شاہین اختر
کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے اپنے وزیر دفاع کو بھاری فنڈز دیئے کہ سلطنت کے
دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دو۔ کئی برس گزر گئے لیکن ملک میں بڑے پیمانے پر
ہتھیاروں کی تیاری یا فوجی بھرتی کے مراکز دیکھنے سننے میں نہ آئے تو وزیر
دفاع کے مخالفین اور حاسدین نے بادشاہ کے کان بھرنے شروع کر دیئے جس پر
وزیر دفاع کو شاہی دربار میں طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیاچنانچہ وزیر دفاع جب
دربار میں حاضر ہوا تو اُس کو فرد جرم پڑھ کر سنائی گئی کہ آپ کو بھاری
فنڈز سلطنت کے دفاع کے لئے دیئے گئے تھے لیکن اب تک نہ کوئی فوجی بھرتی اور
نئی فوج اور نہ ہی ہتھیاروں کی تیاری اور نمائش دیکھنے میں آئی ہے۔ آپ نے
دیئے گئے فنڈز کو کہاں استعمال کیا؟۔
جواب میں وزیر دفاع نے کہا کہ بادشاہ سلامت میں نے ایسے قلعے بنا دیئے ہیں
جن کو کوئی فوج فتح نہیں کرسکتی نہ ہی اُن کی طاقت کو مٹایا یا چرایا
جاسکتا ہے جس پر بادشاہ نے معاملے کی مزید وضاحت طلب کی تو وزیر دفاع نے
کہا کہ میں ملک بھر میں تعلیمی اداروں کا جال بچھا دیا ہے جہاں سے تیار
ہونے والے طلباء حرب و ضرب کے جنگی علوم، ہر طرح کی ایجادات کو تیار کرنے
اور استعمال کرنے میں اپنی مثال آپ ہونگے۔ ان نظریاتی لوگوں کے نظریہ کو
کوئی شکست نہیں دے سکے گا کیونکہ بڑی سے بڑی فوج کسی دوسری فوج کو شکست تو
دے سکتی ہے مگر کوئی بڑی سے بڑی فوج کسی نظریے اور نظریاتی قوم کو شکست
نہیں دے سکتی۔ یہ سن کر بادشاہ بہت خوش ہوا اور وزیر دفاع کو انعامات سے
نوازا۔
یہ قصہ کہانی یا واقعہ مجھے سنانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ گزشتہ دنوں
میں نے گوجر خان کی یونین کونسل جرموٹ میں موہڑہ برج کے مقام پر اِبنِ
خلدون کا ناقابل تسخیر قلعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ابن خلدون ماڈل
اکیڈمی کی صورت میں پرنسپل قاضی محمد عمران نے یہاں طلباء و طالبات کی
نرسری سے بی اے تک صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ تربیت کا بھی اتنا شاندار اہتمام
کررکھا ہے کہ یہاں تیار ہونے والے طلباء و طالبات علمی نظریاتی اور ثقافتی
اعتبار سے سچے پاکستانی اور پکے مسلمان بن کر فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ ماشاء
اﷲ 2000ء میں ابن خلدون جیسی عظیم علمی شخصیت کے نام سے منسوب جس ابن خلدون
ماڈل اکیڈمی کی داغ بیل قاضی محمد عمران نے ڈالی تھی آج وہ تن آور شجر سایہ
دار بن چکا ہے جسے علمی و نظریاتی مینارۂ نور کہا جائے تب بھی الفاظ علمی
تصویر کو پوری طرح پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ 16کنال رقبے پر محیط پانچ سو
طلباء و طالبات کیلئے 40 اساتذہ تعلیم و تربیت کو نوکری نہیں بلکہ مقصد
حیات سمجھ کر جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔ نرسری سے میٹرک تک سائنس اور آرٹس
طلباء و طالبات کیلئے جبکہ ایف اے سے بی اے تک صرف طالبات کی کلاسز تعلیمی
اعتبار سے معیاری بھی ہیں اور جاری و ساری ہیں۔ قابل ذکر اساتذہ میں فیصل
آزاد ایم ایس سی، عاصمہ ناز ایم اے انگلش اور ثاقب نے بی ایس سی کی ہوئی ہے
۔ 7سال تک تعلیمی خدمات انجام دینے والی ٹیچر صائقہ پروین جو ٹریفک حادثے
میں جاں بحق ہو گئی تھیں اُن کے نام پر انوائرمینٹل واچ ٹرسٹ کی شجرکاری
مہم کے دوران اُن کے والد محترم نے پودا لگایا تو میری آنکھیں بھر آئیں۔
انوائرمینٹل واچ ٹرسٹ کی طرف سے ابن خلدون اور بانیان پاکستان کے نام سے
بھی پودے لگائے گئے تاہم اپنے پیاروں کے نام پر پودے لگانے کی ای ڈبلیو ٹی
کی دعوت پر صائقہ پروین کے نام پر لگایا گیا پودا میں ہر صورت پروان چڑھتا
دیکھنا چاہتی ہوں۔ بات ہو رہی تھی ابن خلدون ماڈل اکیڈمی کی تو میری نظر
میں قابل فخر وہ والدین ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے
ابن خلدون کے نام سے منسوب اس ماڈل اکیڈمی کا انتخاب کیا ہے۔ ابن خلدون کو
بچپن ہی سے تعلیم کا شوق تھا اور نحو، لغت، فقہ، حدیث، منطق، فلسفہ، کلام
وغیرہ میں مہارت حاصل کی۔ عبدالرحمن ابن خلدون بطور مورخ اور بانی
عمرانیا(سماجیات) زیادہ مشہور ہوئے۔ عبدالرحمن ابن خلدون کی کتاب ’’العبر‘‘
اس زمانے کی اہم تاریخوں میں شمار ہوتی ہے۔ خصوصاً اس کا ’’مقدمہ‘‘ علمی
دنیا میں معرکتہ الآراء حیثیت کا مالک ہے۔ یہی وہ حصہ کتاب ہے جس نے
عبدالرحمن ابن خلدون کو بام ِ شہرت پر پہنچا دیا ہے۔ اس کی تاریخ تو شاید
اتنی زیادہ مستند نہیں لیکن ’’مقدمہ‘‘ میں پہلی بار اس نے ’’تاریخ و تمدن
عالم‘‘ کا سائنٹیفک تجزیہ کیا ہے اور ان کے عروج و زوال کے بارے میں ایک
واضح نظریہ پیش کیا ہے۔ اس کے خیال میں تاریخ بذات خود ایک زندہ اور فعال
شے ہے۔ قومیں ہمیشہ ایک حالت پر نہیں رہتیں اس لحاظ سے ابن خلدون فلسفہ
تاریخ کا بانی ہے۔ عصر حاضر کے مشہور مورخ ٹائن بی نے بھی اپنے نظریہ تاریخ
پیش کرتے ہوئے ابن خلدون سے خوشہ چینی کی ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ’’عیسائی دنیا
اس کی مثال پیش نہیں کرسکتی۔ حتیٰ کہ افلاطون، ارسطو اور آگسٹن بھی اس کے
ہم پایہ نہ تھے‘‘۔
|