رسلط آ گیا۔شاید یہ پہلا موقع
تھا کہ عیسائیوں اور یہودیوں کی اتنی بڑی تعداد پر مسلمانوں کو حکومت کرنا
پڑی۔بعد میں بھی بہت سے یہودی 1492ء کے سقوط غرناطہ کے بعد یہاں آباد ہو
گئے تھے۔لیکن یہ مسلمان ترک سلطانوں کی کامیابی ہے کہ انکی حکومت کے دوران
یونان جیسے ملک میں جہاں مسلمان،عیسائیوں کے کئی فرقے،قدیم یونانی مذہب کے
پیروکار اور یہودیوں کے کئی قبائل آباد تھے اور کثیرالمذہبی ہونے کے ساتھ
ساتھ کثیرالملل اس ریاست میں کسی دو مذہب کے ماننے والوں کے درمیان کوئی
ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا اور ترک حکمرانوں کی نگرانی میں سب لوگ
باہمی اشتراک عمل سے زندگی کے فرائض پورے کرتے رہے۔کم و بیش چار سو سال کے
شاندارطویل دور حکمرانی کے بعد 1829میں یہاں سے مسلمانوں کے دور کا خاتمہ
ہوا۔آج بھی یونان کے کچھ علاقے عثمانی ترکوں کی یادگاروں سے بھرے ہیں لیکن
جس طرح اندلس میں مسیحی تعصب نے مسلمانوں کی باقیات کے ساتھ بہت برا سلوک
کیا اسی طرح یہاں بھی اسکی نظائر بخوبی دیکھی جا سکتی ہیں۔
یونان کا موجودہ دستور1975میں منظور کیا گیا،اس سے قبل 1967سے 1974تک یہاں
فوجی آمریت مسلط رہی۔1986ء میں اس دستور میں مزید ترامیم کی گئیں اور صدر
کے اختیارات کا مزید تعین کیاگیا۔اب وہاں کے صدر کے پاس وسیع اختیارات ہیں
اور صدر پارلیمنٹ سے پانچ پانچ سال کی دو مدتوں تک منتخب ہوسکتا ہے۔جبکہ
وزیراعظم کی مدت انتخاب چار سال ہوتی ہے۔یہاں کی سیاسی پارٹیاں زیادہ تر
شخصیتوں کے زیراثر ہوتی ہیں۔مملکت کو تیرہ انتظامی حصوں میں تقسیم کیاہواہے
لیکن حکومت کا انتظام زیادہ تر مرکزیت کاہی محتاج ہے۔1974ء تک فوج بھی ملکی
سیاسی معاملات میں دخیل رہی ہے لیکن اب ایسا نہیں ہے یا بہت کم ہے۔یونان
میں جی ڈی پی کا چھ فیصد دفاع پر خرچ کیاجاتاہے اوریہ اس علاقے کے جملہ
ممالک میں دفاع پرسب سے زیادہ خرچ کی جانے والی شرح ہے۔یہاں رومن قانون
رائج ہے اور دو بڑی اعلی عدالتیں ہیں،سپریم کورٹ جو سول ،فوجداری اوردیوانی
کے مقدمات کی سماعت کرتی ہے اور دوسری کونسل آف اسٹیٹ،جہاں انتظامی تنازعات
کے فیصلے کیے جاتے ہیں،اسی کا ذیلی ادارہ کورٹ آف اسٹیٹ ایڈیٹرزبھی ہے جو
مالی معاملات کے فیصلے کرتا ہے۔’’اسپیشل سپریم ٹریبیونل‘‘جو مزکورہ تینوں
اداروں کے تینوں سربراہوں پر مشتمل ہوتا ہے اوردستوری معاملات،انتخابات اور
ریفرنڈم جیسے امور کی نگرانی اور پارلیمنٹ کے جملہ فرائض کی بجاآوری پر نظر
رکھتاہے۔
یونان کا نظام تعلیم قدیمی بنیادوں پر استوار ہے اورکافی مشکل بھی ہے،شاید
اسی لیے طلبہ و طالبات کواسکول کے علاوہ بھی تعلیمی تفہیم کے لیے اساتذہ کے
جانا پڑتا ہے جسے عرف عام میں ٹیوشن ورک کہتے ہیں۔سیاسی نظام کی طرح تعلیمی
نظام بھی یہاں کافی حد تک مرکزیت پر مبنی ہے اور شرح خواندگی کافی حد تک
امید افزا ہے جو کہ 96%ہے اور جی ڈی پی کا 4.4%تعلیم پر خرچ
کیاجاتاہے۔یونیورسٹی کی تعلیم کے بعد عموماََ ملازمتیں مل جاتی ہیں،تین بڑی
بڑی یونورسٹیاں ہیں جن کی بڑائی میں انکی قدامت بھی پنہاں ہیں ،گزشتہ کچھ
سالوں سے نجی ادارے بھی اپنی جامعات کھولنے پر لگے ہیں لیکن اب ان پر
پابندی لگا دی گئی ہے اور یونان کے بیشتر طالبان علم اپنی علمی پیاس بجھانے
کے لیے یورپ کے دوسرے ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔ثقافتی طور پر یہ ملک ایک
شاندار ورثے کا حامل ہے ،بازنطینی دور کی متعدد یادگاریں جن میں بادشاہوں
کے مقبرے بھی شامل ہیں یہاں کا عظیم ورثہ ہیں۔لوگ دوردراز سے یہاں ماضی کی
عمارات دیکھنے کے لیے آتے ہیں جس کے باعث سیاحت اب یونان میں ایک صنعت کی
شکل اختیار کر چکی ہے۔یونان کی آبادی ایک کروڑ سے کچھ زائد ہے اور 0.127%کے
حساب سے آبادی میں سالانہ اضافہ ہوتا ہے۔97%آبادی مقامی افراد پر مشتمل ہے
جبکہ 7%باہر سے آئے ہوئے لوگ ہیں۔
یونان میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعدادآباد تھی لیکن 1923کے یونان ترکی
معاہدے کے بعد جس میں آبادی کے تبادلے کا معاہدہ بھی شامل تھا یونان میں
مسلمانوں کی تعداد کم ہونے لگی،اس معاہدے کے تحت مسلمان ترکی سدھارگئے اور
عیسائی یونان میں منتقل ہو گئے۔اب مسلمانوں کی چارسوسال حکومت والے اس ملک
میں مسلمانوں کی شرح محض15%رہ گئی ہے۔اس کے باوجود بھی بعض شہروں اور متعدد
جزائر میں 40%تک بھی مسلمان آباد ہیں اور ترکی زبان بولتے ہیں اور مقامی
رسوم و رواج پر انکے مذہب کے گہرے اثرات ہیں۔1990کے بعد سے یونان میں
مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ کثرت سے جاری ہے یہ مسلمان مشرق
وسطی،پاکستان،بھارت اور بنگلہ دیش سے یہاں منتقل ہوئے ہیں اور بہت بڑی
کمیونٹی بن گئے ہیں۔2006میں مسلمانوں کو مساجد بنانے کی اجازت بھی مل گئی
ہے اور اب ایتھنز کے مغرب میں ایک بہت بڑی جگہ پر مشتمل مسلمانوں کا دینی
مرکز موجود ہے جہاں مسلمان اپنی دینی تعلیم اور فرائض کی بجاآوری کے لیے
جمع ہوتے ہیں۔ترکی اور یونانی زبانوں میں وہاں کے مسلمان بچے اپنی مذہبی
تعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ قرآن مجید انہیں عربی میں ہی سکھایاجاتاہے۔2002کے
انتخابات میں ڈحائی سو کے لگ بھگ مسلمان نمائندے مختلف سطح کے پارلیمانی
اداروں کی اقلیتی نشستوں پر براجمان ہوئے۔ |