دفتر سے چھٹی مغرب کے قریب ہوتی ہے۔ دفتر سے گھرپہنچنے کے
لیے دو گاڑیوں پر سفر کرنا پڑتا ہے۔ پہلی گاڑی سفاری پارک کے سامنے سے اور
دوسری گاڑی سہراب گوٹھ کے اسٹاپ سے ملتی ہے۔ سہراب گوٹھ پہنچنے پہنچنے
اندھیرا چھانے لگتا ہے۔ پہلے سہراب گوٹھ سے گلشن معمار کے لیے ایک بڑی بس
اور ایک منی بس کی سروس دستیاب تھی مگر آئے روز سی این جی کی بندش سے گلشن
معمار سے ٹاور تک چلنے والی بڑی بسیں ( 4-L ) الآصف کے اسٹاپ سے آگے نہیں
جاتیں، جبکہA-25 روٹ کی منی بسیں بھی چند ایک ہی رہ گئیں ہیں۔
ویسے بھی عوام نے بڑی بسوں میں سفر چھوڑ دیا تھا کیونکہ آئے روز ان بسوں
میں ڈکیتی کی وارداتیں معمول بن چکی تھیں۔ نتیجتاً اب لوگوں کی بڑی تعداد 4
سیٹوں والے سی این جی رکشہ میں سفر کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ منی بس کے
مقابلے میں روزانہ 10دس روپے اور اسی حساب سے ماہانہ 300روپے اضافی خرچ کر
کے سی این جی رکشوں میں جانے میں ترجیح دینے کا مقصد سفر کو محفوظ بنانا
ہوتا ہے۔ سی این جی رکشوں کی صورت میں ملنے والی اس عوامی سہولت نے لوگوں
کے سفر کو یقینی طور پر محفوظ بنا دیا تھا اور ایک طویل عرصے تک لوگوں کی
نہ جیب کٹی اور موبائل نکلے ، لیکن یہ سواری بھی آخر کب تک محفوظ رہتی! شہر
کراچی کے جرائم پیشہ افراد بڑے سمجھدار ہیں۔ جب انہوں نے یہ محسوس کیا کہ
لوگ اب بسوں میں سفر کرتے ہی نہیں اور اگر کرتے بھی ہیں تو بڑی تعداد ایسی
ہے جو اپنی مال و دولت کو بچا کر لے جاتے ہیں ۔
چنانچہ انہوں نے سپر ہائی وے پر دیگر گاڑیوں کے ساتھ ان سی این جی رکشوں کو
بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا اور اب موٹر سائیکل پر آنے والے دو سے تین
ڈاکو اسلحہ کے زور پر گاڑی رکواتے ہیں اور بس میں سوار تمام افراد کو
موبائل و نقدی سے محروم کر کے فرار ہو جاتے ہیں۔ ڈاکو روزنہ سہراب گوٹھ اور
سپر ہائی وے پر موجود براق پمپ کے درمیان کسی خوف و خطر کے بغیر درجنوں
گاڑیوں کو لوٹتے ہیں۔ ایسی ہی ایک دو وارداتوں کا میں چشم دید گواہ ہوں۔
کیچڑ سے چھپی نمبر پلیٹ والی موٹر سائیکل پر سوار نوجوان گاڑیوں کواسلحہ کی
نوک پر روکنے کے بعد لوٹ کر بڑی جلدی غائب ہو جاتے ہیں۔ واردات کے دوران
میں نے ان اسلحہ بردار نوجوان کے اندر بے خوفی کو محسوس کیا۔ بے خوفی ہو
بھی کس بات کی، کیوں کہ ان کو علم ہے کہ اس وقت اس طرف پولیس کی کسی گاڑی
نے نہیں آنا۔
ڈکیتی کی بڑھتی ہوئی ان وارداتوں کی وجہ سے سپر ہائی وے پر سفر کرنے والوں
کے چہروں پر خوف کے علاوہ فکر مندی بھی جھلک رہی ہوتی ہے کیونکہ لوکل
گاڑیوں میں سفر کرنے والے افراد لاکھوں یا کروڑوں کا سرمایہ رکھنے والے
نہیں ہوتے بلکہ یہ تو روزانہ کے چار پانچ سو روپے کمانے والے مزدور یا
ملازمت پیشہ طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں۔ لٹنے کے بعد ہر ایک چہرے
پر یہ فکر ہوتی ہے کہ وہ اب کرائے کے لیے پیسے کہاں سے لائے گا۔ آج وہ اپنے
گھر والوں کے لیے کھانا اور بچوں کے لیے دودھ کس سے ادھار لے کر جائے گا۔
ایسی صورت میں مجھے عدم تحفظ اور بے بسی کا شکار ان افراد بڑا ترس آتاہے۔
میں سوچتا ہوں ان افراد کو تحفظ کون فراہم کرے گا؟ نہ جانے تحفظ، حفاظت اور
انصاف اس طرح کے جملے زبان پر آتے ہی میرا ذہن پولیس کی طرف کیوں چلا جاتا
ہے۔ بھلا پولیس کا کسی کی حفاظت سے کیا کام۔ میں شہر میں ہونے والی روزانہ
کی بنیاد پر درجنوں جرائم کی وارداتوں کا تذکرہ نہیں کروں گا بلکہ صرف سپر
ہائی وے پر ہونے والی ڈکیتی کی وارداتوں کیاتذکرہ کرتے ہوئے یہ ضرور لکھوں
گاکہ پولیس تو مجھے روزانہ نظر آتی ہے۔ مقامی تھانے کی پولیس موبائل جرائم
کے سدباب اور لوگوں کو تحفظ کا احساس دلانے کے لیے سپر ہائی وے پر گشت نہیں
کر رہی ہوتی بلکہ ہمارے یہ محافظ سہراب گوٹھ پل پر کھڑے بیچارے موٹر سائیکل
سواروں، رکشہ والوں اور دیگر شریف افراد جوان کے اشارے پر رکنے کی غلطی کر
لیتے ہیں سے 100، 50 روپے بٹورنے کا فریضہ انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ ان کے
تھانے کی حدود میں کوئی جرم ہو، کوئی لٹ جائے کوئی قتل یا اغواء ہو جائے
انہیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ روزانہ لٹنے والے درجنوں افراد میں سے کوئی
تھانے نہیں جائے گا۔ عوام کی خدمت کے لیے بننے والی پولیس اور تھانے اس قدر
وحشت کی علامت بن چکے ہیں کہ کوئی بھی شریف آدمی تھانے کا رخ نہیں کرتا اور
جہاں تک رہی بات پولیس کے اعلیٰ افسران کی توانہیں عوام سے خواص کی فکر
ہوتی ہے۔ عوام پر ٹیکس اور مہنگائی کا بوجھ لادنے کے بعد بنایا جانے والا
یہ ادارہ اورا س کے 50% فیصد سے زائد اہلکار وی آئی پی شخصیات کے گھروں،
دفاتر اور اداروں اور دوران سفر حفاظت پر مامور ہوتے ہیں یا برسرِ اقتدار
سیاسی جماعت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اور کسی بڑے وزیر یا مشیر کے عتاب
سے بچنے کے لیے ان کے مخالفین کے خلاف مصروف عمل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ
پولیس کی کچھ اور مصروفیات بھی وقتا فوقتا سامنے آتی رہتی ہیں جس کی تازہ
مثال موچکو تھانے کے ایس ایچ او اور درجنوں اہلکاروں کا درخشاں تھانے کی
حدود میں جا کر ایک گھر میں گھس کر اہل خانہ کو یرغمال بنانے کے بعد لاکھوں
روپے نقدی،زیورات اور قیمتی موبائل فون ہتھیانے کی خبر ہے۔اس طرح کی پولیس
اہلکاروں کی جانب سے شرمناک کارروائیوں کے واقعات اکثر سننے کو ملتے ہیں۔
تو ایسے میں ظلم کی چکی میں پسنے والے بے چارے عوام کہاں جائیں اپنے جان و
مال کے لیے کہاں جائیں؟ یہ تھانے یہ پولیس یہ عدالتیں یہ خواص کے مفادات کا
تحفظ چھوڑ کر عوام کی کو ان کا حق کب دلائیں گے۔ جرائم اور بالخصوص مذکورہ
علاقے کو جرائم کی آماج گاہ بننے سے روکنے کے لیے میری شہری حکومت عوام اور
پولیس کی خدمت میں چندگزارشات ہیں۔
پہلی گزارش شہری حکومت سے ہے وہ یہ کہ سپرہائی وے کے اطراف میں مناسب روشنی
کے بجلی کے پول نصب کیے جائیں یا سولر لائیٹس لگائی جائیں۔ کیوں کہ ہائے وے
پر شام ہوتے ہی اندھیرا چھا جاتا ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گاڑیوں کو
یرغمال بنا کر لوٹ مار کرتے ہیں۔
دوسری گزارش محکمہ پولیس سے ہے کہ برائے مہربانی ایسے مقامات جہاں پر آئے
روز ڈکیتی اور اغواء کی وارداتیں ہوتیں ہیں ایسے علاقوں میں حفاظتی دستوں
کے گشت میں اضافہ کیا جائے اور سپرہائی وے پر تعینات پولیس اہلکاروں کو
جدید اور تیز رفتار گاڑیاں، سرچ لائیٹس ، جدید اسلحہ فراہم کیا جائے، چونکہ
جب کبھی پولیس کی گشتی پارٹی کو حرکت میں دیکھا ہے تو وہ زنگ آلودہ بندوقوں
کو گلے کا ہار بنائے ہوئے بے بسی کے ساتھ موبائل گاڑی کو دھکا لگاتے ہوئے
دیکھا ہے، جس کی وجہ اکثر یا تو ایندھن ختم ہو جانا یا گاڑی کی خرابی ہوتا
ہے۔ یوں بے بسی کی تصویر بنی پولیس اپنے آپ کو سنبھالے گی یا کسی دوسرے کی
حفاظت کرے گی۔
تیسری گزارش عوام سے ہے کہ برائے کرم بے حسی اور بزدلی کو چھوڑیں ، اپنی
جان و مال کی حفاظت کرنا آپ کا حق ہے۔ اگر پولیس یا کوئی بھی مدد کو نہیں
پہنچتا تو تھوڑی سی اگر ہمت کا مظاہرہ کر لیا جائے تو ان جرائم پیشہ افراد
پر بڑی آسانی کے ساتھ قابو پایا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ مجرم ہمیشہ بزدل ہوتے
ہیں ۔مجھے اتوار کو گلشن اقبال کے ایک باہمت شہری کی خبر سن کر بہت خوشی
محسوس ہوئی کہ اس کی کوشش اور فائرنگ سے دو ڈاکو اپنے انجام کو پہنچے۔ عوام
کو چاہیے کہ اسلحہ کا لائسنس حاصل کر کے ضرور اپنے پاس رکھیں اور اس کے
ذریعے اپنی حفاظت کرنا بھی سیکھیں کیوں حکومت کی جانب سے اسلحہ کا لائسنس
اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے ہی جاری کیا جاتا ہے۔ اگر معاشرے کے یہ
تینوں کردار اپنی اگر ذمہ داری ادا کرنا شروع کر دیں تو بہت سے لوگوں کی
جان و مال محفوظ ہو سکتی ہے۔ |