عہد جدید، عالمی ترقی اور ہمارا نوجوان

ہماری نوجوان نسل کیلئے نئے رجحانات اگر ایک طرف جدت کی رعنائیاں ان پر نچھاور کرتے ہیں تو دوسری طرف انکو بے راہ روی کی طرف مائل بھی کررہے ہیں جبکہ انکے رجحانات کا تعین صحیح سمت ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ اس موبائل معاشرے کی راہیں کسی بھی طرح ترقی اور کامیابی کیطرف گامزن نہیں۔ یہ بات تو واضع ہو چکی کہ اب انڈسٹری اور صنعت کسی نئی راہ پر گامزن نہیں کہ جسکا ایندھن زر تھا بلکہ آج کا دور معلومات کی بہتی رو کا ایک سیلاب ہے جسے آپ اطلاعاتی معاشرہ کہہ سکتے ہیں جبکہ اسکا ایندھن علم ہے۔ آج کا دور تہذیبوں کے ادغام کا دور ہے معلومات کا ایک سیلاب امڈ آیا ہے جبکہ اس عہد کی طاقت صرف علم کے مرہون منت ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہماری زندگیوں کو کنٹرول کرنے والی طاقت نے کئی روپ بدلے، ابتدائی زمانے میں طاقت صرف جسمانی قوت کا نام تھا، اور زیادہ طاقت ور اور تیز رفتار شخص نہ صرف اپنی زندگی بلکہ اردگرد موجود دوسرے لوگوں کی زندگیوں پہ بھی اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اسی طرح تہذیبی ارتقا کے ساتھ ساتھ طاقت وراثت کے نتیجے میں حاصل ہونے لگی۔ اپنے جاہ و جلال کے باعث بادشاہ واضح اختیارات کے ساتھ حکمرانی کرنے لگا جبکہ شاہی قرابت دار اپنی قربت کے باعث طاقت حاصل کر سکتے تھے۔ پھر اچانک زمانے نے جست بھری، عہد نے پلٹا کھایا اور صنعتی دور کی ابتداء ہوئی اور سرمایہ طاقت بن گیا جبکہ سرمایہ جن کی پہنچ میں تھا وہ صنعتی عمل کے باعث دوسروں پر قابض ہونے لگے مگر کب تک؟

البتہ آج بھی ان عوامل سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی کہ سرمائے کا ہونا نہ ہونے سے بہتر ہے، جسمانی توانائی کا ہونا بہرحال یقیناً بہتر ہے، تاہم، آج طاقت کا عظیم سرچشمہ صرف اور صرف علم ہے۔ ارتقاء کا دھارا اب کسی اور طرف گامزن ہے۔ اطلاعات کا دور ہے اور وہ بھی اصل ماخذ تک کی، کیونکہ اب معلومات کو یکجا کرنے کا دور نہیں اور نہ ہی ایک زبان سے دوسری زبان کے تراجم کا بلکہ یہ کام تو انٹرنیٹ کلب میں بیٹھا آٹھویں، نویں جماعت کا طالبعلم بھی انٹرنیٹ سرچ انجن کی بدولت سر انجام دے سکتا ہے پھر کمال کس بات کا؟ اب انٹرنیٹ کی بدولت ہر فرد کے پاس یہ سہولت آ چکی کہ وہ نہ صرف حقائق کی چھان بین خود کر سکتا ہے بلکہ اپنی آرا جو کہ بذات خود ایک معنی رکھتی ہے، کسی بھی طور اپنے بلاگ میں لکھ کر دوسروں تک پہنچا سکتا ہے، تو پھر لکھاری کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟

اس اطلاعاتی معاشرے کی ترجیحات اب کسی بھی طرح سے دقیانوسی نہیں رہیں۔ آج اگر طاقت کا بہاؤ ملاحظہ کرنا ہو تو زرا آنکھوں سے تفریحات کی پٹی اتار کر دیکھئے کہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والی دنیا میں اب طاقت کا توازن کیا ہے اور اسکا تعین کیسے کریں؟ ان حقائق سے کنارہ کشی کسی بھی طرح سے مزید دیر کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ جہاں اقوام عالم کے نوجوان دنیا کی طاقت کے مراکز ہیں وہاں ہم اپنی قوم کے نوجوان کو کیا دے رہے ہیں؟

قابل ذکر بات یہ ہے کہ آج طاقت کی کنجی تک رسائی ہم سب کے بس میں ہے۔ اگر آپ وسطی زمانہ میں بادشاہ نہ ہوتے تو آپکو بادشاہ بننے کیلئے بے پناہ تگ و دو کرنا پڑتی، صنعتی انقلاب کے آغاز میں، اگر آپ کے پاس زبردست سرمایہ نہ ہوتا تو آپ کے راستے کی رکاوٹیں آپ کی کامیابی کا راستہ مسد ور کر دیتیں۔ لیکن چند نوجوان آج ایک ایسی کارپوریشن کو جنم دے سکتے ہیں جو پوری دنیا کو ہی بدل ڈالے۔ جدید دنیا میں اطلاعات، انفارمیشن بادشاہوں کی چیز ہے۔ مختلف علوم تک رسائی کے باعث آج کا نوجوان نہ صرف اپنا آپ بلکہ پوری دنیا تک بدل کر رکھ سکتا ہے مگر یہ سب کچھ اسکی تربیت پہ منحصر ہے۔ ہمارا نوجوان کیا ہمارے اجتماعی رویہ سے مطمئین ہے؟ ہم نے اسے پچھلی چند ایک دہائیوں میں کیا دیا؟ صرف تفریحات کا ایک طوفان یا اور کچھ بھی؟ اسے اگر ایک طرف اک سرابِ نظر سے نکالنا ہے تو دوسری طرف میڈیا کی منفی یلغار سے بھی بچانا ہے۔ آج کے الیکٹرانک میڈیا میں ٹی وی چینلز کا کردار بہت اہم ہے، جہاں معاشرے کی روایتی قدروں کا خیال رکھنا ضروری ہے وہیں معمولات بھی کسی ضابطہ اخلاق کے پابند ہوں۔

7 دسمبر 2008 کو جب میرا کالم ٹی وی ڈراموں کے موضوع پر نوائے وقت میگزین کی زینت بنا تو ردعمل میں کسی تالاب میں ایک پتھر ثابت ہوا اور اس موضوع پر مختلف فورم پر سیمینار اور بحث جاری ہو گئی جو کہ ایک خوش آئندہ بات تھی مگر ان سب کے باوجود بھی سرکاری طور پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، دیکھیں یہ زہر اب اور کیا گل کھیلاتا ہے؟ مجھے کچھ غرض نہیں کبھی بے ربط تحریروں سے اور کبھی سیاست کے لایعنی موضوعات سے، کہ لکھے پہ لکھنے کی کوشش کی جائے، اور نہ بیرون ملک پاکستانیوں کی پاکستان کے بارے میں تشویش کے جو کہ اپنی جگہ بجا ہے، مبادہ خود تو اس ملک میں موجود نہیں، جبکہ یہاں موجود لوگوں کی اور بیرون ممالک پاکستانیوں کی ترجیحات میں زمین میں آسمان کا فرق ہے۔ یہاں تو آٹا، چینی، بجلی، کا بحران بلکہ اب بقول وزیراعظم پاکستان، پانی، بجلی اور گیس کے بحران کے امکانات موجود ہیں۔ ابھی گزشتہ روز کراچی کے علاقے کھوڑی گارڈن میں مفت راشن کی تقسیم کے دوران بھگدڑ اور رش کے دوران خواتین اور بچوں سمیت 14 افراد جاں بحق ہو گئے۔ غربت اور مہنگائی نے تو عام آدمی کو دیوار سے لگا دیا ہے، لہٰذا ہماری ترجیحات قطعی مختلف ہیں، ہمیں تو اس دیوار سے لگے افراد کو دیکھنا ہے جو مقامی حالات کے زیر اعتاب ہے اور اس نوجوان کو دیکھنا ہے جو اپنی راہیں متعین کرنے میں سرگرداں ہے اور جس نے آنے والے وقت میں اس ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنی ہے، کہ اسکی تربیت کس ماحول میں ہو رہی ہے۔ میں تنقید برائے تنقید کی ڈگر پر چلنے کا قائل نہیں ہوں بلکہ تنقید برائے اصلاح اور حوصلہ افزائی برائے خوش آئند کو پسند کرتا ہوں۔ مہمل اور لایعنی موضوعات جو کہ صرف کاغذوں کا پیٹ بھرنے کا کام کریں ان سے دوری ہی بہتر ہے بلکہ ہمیں نہ صرف اپنے رحجانات کو ترقی کی نہج پہ ڈالنا ہے بلکہ اپنی ترجیحات کا صحیح تعین بھی کرنا ہے۔

آئیے آپکو ایک طلسم کدے سے متعارف کروائیں جو اس اکیسویں صدی میں بھی اپنی مثال آپ ہے اور اسکا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے مگر مجال ہے کہ کسی میں اسکی تمازت برداشت کرنے کی ہمت ہو اور اس کے خلاف آواز بلند کرنے کی جرات ہو؟ اس جادو کا اثر تو خیر تقریباً ہر اس گھر میں موجود ہے جو ٹی وی جیسی ’نعمت ‘ سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ شرم ہو حیاء کی روایتوں کو تار تار کرتے ہوئے اسکے ڈانڈے اعلانیہ بج رہے ہیں۔ شیر خوار بچے جو ماؤں کی گود میں لوری اور حمد و نعت کی آواز سننے کے عادی تھے مگر اب کسی نئے انداز میں اور کسی انجانی دھن پہ تھر تھراتے ہیں اور انکی پرورش بھی کوئی اور ہی انداز اختیار کرتی جا رہی ہے، جبکہ نئی نسل تو ادب و آداب بالائے طاق رکھے ہوئے ہے اور طوفان بدتمیزی کی آمد آمد ہے۔ کیا ماؤں کو اپنی نئی نسل کی کوئی فکر نہیں، کیا روایتی قدریں اپنی قیمت وقعت کھو چکیں؟ کیا ہمارے نوجوان کسی بھی آہنی اور مضبوط روایت کی ڈگر پہ چل سکیں گے؟ بے جا افراتفری، بے چینی اور اپنے مذہب سے دوری، اگر یہی تربیت ایک قوم کے معماروں کیلئے ہے تو پھر ان سے کونسی امید لگائی جائے؟

ملاحظہ کریں !!! جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے ،آج تک آپ اس طرح کی معرکہ آراء باتیں قصے کہانیوں میں سنتے آئے ہیں، مگر یہ ہوشربا مناظر اب آپ کو دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ آج کے دور میں ٹیلی ویژن نہ صرف گھریلو تفریح کا اچھا ذریعہ سمجھا جاتا ہے بلکہ اس کی حیثیت گھر کے ایک فرد جیسی ہو چکی ہے جس کے بغیر گھر نامکمل سا لگتا ہے۔ ایک طرف اگر دنیا جہاں کی معلومات گھر بیٹھے ملتی ہیں تو دوسری طرف اس کے تفریحی پروگرام کسی طرح بھی طلسم ہوش ربا سے کم نہیں۔ خاص طور پر مختلف چینلز کے کبھی نہ ختم ہونے والے طلسمی جال نے بچوں سے لے کر بوڑھوں تک کو جکڑ رکھا ہے۔ گھریلو خواتین کیلئے ان کی اہمیت ایک وقت کا کھانا تیار کرنے کے مترادف ہے۔ ان ڈراموں کے موضوعات زیادہ تر گھریلو مسائل، رشتوں کے اقدار، محبت و نفرت کی جنگ اور خواہشوں کے نت نئے انداز کے اردگرد گھومتے ہیں۔ ان کہانیوں میں روایتی ہیرو، ہیروئن کے انجام سے ہٹ کر ایک نئی روش اختیار کر گئی ہے کہ ڈرامہ کی کہانی تمام کرداروں کا باری باری طواف کرتی ہیں اور اس طرح سے ایک لامتناعی سلسلہ سالہا سال سے چلتا آ رہا ہے۔ روز مرہ کے عام موضوعات سے لے کر کٹھن مراحل زندگی کو سلجھانے کی کوشش اور نت نئے موضوعات کی دلفریبی نے ناظرین کو الجھا کر رکھ دیا ہے اور اس طرح اس طلسم ہوشربا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ پروگرام بچوں کے ہوں یا بڑوں کے زمانے کی رنگینی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ آزادی و لذت کے وہ سارے سامان میسر ہیں جو ہر آج کو رنگین بنا رہے ہیں اور ہر کل سے بے خوف کر رہے ہیں۔

اگر اس سراب نظر سے توجہ ہٹائی جائے تو کچھ اہم باتیں توجہ طلب ہیں جہاں یہ تفریحی پروگرام اور ڈرامے اعلیٰ تفریح اور سبق آموز کہانیوں کا مسکن سمجھے جاتے ہیں وہیں ہندوانہ مذہبی شعائر کے اعلیٰ تربیتی مراکز بھی ہیں۔ ان میں نہ صرف ہندو مت کے نظریات کو خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے بلکہ گھر بیٹھے لوگوں کو مفت ہندوانہ مذہبی رسومات کی تربیت دی جا رہی ہے۔ ان ڈراموں کے طلسم میں جکڑے ہوئے لوگ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر نئی قسط میں ایک نیا مذہبی سبق (Course)حاصل کرتے ہیں اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس سبق کو یاد کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ اس تربیتی پروگرام کو کبھی نہ بھولنے والے خوبصورت مناظر میں قلم بند کیا جاتا ہے۔ ایک بچے کے پیدا ہونے سے لیکر مرنے کے بعد تک کی تمام ہندو مذہبی رسومات کو اعلیٰ ڈرامائی شکل دے کر جو اسباق مرتب کئے گئے ہیں ان کے شاندار نتائج سے رو گردانی نہیں کی جا سکتی۔ اب اگر ایک مسلمان بچے کی تربیت ایسے ماحول میں کی جائے جہاں کا اوڑھنا بچھونا ہندوانہ ہو تو اس سے کس مستقبل کی امّید کی جا سکتی ہے؟ ایجادات اور تفریح کے اس دور میں کہیں ہم اپنا وجود تو نہیں کھو چکے؟ آج احساس نام کی کوئی چیز میسر آ جائے تو غنیمت جانئے اور صرف ایک بار تفریح کی عینک اتار کر حقیقت کی نظر سے دیکھیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ کیبل و انٹرنیٹ کے اس جدید دور میں ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ من پسند زندگی گزارے۔ یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں کہ رسل و رسائل کے ذرائع کو کسی معیار کا پابند بنایا جائے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ افراد کی تربیت اس طرح سے کی جائے کہ وہ حقیقت سے شناسا ہوں۔ آج اگر ایک ناپختہ ذہن بچہ ہندوانہ مذہبی رسومات کو معمولات زندگی سمجھ کر سیکھ رہا ہے تو کل کو وہ کس کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر اپنا ”اسلامی تشخص“ تلاش کرے گا؟

ہم جس بھی رنگ میں رنگے جا رہے ہیں اس کا تو اب احساس بھی ختم ہوتا جا رہا ہے روزمرہ معاملات اب اس تربیت کے باعث ہمیں مختلف دکھائی دیتے ہیں ہمارے رسم و رواج کے اندر جو کچھ ملاوٹ ہو چکی ہے شاید اس کا خمیازہ آئندہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔ اس نئے دور کی نئی تہذیب کے جو ثمرات ہمیں مل رہے ہیں اس کا Credit کریڈٹ اس ذہن کو دینا چاہیے جس نے کامیابی کے ساتھ اپنا رنگ ہمارے اوپر رنگ دیا ہے اور ہمیں پتا بھی نہیں چلنے دیا۔ اب امید کی جا سکتی ہے کہ ہم، جو کہ اس دلدل میں بری طرح پھنس چکے ہیں اور بچنے کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں، اگلے مرحلے (Stage) پہ اپنا وجود کھو چکے ہوں گے۔

جہاں ہمارے پاس دوسروں کی برائیاں کرنے کیلئے بہت وقت ہے وہاں ہم اپنے گریبان میں جھانکنے کی جرات نہیں کرتے۔ اپنے آپ کو احساس (Realize) دلانے کا وقت بھی نہیں یہ سلسلہ اگر یونہی چلتا رہا تو نامعلوم کتنی نسلوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا آج اگر ہم کم از کم اتنی ہمت کر لیں کہ اپنی آنکھوں کی پٹی اتار کر غیر جانبدار ہو کر اپنے ارد گرد بدلتے ہوئے زندگی کے رنگوں کو اپنی ”ذاتی“ آنکھوں سے دیکھ کر فیصلہ کریں کہ آیا ہم سب کچھ صحیح کر رہے ہیں یا کچھ غلط بھی ہو رہا ہے؟ آیا ہم اتنے لاپروا ہیں اور کیا ہمارے اوپر کوئی ذمہ داری نہیں؟ ہم کب تک معاملات سے پہلو تہی کرتے رہیں گے۔

آج اگر میں ایک بھی فرد کو اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب ہو جاؤں گا تو سمجھوں گا کہ میں نے اس قلم کا حق ادا کر دیا ہے جو میرے ذمہ تھا۔ تحریریں لکھنے کا یہ مقصد صرف اپنے اندر سے اٹھنے والی وہ آواز جو کہ نوشتہ دیوار کی طرح وارد ہو رہی ہو سب کے سامنے رکھ دینا ہے۔ اس قوم کا ہم پر کچھ فرض ہے کہ ہر وہ سچ جو ملاوٹوں (Impurities)سے متاثر ہو رہا ہے اس کو جھوٹ سے علیحدہ کر دیں۔ آج ہماری قوم کے نوجوان بچے جس رنگ کو اپنا رہے ہیں کیا وہ ہمارا اپنا رنگ ہے؟ کیا ہمارا یہی ورثہ ہے کہ اگر ایک طرف ہم امپورٹڈ (Imported) اشیائے صرف پسند کرتے ہیں تو کیا دوسری طرف امپورٹڈ لائف اسٹائل کو بھی اپنا لیں جو چاہے ہماری تہذیب کی کمر میں چھرا ہی گھونپ رہا ہو؟ میری گزارش ہے کہ جو کچھ بھی آپ نے اِن تحریروں میں پڑھیں اپنی روز مرہ کی گپ شپ میں کم از کم دو تین دن تو ضرور اس کو شامل کریں، ہو سکتا ہے کسی کا بھلا ہو جائے اور آپ اپنے حصے کی ذمہ داری سے عہدہ برآں ہو سکیں۔
Muhammad Altaf Gohar
About the Author: Muhammad Altaf Gohar Read More Articles by Muhammad Altaf Gohar: 95 Articles with 175820 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.