جابر سلطان اور کلمہ حق

نوائے وقت ایک اخبار ہی نہیں بلکہ ایک تاریخ بھی ہے۔ قیام پاکستان کی تخلیق جس قرار داد کی منظوری سے ہوئی، اس دن یہ اخبار بھی طلوع ہوا۔ یہ اخبار ایک ایسے اخبار نویس کا خواب تھا۔ جو وطن سے بے پناہ محبت رکھتا تھا۔ وہ اس سرزمین پاک پر کلمہ حق کا غلبہ چاہتا تھا۔ اس لئے اس نے اس اخبار کی پیشانی پر جابر حکمران کے خلاف کلمہ حق کے اظہار کو سب سے افضل جہاد کی عبارت سے روشن کیا۔ عارف نظامی کے والد حمید نظامی نے تئیس مارچ سنہ انیس سو چالیس کو عین اس دن لاہور سے نوائے وقت کا پہلا پرچہ شائع کیا تھا جب لاہور کے منٹو پارک میں قرارداد پاکستان پیش کی گئی۔ نوائے وقت کراچی کی اشاعت کے موقع پر میں اس کی تاسیسی ٹیم کا رکن تھا۔ اس ٹیم میں کئی نابغہ روزگار جوہر تھے۔ جو بدقسمتی سے ایک ساہوکار کی جھولی میں آگرے تھے۔ محمد سرور اس ٹیم کا سرخیل تھا۔ آج لندن میں دی نیشن لندن کا مالک ایڈیٹر ہے۔ انور سن رائے بی بی سی لندن سے وابستہ ہے۔ اخلاق احمد نے اخبار جہاں کی ادارت کی اور اسے بلندیوں پر پہنچا دیا۔ یوسف خان( چیف رپوٹر ) الیاس شاکر ( چیف ایڈیٹر قومی اخبار، چیف ایگزیکیٹیو دھوم ٹی وی)، صالح محمد ظافر، حاجی احمد مجاہد، گل محمد فیضی، خالد اظہر،علی نواز خاصخیلی(اسٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان کراچی ایف ایم) عبدالجبار خان، یہ سارے نوجواں تھے، اور کچھ کرنا چاہتے تھے۔ لیکن اخبار کے مالک ایڈیٹر کا خیال تھا کہ آٹھ سو روپے کی تنخواہ پر سالہا سال تک ان سے کام لیتا رہے گا۔ اسی زمانے میں ہمارے ایک دوست نے ایک معاصر اخبار میں ایک کالم لکھا، صحافت کے خرکار کیمپ جس میں اس صورتحال کا ذکر تھا۔ جس پر اخبار کے ایڈیٹر نے تمام ملازمین کی انکوائری کرادی کہ یہ مضمون کس نے لکھا ہے۔ بعد میں ہمارے یہ دوست ایک دن اچانک نوائے وقت کے دفتر میں مجید نظامی کے کمرے میں داخل ہوئے اور کہا کہ یہ مضمون میں نے لکھا ہے، میرا نام یہ ہے، آپ کو کوئی اعتراض ہے۔ نظامی صاحب ہکا بکا رہ گئے۔

گورے چٹے عارف نظامی ان دنوں باہر سے تعلیم پاکر جو اکثر کراچی کے دفتر آتے تھے۔ یہ بھی ان دنوں صحافت میں اپرینٹش تھے۔ بعد میں ترقی کرتے کرتے روزنامہ نوائے وقت کے ایگزیکٹو ایڈیٹر اور دی نیشن کے ایڈیٹر بنے۔ عارف نظامی نے دی نیشن کو بنایا، جمایا اور چلایا لیکن آج جب اس اخبار کے لئے عارف نظامی کی کاوش رنگ لائی ہیں تو ایک بار پھر بڑے نظامی صاحب نے اپنے خون کو اس ادارے سے جدا کردیا جسے ان کے باپ نے قائم کیا تھا۔ حکمرانوں کی آمرانہ سوچ شور مچانے والے اپنی آمرانہ سوچ پر قابو نہیں پاسکتے۔ کتنے لوگ نوائے وقت کی سیڑھیاں اتر گئے۔ لیکن کبھی یہ خیال بھی نہیں آیا تھا کہ ایک دن ادارہ نوائے وقت کے بانی حمید نظامی کے صاحبزادے، دی نیشن کے ایڈیٹر، عارف نظامی بھی ایک روز اسی طرح سیڑھیاں اتر جائیں گے۔ انگریزی اخبار ’دی نیشن‘ کے ایڈیٹر عارف نظامی کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا گیا ہے اور ان کی برطرفی میں بھی اسی رعونت، اور آمرانہ طرز کا اظہار ہے۔ جو اس سے پیشتر ملازمین سے روا رکھا جاتا رہا ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ کل ہیڈ آفس کی پالیسی تھی کہ کہ دفتر میں کوئی خاتون ملازم نہیں رکھی جائے گی، جس زمانے میں ضیا شاہد کراچی نوائے وقت کے ریزیڈینٹ ایڈیٹر تھے۔ اس وقت ایک حکم نامے کے تحت کراچی کے دفتر سے تمام خواتین اسٹاف کو فارغ کردیا گیا تھا۔ لیکن آج اپنے خون کو چھوڑ کر لے پالک خواتین کے سپرد سارا اخبار کردیا گیا ہے۔ شاید اسی لئے زمانے میں خون سفید ہونے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ اخبارات میں ایڈیٹر آتے جاتے رہتے ہیں، برطرفیاں تقرریاں اور استعفے بھی پاکستان کی صحافت میں معمول کی بات ہے لیکن عارف نظامی کی اس انداز سے برطرفی ہے جس کے بارے میں اس سے پہلے یہ تاثر تھا کہ وہ اخبار کے مالکوں میں سے ایک ہیں۔ایک صدمہ والی بات ہے ۔ خاص طور پر جب ان کے والد حمید نظامی کے صحافتی کیرئیر کو اس اخبار کی بنا کر جب آزادی صحافت کی بات کی جاتی ہو۔

عارف نظامی اس وقت بچے تھے جب ان کے والد صرف پینتالیس برس کی عمر میں انتقال کرگئے تھے۔ عارف نظامی کی والدہ نے نوائے وقت کی ادارت سنبھالی اور اپنے کم سن بچوں کے ساتھ اخبار چلانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہیں۔اس وقت صحافیوں کی ملک گیر ہڑتال چل رہی تھی۔ اور کمسن یتیم بھتیجے کے سر پر شفت کا ہاتھ رکھنے کے بجائے، جائیداد کا بٹوارہ کیا جا رہا تھا۔ دیور بھابھی میں صلح کے بعد مجید نظامی روزنامہ نوائے وقت کے انتظامی اور ادارتی سربراہ ہوئے۔ نوائے وقت کا پریس تباہ ہوگیا۔ اور نیا پریس لگایا گیا۔ بھتیجے عارف نظامی نے ایک عام رپورٹر کی حثیت سے اخبار میں کام کرنا شروع کیا اور سنہ انیس سو چھیاسی میں اس دور کے پنجاب کے واحد نجی انگریزی اخبار ’دی نیشن‘ کی بنیاد رکھ دی۔ پرنٹ لائن پر عارف نظامی کا نام شائع ہونے لگا تھا۔ عارف نظامی سے اظہار یک جہتی میں بہت سے صحافیوں نے اس ادارے سے استعفا دے دیا ہے۔ جو ایک پیشہ ورایڈیٹر کی برطرفی کے طریقہ کار کے خلاف احتجاج ہے۔ سی پی این ای کے صدر کی حیثیت سے بھی ان کا ایک مقام ہے۔ عارف نظامی کی یوں برطرفی نے جنرل ضیاء کی جانب سے محمد خان جونیجو کی وزیر اعظم کے عہدے سے برطرفی کے واقعہ کی یاد دلا دی۔ ہماری صحافتی اور سیاست کی تاریخ انہی واقعات سے عبارت ہے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 419016 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More