دعا

تحریر: محمد عمران ظفر

ہر مذہب اورہر دین میں دعا کا تصور پا یا جا تا ہے جیسے کہ احادیث مبارکہ میں آتا ہے "دعا مومن کا ہتھیار ہے"دعا عبادت کا مغز ہے"دعا نا ممکن کو ممکن بنا سکتی ہے مشکل کو آ سان بنا دیتی ہے جب بھی انسان مشکل یا پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ دعا کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے ۔

دعا ہے کیا؟ اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔دعا یعنی ـ"دو آ " دو کا مطلب ایک سے زیادہ یعنی زیادہ کی طلب اور ـ"آ " یعنی آنا اگر اکٹھا سمجھا جائے تو مطلب یہ ہوا کہ زیادہ آئے۔ جو چیزیں ہمارے پاس ہوتی ہیں انکی تو ہم قدر کرتے نہیں ہیں۔ اور جو ہمارے پاس ہوتی نہیں ان کے پیچھے ہم بھاگتے بھاگتے ہم اپنی زندگی ختم کر لیتے ہیں۔کیا یہ درست ہے؟ کیا ہم ان چیزوں کی قدر نہ کر لیں؟ جو ہمارے پاس موجود ہیں۔بس ضرورت ہے تواس امر کی کہ ہم احساس کر لیں کہ خدا نے ہمیں کن کن نعمتوں سے نوازا ہواہے خدا کا وعدہے کہ اگر تم میری نعمتوں کا شکرادا کرو گے تو میں ان میں اور اضافہ کردوں گا اور اگر ناشکری کروگے تو پھرمیری گرفت بھی سخت ہے۔

دنیا کا دستور تو یہی ہے جب ہم نے کچھ لینا ہو۔تو اس کے لئے ہمیں کچھ دینا پڑتاہے لیکن دعا ہم میں ہم کیادیتے ہیں؟ ہم نے تو دعا کو ـ"دو آ " یعنی زیادہ کی طلب سمجھ رکھاہے۔ نبی پاکﷺ کا فرمان ہے کہ زیادہ دولت اور جائیدادیں نہ بنانا ورنہ دنیا کے ہی ہو کے رہ جاؤ گے۔ اور ہم زیادہ اور زیادہ کی ڈور میں لگے ہوئے ہیں۔

اب ہم دعا کو ایک اور رخ سے دیکھتے ہیں۔ دعا کو ـ"دے آ " یعنی ـ"د " پر پیش کی جگہ زیر پڑھتے ہیں یعنی تیر ے پاس جو ہے اس میں سے کچھ ضرورت مندوں، بیواؤں کو ، یتیموں کو اور بے سہاروں کو بھی دے آ۔ اس سے خدا ضرور خوش ہو گا۔جب خدا خوش ہوگا تو پھر ضرور دے گا۔ پھر ـ"دے آ " ـ"دو آ " بن جائے گی اور نعمتوں میں اضافہ ہو جائے گا۔

لیکن خدا کو کیا دیا جائے؟ خدا کو اس کی یا د میں آنسوؤں کی سوغات دے آؤ۔ عاجزی دے آؤ۔ محبت دے آؤ۔ بندگی اختیار کر لو۔ اس کی مخلوق کی خدمت کر لو ۔ یہ سب دینے میں شامل ہوجائے گا۔ پھر ہمیں مانگنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ پھر بن مانگے ہی ملنا شروع ہو جائے گا۔ پھر ہمارے بگڑے ہوئے کام بننے شروع ہو جائیں گے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم دعا کو صرف ـ"دو آ " کے مفہوم میں ہی نہ دیکھیں۔ بلکہ اس کو ـ"دے آ " کے لحاظ سے بھی سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔ خدا ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔۔(آمین)۔۔۔۔

MUHAMMAD IMRAN ZAFAR
About the Author: MUHAMMAD IMRAN ZAFAR Read More Articles by MUHAMMAD IMRAN ZAFAR: 29 Articles with 34659 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.