الیکٹرانک میڈیا پر یہودیوں اور
عیسائیوں کا غلبہ رہا ہے اب تو اس دوڑ میں انڈیا بھی شامل ہو گیا ہے ۔ان
فلموں ، ڈراموں میں جادو اور جنات کو ایک مخصوص انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔
قرآن مجید اور حدیث ﷺ کے برعکس موجودہ عیسائیت ، یہودیت ہندو مت ار دیگر
مذاہب کی کتب میں جنات اور جادو ، کا ذکر حقیقت سے بہت دور مبالغہ آرائی کے
ساتھ درج ہے ۔
فلموں، ڈراموں اور کہانیوں کا ہی کمال ہے کہ ہم میں سے اکثر اس بات کے حامی
ہوں گے کہ جنات انسانوں میں حلول کر کے ان سے عجیب و غریب حرکات کرواتے ہیں
۔ حدیث ﷺ میں بھی ہے کہ شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے لیکن
حلول کرنے کا جو تصور ان فلموں میں عکس بند کر کے دکھایا جاتا ہے وہ مبالغہ
اور جھوٹ ہے۔
جادو کی تعریف :
اگر اﷲ تعالٰی کے حق میں ہماری سوچ اور نظریات میں محسوس یا غیر محسوس
طریقے سے کوئی تبدیلی ہو تو اسے ھدایت کہیں گے لیکن اگر اسکے برعکس کسی بھی
سطح پر کفر کے حق میں محسوس یا غیر محسوس طریقے سے ہمارے نظریات اور بالآخر
ہمارے افعال کی تبدیلی یا تبدیلی کی کوشش جادو کہلائے گی ۔
جادو کی اقسام :
جادو اپنی قسم میں ایک ہی ہے کیونکہ اس کی ہر قسم میں نتائج غیر محسوس
طریقوں سے ہی رونما ہوتے ہیں ، لیکن پہچان کی آسانی کے لئے اسے دو سادہ مگر
بڑی اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ اس کی ایک قسم وہ ہے جس میں منتر
پڑھے جاتے ہیں اور منتر پڑھنے کے کام میں انسان بھی جنات کی مدد کے لئے
اپنی نیت اور ایمان کا حصہ ڈالتے ہیں ۔ جو قسم باقائدہ منتر کے ساتھ ہوتی
ہے اسے ’ بامنتر جادو ‘ کہتے ہیں جبکہ دوسری قسم کا جادو جنات ہم پر ’ بے
منتر ‘ کرتے ہیں۔اسے بے منتر جادو کہتے ہیں۔فرعون اور ابو جہل جیسے سردار
اسی بے منتر ے جادو کا شکار ہوئے اور اﷲ کی رضا اور جنت سے بے دخل ہوئے ۔
ہم میں سے اکثر اسی بے منترے جادو کا شکار ہو کر فرعون اور ابو جہل بن رہے
ہیں ۔ حیرت کی بات ہے کہ صرف با منتر جادو کا خوف ہمیں کپکپا دیتا ہے۔
جادو کا اصل مقصد کیا ہوتا ہے :
اﷲ یا بندوں میں سے کسی کے حقوق کو غصب کرنا ہی جادو کرنے یا کرانے والے کا
مقصد ہوتا ہے ۔ حضور پاک ﷺ پر جادو کے واقعے پر غور کرنے سے اس حقیقت کا
انکشاف ہوتا ہے کہ جادو کا ہو جانا اور جادو کے برے نتائج مرتب ہونا دو
مختلف چیزیں ہیں۔حضور پاک ﷺ پر جادو تو ہوا لیکن نہ تو آپ ﷺ کے طرز عمل سے
حقوق اﷲ اور نہ ہی حقوق العباد میں کمی واقع ہوئی ۔
جادو کی قسم کوئی بھی ہو شیطان کا اصل ہدف ہمیں حقوق اﷲ اور حقوق العباد سے
غافل کرنا ہے۔ ملاحظہ ہو ں سورہ نمبر 7 ، سورہ الاعراف کی آیات 10 تا 18 :
’ ۔۔۔اور ہم ہی نے تم کو ابتدا میں مٹی سے پیدا کیا۔ پھر تمہاری صورت شکل
بنائی پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدمؐ کے آگے سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا
لیکن ابلیس کہ وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔ اﷲ نے فرمایا کہ جب میں
نے تجھے حکم دیا تو کس چیز نے تجھے سجدہ کرنے سے باز رکھا ۔ اس نے کہا کہ
میں اس سے افضل ہوں۔مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے بنایا
ہے۔فرمایا تو بہشت سے اتر جا ۔تجھے شایاں نہیں کہ یہاں غرور کرے لہذا تو
یہاں سے نکل جا ۔اس نے کہا کہ مجھے اس دن تک مہلت عطا فرما جس دن لوگ قبروں
سے اٹھائے جائیں گے۔ فرمایا ٹھیک ہے تجھے مہلت دی جاتی ہے۔۔‘
’۔۔۔۔۔۔پھر شیطان نے کہا کہ مجھے تو تو نے ملعون کیا ہی ہے ، میں بھی تیرے
سیدھے رستے پر ان ( انسانوں) کو گمراہ کرنے کے لئے بیٹھوں گا ، پھر ان کے
آگے سے اور پیچھے سے ، دائیں سے اور بائیں سے آوئں گا اور تو ان میں سے
اکثر کو شکر گذار نہیں پائے گا ۔اﷲ نے فرمایا ، یہاں سے نکل جا مردود۔جو
لوگ ان میں سے تیری پیروری کریں گے میں ( ان کو اور تم سب کو) جہنم میں بھر
دوں گا۔۔۔۔۔‘
جو اہم بات ان آیات مبارکہ سے یہ بات واضح ہو رہی کہ شیطان انسان اور اﷲ
تعالٰی کے درمیاں سیدھے رستے پر بیٹھتا ہے ۔ اسلام کی عمومی تعلیمات کے تحت
ہم جانتے ہیں کہ اﷲ تعالٰی کی سیدھی راہ دو قسم کے حقوق پر مشتمل ہے جنہیں
ہم حقوق اﷲ اور حقوق العباد کے نام سے جانتے ہیں۔
کیا انسان جنات کے آگے بے بس ہے ؟
جنات اور جادو کی حدود کیا ہیں ؟ شیطان یا جنات محض دل میں خیال ڈالنے اور
دھوکہ دینے کی حد تک ہی اس کی زندگی میں دخل دے سکتا ہے۔خیال ہی خیال میں
سوتے میں یا جاگتے میں خاص انداز میں نظر آنا ، ان کی آواز سنائی دینا یعنی
برائی کی طرف مائل ہونا وغیرہ دخل دینے ہی کی متعلقات یا اقسام ہیں ۔شیطان
کا زور اس حد تک ہی ہے۔
جنات میں انسانوں سے کہیں زیادہ طاقت تو ہے مگر انسان کو اﷲ کا ساتھ اور
علم کی طاقت دے کر جنات کو کھلا نہیں چھوڑ دیا گیا کہ وہ جو چاہیں جس طرح
چاہیں کر تے پھریں اگر ایسا ہو تا تو کائنات کا نظام درہم برہم ہو چکا ہوتا
۔ جنات لپٹ اور چمٹ کر ہم سب انسانوں کو کب کا حواس باختہ اور بیمار بنا
چکے ہوتے اور ہم انسان صفحہء ہستی سے ہی مٹا دئیے گئے ہوتے ۔
اس طرح اگر جادو میں اس قدر طاقت ہے تو فرعون کے درباری جادوگراسے اپنے
جنات کی مدد سے اسے گرا کر اس کے مال و متا ع پر خود ہی قبضہ کر چکے ہوتے
اور اس طرح انعام و اکرام کے لئے درخوا ستیں کرتے اور بھیک نہ مانگتے پھرتے
سور نمبر 7 ، سورہ الاعراف کی آیات نمبر 113 اور 114 کا ترجمہ ملاحظہ
فرمائیں ’۔۔۔۔اور جادوگر فرعون کے پاس آ پہنچے اور کہنے لگے کہ اگر ہم جیت
گئے تو ہمیں انعام عطا کیا جائے ۔ فرعون نے کہا کہ ہاں ضرور اور میں تمہیں
اپنے خاص بندوں میں شامل کر لوں گا۔۔۔۔‘
آخر فرعون کے دور کے جادوگروں کو یا ان کے قابو میں آئے جنات کو کس چیز نے
فرعون کے مالادولت پر قبضہ کرنے سے روک رکھا تھا ؟ جادوگر فرعون سے انعام
کی درخواستیں کیوں کر رہے تھے؟
آج کل زمانے کے لحا ظ سے اگر بات کی جائے تو اہل یہود فن جادوگری میں
بہترین علمی اثاثے کے مالک ہیں کیونکہ ان کے آباؤ اجداد نے حضرت سلیمان ؐ
کے دور کا جادو ئی علم کتابی شکل میں محفوظ کر لیا تھا اور یہ یقیناً اب
بھی ان کے پاس ہو گا ۔ مگر ہم دیکھتے ہیں اگر اﷲ نے پھر بھی انہیں دنیا میں
طاقت اور قبضہ دیا ہے تو وہ صرف ان کے مادی علم اور ٹیکنالوجی میں محنت اور
ترقی کے باعث دیاہے۔اگر جادو اور جنات اتنے ہی زور آور ہیں تو بھارت ،
افریقہ اور بنگال کے ماہر جادو گر ایک ایک ہو کر یا مل کر اپنے جادو کے
ذریعے دنیا کے مال و دولت پر قبضہ کیوں نہیں کرلیتے ۔ جنات کے ذریعے یہ سب
کچھ کر لینے میں انہیں کس نے روک رکھاہے ؟
حقیقت کیا ہے ؟
جو لوگ سختی سے حقوق اﷲ اور حقوق العباد پر عمل درآمد کا خیال رکھتے ہیں
یعنی اﷲ کی عبادت میں سخت ہوتے ہیں اور اﷲ تعالی سے ہمکلامی کا شرف رکھتے
ہیں ، اﷲ تعالی ان کے آگے شیطان کو بے بس کر دیتا ہے۔ مثلاً شیطان کو حضور
پاک ﷺ کے سامنے بس کر دیا گیا تھا۔حضرت عمر ؓ کو دیکھ کر شیطان رستہ بدل
لیا کرتا تھا۔ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ ؓ حقوق اﷲ اور حقوق العباد سنت ﷺ کے
مطابق ادا کرنے میں سختی سے کار بند رہتے تھے ۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ
جنات کو حقوق اﷲ اور حقوق العباد پر سختی سے عمل کر کے انہیں ان کی حد میں
رکھا جا سکتا ہے یا عرف ِ عام میں انہیں قابو کیا جاسکتا ہے۔
جنات کی حدود سمجھنے میں غلطی کی بنیاد کیا ہے ؟ :
لوگ دلیل کے طور پر قرآن مجید کی سورہ نمبر 2 ، سورہ البقرہ کی آیت نمبر :
275 کا حوالہ بھی دیتے ہیں جو اﷲ تعالی نے سود کی روک تھام کے لئے نازل کی
تھی : ’۔۔۔۔جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قبروں سے اس طرح حواس باختہ اٹھیں گے
کہ گویا انہیں کسی جن نے لپٹ کر دیوانہ بنا دیا ہو ، ۔۔۔۔۔۔۔۔‘
جنوں کے لپٹنے اور انسانوں کو دیوانہ بنا دینے کے حوالے اس آیت مبارکہ کو
غلط طور سے پیش کیا جاتا ہے۔بعض دفعہ قرآن مجید میں اس وقت کے عربی محاورں
کو بھی اﷲ تعالی نے استعمال کیا ہے جو اس وقت کے عرب علاقوں میں رائج تھے ،
بولے اور سمجھے جاتے تھے تاکہ لوگوں کو بات صحیح طور سے سمجھ میں آ جائے۔
میں آپ کو قرآن مجید سے اﷲ تعالٰی کی محاورتاً بات کرنے کی اس سے ملتی جلتی
ایک مثال دیتاہوں۔قرآن مجید کی سورہ نمبر 21 ، سورہ الانبیاء کی آیت نمبر
37 ملاحظہ کیجئے : ’ ۔۔۔انسان ( کچھ ایسا جلد باز ہے ) گویا جلد بازی سے ہی
بنایا گیا ہے۔میں تم کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤں گا تو تم جلدی نہ
کرو۔۔۔‘ ہم سب جانتے ہیں کہ اﷲ تعالی نے انسان کو مٹی سے بنایا ہے ، مگر
یہاں یہ بات اﷲ تعالی نے محاورتا ً محضً اس لئے کہی تا کہ بات سمجھنے والے
کو سمجھ میں آ جائے ۔حالانکہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ انسان کو
اﷲ تعالی نے جلد بازی سے بنایا ہے ہم سب جانتے ہیں کہ اﷲ تعالی انسان کو
مٹی سے بنایا ہے۔
یہ بات کہ ’۔۔۔ جنات انسانوں سے لپٹ کر انہیں دیوانہ بنا سکتے ہیں۔۔‘ قابل
تسلیم نہیں ہے کیو نکہ قرآن مجیدسے صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ شیطان صرف خیال
ڈالنے یا وہمہ ڈالنے کی حد تک ہی انسان کے ذہن میں مداخلت کر سکتا ہے اس سے
زیادہ نہیں۔اس کی دلیل کے طور پر شیطان کے اپنے الفاظ ہیں قرآن مجید کی
سورہ نمبر14 , سورہ ابراہیم ؐکی آیات نمبر 21 , ،22 میں اﷲ تعالی نے درج
فرمائے ہیں کہ ’۔۔۔ میرا تمہارے اوپر کوئی زور تو نہیں تھا، میں نے تو صرف
تمہیں آواز دی تھی۔۔۔‘ خود اﷲ تعالی نے سورہ نمبر 114 سورہ الناس ، آیت
نمبر 5 ، میں شیطان کی اس محدود اختیار کے متعلق فرمایا کہ :۔ ’۔۔۔جو لوگوں
کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے ۔۔۔‘ جبکہ سورہ نمبر 7 ، سورہ الاعراف، آیت
نمبر 200 ، میں اﷲ تعالی کہتے ہیں ـ: ’۔۔اور اگر شیطان کی طرف سے تمہیں
کوئی اکساہٹ محسوس ہو تو اﷲ کی پناہ مانگو ۔ ـ‘۔ سورہ نمبر 41 ، سورہ حم
السجدہ، آیت نمبر 36 ، میں اﷲ تعالی فرماتے ہیں : ’ کہو میرے پروردیگار میں
شیطان کی اکساہٹوں سے تیری پناہوں میں آتا ہوں ۔۔۔‘ اور دوسری طرف سورہ
نمبر 7 ، سورہ الاعراف ، آیت نمبر201 ، میں فرماتے ہیں : ’ ․․․جو لوگ پر
ہیز گار ہیں ان کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ جب انہیں کبھی شیطان کے اثر سے
کوئی برا خیال چھو بھی جاتا ہے تو وہ فوراً چونک جاتے ہیں اور پھر ( انہیں
) صحیح راستہ نظر آنے لگتا ہے ۔۔ ‘
اگر یہ اس طرح تسلیم کر لیا جائے کہ شیطان یا جنات انسانوں کو ذہنی اور
جسمانی طور سے اس طرح کنٹرول کر سکتے ہیں جیسے ہم ریموٹ کے ذریعے آلات
کنٹرول کرتے ہیں تو اﷲ تعالی قیامت والے دن انسانوں کو جہنم میں کیوں ڈالیں
گے جبکہ قصور جنات کا تھا ؟
( اختتام ) |