اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات
هے.بےشک اسلام دنیا کا وه واحد مذہب ہے،جس میں انسان کی بهلائئ اور اس کی
حیاتِ طیبہ کا مکمل سامان موجود ہے.اسلام سب سے زیاده آسان مذہب ہے جیسا کہ
کہا جاتا ہے کہ اسلام میں جبر نہیں ہے اور اس کا فائدہ آج کے دور میں مخلوقِ
خدا سب سے زیادہ اُٹها رہی ہے.آج کے دور کودیکھ کر ۱۴۰۰ سال کے زمانہ کو
دیکها جائے تو زیاده فرق نہ ہو گا.آج کی عورت جہاں زمانہ جاہلیت کی عورت کی
طرح بے پردہ ہوتی جا رہی ہے. وہیں خود ہی اپنےحق کو اپنے ہاتهوں سے ختم کر
رہی ہے.
روزانہ کتنی ہی یونیورسٹیوں،کالجوں میں عورتوں کے حقوق پر بےشمار کانفرنس،
سیمنار منعقد کیے جاتے ہے.گهنٹہ دو گهنٹہ،مہمان،میزبان سینکڑوں لوگوں کے
سامنے اپنے اپنے نظریات بیان کرتے ہے اور چلے جاتے ہے،اور اپنی ہی کہی ہوئی
باتوں کو ہوا میں اُڑا دیتے ہیں.قرآن و حدیث کی روشنی میں اپنے تجربات بیان
کرتے ہیں، اور گهر پہنچ کر وہی لوگ ذرا سی غلطی پراپنی ملازمہ کو تشد د کا
نشانہ بناتے ہیں، بال کاٹ دیتے ہیں یا گهروں سے نکال دیتے ہیں.یہ سوچے
بغیرکہ کتنی مشکلات کے بعد وہ اپنے بچوں کا پیٹ پال رہی ہوگی. روز کتنے ہی
لوگ اسی طرح لقمہ اَجل بن جاتے هیں،اور پهر یہ بات منظرِعام پر لائی جاتی
ہے.کہ اپنی ہی لا پرواہی کی وجہ سے آج یہ اس حال کو پہنچے ہیں. اگر اِن
لوگوں سے باز پرس کی جائے تو دو چار بے نقط سنا کر یا ڈرا دهمکا کر تهانوں
کچہریوں کی دهمکیاں دے کر زبان بند کر دی جاتی ہے.
اوپر بیان کی گئی اصلیت اُُن تمام لوگوں کی ہے. جو صرف پردے کے پیچهے هی
رہتے ہیں.بجائے اِس کے کہ یہ اپنی بڑی بڑی باتوں کو عملی جامہ پہنائیں اور
آخرت کو بهی بہتر بنائیں،یہ ہی لوگ تمام ملوث ہوتے ہیں.زیاتیوں هوتے
هیں.پاکستان میں اگر مقام حاصل ہےتو اُن لوگوں کوجو سفارشوں کے زریعے
دوسروں کے حق کو بهی دبوچ لیتے ہیں.اس کی کئی مِثالیں ہمیں روزمره اپنے ارد
گرد نظر آتی ہیں، لیکن اِس معاشرے میں اپنے گهر والوں بیوی، بچوں کے لیے
اور اُن کی سانسوں کو بحال رکهنے کے لیے ہمیں اپنی زبانیں بند رکهنی پڑتی
ہیں.دوسری جانب نِت نئے بے ڈهنگے فیشن اپنا کر سینکڑوں لوگوں کے سامنے چل
کر اپنا آپ ظاهر کر کے گهر بییٹهی غریب کی بیٹی کی خواہشات کو چنگاری دیتی
ہے. جو غریب انسان اپنی بیٹی کو پڑهاکر کسی قابل نہیں بنا سکتا،وه دَس بیس
ہزار کا سوٹ کہاں سے لا کر دے گا؟ آج کا غریب انسان جہاں کے ہاتهوں بہت ہی
مجبور اور بےبس ہے.وہیں شاید بہت مطمئن بهی ہو.اِس کی زنده مثال اسلام آباد
کی کچی بستی ہے.جو شاید اسلام آباد کی زمین پرکچھ ہی دِنوں کی مہمان
ہے.جہاں ہزاروں غریب افغان اپنے پورے خاندان کے ساتھ کچے گهروں میں آباد
ہیں. لیکن چہرے اتنے مطمئن ہیں کہ شاید کسی مخمل کے بستر پر سونے والے بڑی
بڑی گاڑیوں میں گهومنے والے امیر آدمی کا چہره بهی اتنا مطمئن ور پُرسکون
نہ هو گا. اس کو بهی ہزار طرح کی مشکلات اور پریشانیوں نے گهیر رکها هو
گا..
ان غریبوں کے چہرے شاید اِس لیے مطمئن نظر آتے ہیں.کہ جب روزِ حشریہ الله
کے سامنے کهڑے هوں گے. اور الله اِن سے سوال کرے گا.کہ تم نے اپنی بیٹی کی
تربیت کیسے کی؟ کتنے پردوں میں اُس کو رکھ کر تمیز سیکهائی؟ اچهائی برائی
کا بتایا؟ تو وه ہر سوال کا جواب بِلا جهجک دےگا. کسی بهی شرمندگی کے بغیر.
لیکن کیا امیر آدمی تمام زندگی آسانیوں اور آسائشوں میں گزار کر اپنے ربّ
کے حضور کهڑا بهی هو سکے گا؟
زمانہ جاہلیت میں بهی جب لڑکیوں کو دفن کیا جاتا تها.تو اُس کے پیچهے بهی
ایک وجہ تهی. لڑکیوں کو بے پناه خطرات کا سامنا کرنا پڑتا تها. عزت محفوظ
نہ تهی. جیسے آج کے دور میں ہے. فرق صرف اتنا تها کہ اُس وقت کے لوگ جاہل
تهے. لاشعور تهے.اپنی حفاظت نہ کر سکتے تهے.آواز نہ اُٹها سکتے تهے.میڈیا
جیسی سہلوتوں سے محروم تهے.زندگیوں کو ختم کرنا جاہلیت کی وجہ سے بہت آسان
تها.
لیکن آج کی عورت باشعور اور با عقل ہے.حفاظت کرنا جانتی ہے. اپنی نسل کو
سنوار رہی ہے. لیکن کہیں نہ کہیں گستاخی کرتی جا رہی ہے.شاید اپنے نفس پر
قابو نہیں کر پا رہی، پیسہ کمزوری بن چکا ہے، کچھ غربت نے جکڑ لیا ہے.جہاں
آواز اُٹهانے کی ضرورت ہے، وہاں خاندان کی عزت زبان بند کر دیتی ہے.جہاں
پرده کرنا چاہیے وہاں لالچ اور حرص نے بے پردہ کر دیا ہے. خود اپنی عزت کی
حفاظت کرنا نہیں جانتی، حق کو استعمال کرنا نہیں جانتی. وه قومیں شاید اس
لیے جلد ہی برباد ہو جاتی ہے.جہاں حلال حرام کی تمیز ختم ہو جاتی ہے. اچها
بُرا کسے کہتے ہیں ہم لوگ آج بهی زمانہ جا ہلیت کی طرح ان الفاظ سے نا آشنا
ہیں.
اپنے حقوق کی حفاظت کرنا ہم نہیں جانتے. فرائض ادا کرنا ہمارے لیے مشکل
ہے.ہم دو منٹ بهی ایک اشارے پر رُک نہیں سکتے، اور لوگوں کی زندگیوں سے
کهیل جاتے ہیں، لوگوں کا تماشا بناتےہے، اور پهر اُمید کرتے ہیں دوسروں سے
کہ وه ہماری عزت کی حفاظت کرے، ہماری طرف دیکهے بهی نہ، جب کہ موقع دینے
والے بهی هم خود هی ہوتے ہیں.
اے حوا کی بیٹی تُو کس معاشرے سے امید رکهتی ہے؟ کے تیری حفاظت کرے. جہاں
ہر نکڑ پر ایک بهڑیا ضرور کهڑا ہوتا هے.جس کو اپنے گهر کی حفاظت نہیں کرنی
آتی. وه کسی عورت کی حفاظت کیسے کر سکتا ہے؟ جو کسی مجبوری کے باعث اس کے
ساتھ کا م کرنے پر مجبور ہے.کوئئ پڑهنے جا رہی ہے، تو کوئی پڑهانے جا رہی
ہے،تو کوئی باپ کے بعد اپنے خاندان کا سہارا ہے.
اے کاش۱ همارا معاشره اس بات کو سمجھ سکےکہ آج کے دور میں هر شخص مجبوری کے
باعث گهر سے نکلتا ہے. بے شک وه عورت ہو اس کا مقام اس دنیا میں بیان کیا
گیا ہے کہ خدا کے بعد تخلیق کرنے کا دوسرا بڑا سبب عورت ہے، اس پاک ہستی کی
عزت ہم پر فرض ہے. چاہے وه کسی کے گهر میں کام کرنے والی ماسی ہو یا کسی
سرکاری ادارے میں کسی اعلی عہدے پر فائز کوئی اعلی آفیسر.
اے کاش! همارے معاشرے کو عورت کا مقام اس کی حیثیت کا اندازه هو جائے. اے
کاش! ہم ہوش میں آ جائیں، اے کاش! هماری اس بهیانک خواب سے ٌٌٌآنکھ کهل
جائے اِس سے پہلے کے بہت دیر هوجا ئے.
اے کاش...!!! |