مدینے میں عام معافی

حضور ﷺکی حیات طیبہ دوستوں و دشمنوں سے حسن سلوک کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔نبوت کے بعد حضور ﷺ13سال مکہ میں رہے اور اس دوران مکہ میں بڑا پر آشوب دور تھا مکہ کے سردار حضور ﷺکی جان کے درپے تھے اور انہیں اور ان کے ساتھیوں کو طرح طرح سے ستایا جاتا تھا اور اذیتیں پہنچائی جاتی تھیں جس سے مجبور ہو کر وہ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے۔ بعد میں مدینے پر بھی حملہ کیا گیا اور اس کا محاصرہ کر لیا گیا۔حضورﷺ نے اپنے ان دشمنوں سے، جنہوں نے انہیں اور ان کے ساتھیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے اور ان کو اذیتیں پہنچانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا ، مکہ پر قبضہ کے بعد جب مکہ والے انتقامی کارروائی کے خوف سے لرز رہے تھے اور اس کی توقع بھی کر رہے تھے تو حضور ﷺ نے ان سے کہا کہ جاؤ ، تم سب لوگ آزاد ہو، اور یہ کہتے ہوئے انہوں نے قرآن کی یہ آیت پڑھی کہ آج تمہاری کوئی پکڑ نہیں، اﷲ تم کو معاف کرے اور وہ ان پر رحم کرتا ہے جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں۔(12.92)مدینہ بھی منافقوں اور دشمنوں سے پاک نہ تھا۔ یہاں انہوں نے حضور ﷺ کو رسوا کرنا چاہا اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ ان کا سرغنہ عبداﷲ بن عبائی تھا اس نے بظاہر اسلام قبول کر رکھا تھا لیکن حضور ﷺ کے تئیں انتہائی معاندانہ جذبات رکھتا تھا۔حضور ﷺ کی احادیث کا مجموعہ بخاری شریف میں دو باب میں اس بات کا ذکر ہے کہ جہاں عبداﷲ بن عبائی نے حضورﷺ کی شان میں بد گوئی کی تھی لیکن حضور ﷺ نے اسے نظر انداز کر دیا۔جنگ احد کے موقع پر جب قریش نے مدینہ پر ایک مسلح حملہ کا منصوبہ بنایا۔ حضور ﷺ کی قیادت میں مدینے کے تقریباً 1000باشندوں نے حملہ آوروں کو پسپا کرنے کے لئے کوچ کیا۔ عبداﷲ اور اس کے 300ساتھی بھی کچھ دور چلے لیکن اچانک ہی واپس ہو گئے۔یہ کھلی غداری تھی لیکن حضورﷺنے یہاں بھی عفو و درگذر سے کام لیا اور اس واقعہ کو نظر انداز کر دیا۔626میں بنو مستلیق سے واپسی کے وقت حضور ﷺ اور ان کے ساتھیوں نے خیمے لگا کر ایک مقام پر قیام کیا جہاں ایک مہاجر اور ایک مقامی شخص میں پانی کے مسئلہ پر تکرار ہو گئی۔ عبداﷲ نے موقع غنیمت جانا اور چنگاری بھڑکانے کی کوشش کی اور حضور ﷺ کو مدینہ بدر کر دینے کی دھمکی دی۔واپسی کے سفر میں اس سے بھی زیادہ گھناؤنی حرکت کی گئی۔ اسے اسلام میں بد خواہی کے ساتھ بہتان تراشی کی داستان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جس کا ذکر سورہ نور میں ہے۔ عبداﷲ اور اس کے ساتھیوں نے بی بی عائشہ کے خلاف انتہائی بھدی تحریک چلا کر حضور ﷺکی عزت داغدار کرنے کی مذموم حرکت کی۔بد قسمتی سے اس مذموم تحریک میں عبداﷲ کچھ مسلمانوں کو بھی شامل کرنے میں کامیاب ہو گیا اس میں حضرت عائشہ کا وہ چچا زاد بھائی مستاع بھی تھا جس کی بی بی عائشہ کے والد ابو بکر ﷺ کفالت کیا کرتے تھے اور اس کی ہر طرح سے مالی مدد کیا کرتے تھے۔ لیکن جب معاملہ صاف ہو گیا اور عبداﷲ کو منہ کی کھانی پڑی تو ابو بکر نے قسم کھائی کہ اب وہ مستا ع کی مدد نہیں کریں گے۔ لیکن قرآن نے اسے مسترد کر دیا اور فوراً ہی اس سلسلہ میں آیت نازل ہوئی۔ جس کے بعد ابو بکر نے توبہ و استغفار کیا اور مستاع کی امداد جاری رکھی۔لیکن عبداﷲ سے کیسے نپٹا گیا یا اسے کیا سزا دی گئی؟ اسے کوئی سزا نہیں دی گئی۔بلکہ اس کی موت کے بعد حضورﷺ نے اس کے کفن کے لئے اپنی چادر دی اور اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے انہیں ایسا کرنے سے یہ آیت سنا کر روکنے کی کوشش کی جس میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اگر تم ان لوگوں کو معاف کرنے کے لئے 70بار بھی کہو گے تو اﷲ انہیں معاف نہیں کرے گا۔ جس پر حضور ﷺ نے جواب دیا کہ میں 70سے زیادہ بار کہوں گا۔قرآن مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ نبی ﷺ کی سنت پر عمل کرو اور واضح طور پر کہتا ہے کہ بے شک رسول اﷲ حسن اخلاق کا ایک حسین نمونہ ہیں۔اور عفو و درگذر سے کام لینے ،معاف کر دینے، رحمدلی و سخاوت کا مظاہرہ کرنے اور ترس کھانے سے ہی ان کی سنت پر عمل کرنے کا اظہار ہو سکتا ہے اور یقیناًً اہانت رسولﷺ سے متعلق پاکستان کا غیر انسانی قانون اورعلماء کا غیر دانشمندانہ اور بے رحمانہ رویہ نبی پاک حضور ﷺ کے رحمدلانہ تصور کے مطابق نہیں ہے۔

M A TABASSUM
About the Author: M A TABASSUM Read More Articles by M A TABASSUM: 159 Articles with 155836 views m a tabassum
central president
columnist council of pakistan(ccp)
.. View More