میڈیا ”فاسٹ“ ہوگیا

اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ میڈیاموجودہ دور کی طاقتور ترین ، بااثر اور متاثر کن حقیقت بن چکا ہے۔ حکومتوں کو بنانے اور گرانے کی کنجی عرصہ دراز سے میڈیا کی جیب میں ہے، اسی لیے میڈیا کی قوت سے خوفزدہ نپولین بونا پاٹ نے کہا تھا کہ مجھے سوسنگینوں سے زیادہ ایک اخبار کا خوف ہوتا ہے۔ تحریک آزادی سے پہلے مولانا ابوالکلام آزاد کے ”الہلال“ اور مولانا ظفر علی خان کے”زمیندار“ نے منصہ شہود پر جلوہ گرہوکر اہل برصغیر کی توجہات کو اپنی جانب مبذول کیا، لوگ جلسوں میں اجتماعی طور پر ان اخبارات کو پڑھتے تھے، پھر ایسے ہی اخبارات نے برصغیر میں بیداری کی روح پھونکی، آزادی کی چنگاری سلگائی، گوروں کے کشتوں کے پشتے لگائے اور انہیں دیس نکالا دے کر چھوڑا۔ یہ تو سب پرانے ادوار کی باتیں ہیں، اب نیا دور ہے اور نئے دور کے نئے تقاضے۔ اب تو قوموں کے مزاج و اطوار بھی میڈیا کے اشاروں پر رقص کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ قوموں کی تہذیب و ثقافت اور رہن سہن کے معیارات بھی اب تو میڈیا ہی بناتا اور بتلاتاہے۔ میڈیا نے جو دکھایا، وہی قوم میں رواج پایا۔ چونکہ زمانہ فاسٹ ہوچکا ہے،اتنا فاسٹ کہ پکڑائی نہ دے اور جوں جوں زمانہ تیز سے تیزتر ہورہا ہے، میڈیا بھی اس سے دو چار قدم آگے ہی ہے۔ میڈیا بھی اتنا فاسٹ ہوگیا کہ ہر چیز کو روندتے ہوئے فرلانگیں بھرتا ہوا یہ جا وہ جا، کیونکہ اب وہ دور تو رہا نہیں کہ کسی خبر کو جاننے کے لیے صبح تک اخبار کا انتظار کرنا پڑے، اب الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے۔ ادھر کوئی واقعہ رونما ہوا، ادھر شور مچاتی ہوئی بریکنگ نیوز۔ اب تو چینلوں کا طوطی بولتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پرنٹ میڈیا سے کئی گنازیادہ طاقتور اور بااثر بھی ہے۔ چینل پر دیکھا جانے والا کوئی بھی سین اخبارمیں پڑھی جانے والی کسی بھی خبر کے مقابلے میں کہیں زیادہ دیر ذہن پر سواررہتا ہے۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ جو چیزبیک وقت دیکھی اور سنی جائے، اس چیز کے مقابلے میں جلدی ذہن نشین ہوتی ہے، جو صرف دیکھی یا صرف سنی جائے، الیکٹرانک میڈیا کا تو کام ہی دکھانا، سنانا اور ذہن بنانا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا اس دور میں اکیلا وہ کام دنوں میں کرسکتا ہے جوکوئی ادارہ شاید برسوں میں بھی نہ کرپائے، کیونکہ الیکٹرانک میڈیا اب وہاں پہنچ چکا ہے، جہاں کسی دوسرے کا دخل نہیں۔ ٹی وی ملک کے لاکھوں نہیں، کروڑوں گھرانوں کا شوق بن چکا ہے ،بلکہ اب تو ہر گھر کی ضرورت بھی کہلایا ہے۔
اب ملک میں چینل ایک نہیں، سو کے لگ بھگ ہیں۔ وہ زمانہ لد گیا، جب ملک بھر میں صرف ایک سرکاری چینل ”پی ٹی وی“ ہی بے تاج بادشاہ ہوا کرتا تھا،چینل انتظامیہ جو دکھانا چاہتی بادل نخواستہ ہر ایک کو وہ دیکھنا پڑتا تھا،اگر کوئی سرکاری چینل کو نہ دیکھنا چاہے تو اس کے پاس دو ہی آپشن ہوتے تھے، ٹی وی بند کردے یا پھر وہاں سے اٹھ کر چلا جائے، لیکن ملک میں الیکٹرانک میڈیا کا انقلاب آیا تو ٹی وی چینلوں کی لائنیں لگ گئیں۔ لائسنس کے ساتھ انہیں ہر قسم کی آزادی بھی ملی، جسے چینلز کا عروج کہا جاسکتا ہے، لیکن اس عروج کے ساتھ ساتھ بہت سی چیزوں پر زوال بھی آنا شروع ہوگیا۔ چونکہ میڈیا نے صنعت کی شکل اختیار کی، اشتہارات اس صنعت کی نشونما و تزئین و آرایش کا میٹریل بنے اور اشتہارات کی سالانہ مالیت تقریباً 30ارب روپے کا تعین ریٹنگ پر ہوتا ہے ، اس لیے ریٹنگ کی دوڑ میں بازی لے جانے کے لیے دوسرے چینلوں کو چت کرناضروری ٹھہرا، مقابلے کی اس دوڑ میں چینل خود تو آگے نکل گئے، لیکن مقصدیت کو کہیں پیچھے چھوڑ گئے۔ دوسرے چینلز کو شکست دینے کے لیے ہر وہ چیز دکھائی جانے لگی جس سے ریٹنگ بڑھتی ہو، خواہ قوم کے اذہان پر منفی اثرات ہی مرتب ہوں۔

ریٹنگ کی اس دوڑ میں ایک طرف تو چینلز نے گرماگرم ٹاک شوز اور چیختی چنگھاڑتی بریکنگ نیوز کا سلسلہ شروع کیا ، جبکہ دوسری جانب ناظرین کی آنکھو ں کو خیرہ کرنے کے لیے عورت کو بطور آلہ اور ذریعہ استعمال کرتے ہوئے ٹی وی اسکرین پراخلاقی اقدار سے گرے ہوئے اشتہارات اور مغربی و بھارتی تہذیب میں گندھے ہوئے پروگرام دکھائے جانے لگے۔ حالانکہ ریٹنگ کی جانچ کا خود کار نظام ”پیپل میٹر“ کسی چینل کی مقبولیت کے معیار کے لیے معتبر نہیں ہو سکتا۔اس میں آبادی کے نمائندہ نمونے کو لے کر 9 شہروں میں تقریباً700 گھرانوں میں ایک آلے کے ذریعے معلوم کیا جاتا ہے کہ کون سا چینل کس وقت دیکھا جا رہا ہے۔ ان گھرانوں سے رپورٹ خودکار طریقے سے میڈیا لاجک کے دفتر میں لگے کمپیوٹروں میں جمع ہوتی رہتی ہے، جس کے بعد میڈیا صنعت سے منسلک کمپنیوں کو بھیج دی جاتی ہے اور اسی رپورٹ کی بنا پر چینلوں کوکم یا زیادہ اشتہارات ملتے ہیں، اسی لیے ہر چینل میں بعض لوگوں کی دل کی دھڑکن ریٹنگ کے ساتھ اوپر نیچے ہوتی ہے، ریٹنگ کی خاطر ان کے ہاں مداری بننا بھی کوئی عیب نہیں۔ حالانکہ ریٹنگ کا لفظ صحافی کے لیے کسی طور بھی مناسب نہیں ہے، کیونکہ صحافی کو تو ہر چیز سے مبرا ہو کر خبر دینی اور تجزیہ کرنا ہے، لیکن چینلز کی آپسی مسابقت میں جہاں میڈیا نے عوام میں قائم اپنے اعتماد، اعتبار اور وقار کا گلاگھونٹا،وہیں ریٹنگ کی اس دوڑ میں ملک کے بہت سارے اہم مسائل کو خاطر خواہ جگہ نہ مل سکی۔

گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں قرارداد منظور کر کے ریٹنگ کے خبط میں مبتلا الیکٹرانک میڈیا کے گھوڑے کو لگام ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ متفقہ قرارد کے مطابق پیمرا کو چینلوں پر چلنے والے غیر اخلاقی پروگراموں کو کنٹرول کرنے کا کہا گیا ہے۔ پاکستانی ادارہ ”پیمرا“ میڈیا کو نشریات کا لائسنس جاری کرتا ہے اور لائسنس کے لیے ناگزیر چیزوں کو واضح کرتا ہے، جن میں نشر ہونے والے پروگرام اور اشتہارات کے حوالے سے قواعد وضو ابط شامل ہیں۔ پیمرا قوانین کے تحت کسی بھی پروگرام کے مشتملات، ا س کے بنیادی خاکے اور تصورات کی رہنمائی کے لیے قواعد وضع کیے گئے ہیں۔ میڈیا کی تشہیر اور کیبل آپریٹرز کے حوالے سے پیمرا کا ضابطہ اخلاق یہ ہے کہ کسی بھی طریقے سے بے شرمی پر ابھارنے، شہوانی جذبات بھڑکانے، غیر شائستہ اور توہین آمیز خیالات کی تشہیر کی اجازت نہیں ہے۔ ایسامواد جو نظریہ پاکستا ن اور اسلامی اقدار کے منافی ہو وہ بھی ممنوع ہے۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستانی قوم تہذیب و تمدن اور مذہب کے حوالے سے کسی بھی قسم کا سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوسکتی۔ اس لیے پیمرا کی ذمہ داری ہے کہ وہ ذرایع ابلاغ کو ناشائستگی، قومی اقدار کے منافی میڈیائی تفریح سے محفوظ رکھے، ملکی مفاد میں دنیا کے بیشتر ممالک میں میڈیا کے حوالے سے سخت قوانین مرتب کیے گئے ہیں، جن کے مطابق غیر مہذب اور عوام کے ذوق سلیم کو زک پہچانے والے مواد کی تشہیر پر سزا کا تعین کیا گیا ہے۔ کسی ایسے اشتہار کو شایع کرنے کی اجازت نہیں، جس میں عورت کے تحقیر آمیز امیج کو سامنے لایا جائے۔ اس کے ساتھ ماردھاڑ، پرتشدد اور مادر پدر آزاد پروگراموں کو سنسر کرنے کا مضبوط نظام بھی موجود ہے۔ پاکستان میں اپنی ذمہ داری کا ادراک و احساس کرتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کو چاہیے کہ متوازن اور صحت مند تفریحی سہولتوں کے ساتھ شعور کی بیداری پر مبنی ایسے پراگرام قوم کو دکھائے جو ہماری قومی شناخت، ملکی اقدار اور فکری یک جہتی میں ممدو معاون ثابت ہوں۔قوموں اور ملکوں کی ترقی میں جوکردار میڈیا ادا کرسکتا ہے وہ کوئی اور ادا نہیں کرسکتا۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700827 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.