کہتے ہیں جب بولی گالی میں بدل
جائے اور دلیل گولی کا روپ دھار لے تو ایسے معاشرے میں کوئی بھی انہونی
انہونی نہیں رہتی۔دین کے نام پر سیاست عام ہو جاتی ہے اور معاشرے کی اخلاقی
اقدار زمین بوس ہونے لگتی ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں سے پاکستانی معاشرہ زوال
کا شکار ہے بے ایمانی ،ملاوٹ ، جھوٹ،اقرباپروری،دولت کا ناجائز استعمال ،ناجائز
ذرائع سے دولت کا حصول ،دولت کی غیر منصفانہ تقسیم،غربت کا بڑھتا ہوا گراف
۔حالیہ سروے کے مطابق اس وقت پاکستان میں تقریباََ 60 فیصدآبادی غربت کی
انتہائی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ جس میں سے صرف 2 فیصدطبقے
کو نکال کر جس کی زندگی میں راوی چین ہی چین لکھتا ہے باقی 38 فیصدبھی
کھینچ تان کر اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔اس صورتحال میں کسی بھی شعبے میں
یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ اپنے بنیادی افعال دیانت اور ایمانداری کے
ساتھ ادا کرسکے گا۔
دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح تعلیم کا شعبہ بھی انہی معاشرتی برائیوںسے
آلودہ رہا ہے ۔یہ کہنا بہت آسان ہے کہ جس ملک کےصدور اور وزیرائے اعظم
بدعنوانی کے مرتکب ہوتے ہوں ہم ایک استاد اور طالب علم کو بدعنوان ہونے سے
کیسے روک سکتے ہیں۔مگر معاملے کی سنگینی کو اگر محسوس کیا جائے تو مجھے یہ
کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ صدر یا وزیر اعظم بد عنوان ہوں تو ہمارا آج
برباد ہوتا ہے لیکن اگر آج کا استاد یا طالبعلم بدعنوانی کا مرتکب ہے تو
ہمارا صرف آج اور کل ہی نہیں بلکہ کئی نسلیں بھی تباہی کے راستے کی مسافر
بن جاتی ہیں۔
گزشتہ روز کراچی سمیت سندھ بھر میں میٹرک کے امتحانات شروع ہونے کی خبریں
ہر نیوز چینل کی زینت بنی رہی ، میٹرک اور انٹر کے امتحانات طلبہ اور
اساتذہ کیلئے بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں بلکہ یہ ان کی ذہانت و لیاقت
جانچنے کا بھی ایک معیار ہے ۔مگر افسوس صد افسوس سندھ میں ہونے والے ان
امتحانات کے حوالے سے نقل با الفاظ دیگر چھپائی کا مسئلہ جس پیمانے پر اُٹھ
کر سامنے آیا ہے اس نے ایک نہیں کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔
کراچی میں تھانے بکنے کی اصطلاح تو آپ نے ضرور سنی یا پڑھی ہو گی۔اب
امتحانی مراکز بھی خریدے اور بیچے جاتے ہیں۔بدنام زمانہ امتحانی مراکز کی
بلیک لسٹ بھی مشہور ہے۔جہاں امتحان دینے والے طلبہ دھڑلے سے نقل کرتے
ہیں۔امتحان میں کامیابی کیلئے ناجائز ذرائع استعمال کرتے ہیں۔رشوت کے طور
پر ہزاروں اور لاکھوں روپے دیئے اور لئے جاتے ہیں،کہیں امتحانات سے قبل ہی
رشوت دیکر پرچے خریدے جاتے ہیں،تو کہیں رقم دے کر دوران امتحان مطلوبہ مواد
حاصل کیا جاتا ہے۔یہ سلسلہ طلبہ کو ایڈمٹ کارڈ دینے کے وقت سے شروع ہو جاتا
ہے،جب میٹر ک یا انٹر کے طالب علم سے فی کارڈ کی مد میں سوسے ہزار روپے تک
وصول کیئے ہیں۔جب امتحان کی ابتداء ہی پیسے کی لین دین سے ہوتی ہو تو یہ
سلسلہ دراز ہو کر کہاں کہاں تک جائے گا؟ اورکیا کیا گل کھلائے گا؟؟
طلباء میں نقل کے رجحان کا ایک سبب والدین کی طرف سے بہترین گڑیڈ اور
نمایاں کامیابی کا دباؤ بھی تصور کیا جاتا ہے۔ والدین کو اس سے کوئی غرض
نہیں کہ سارا سال ان کے بچے علم کی کتابوں کو کتنا وقت ،اہمیت اور توجہ
دیتے رہے ہیں اور کتنا وقت غیر نصابی سرگرمیوں میں گزارتے ہیں۔ لیکن
امتحانات قریب آتے ہی والدین طلبہ کے اعصاب پر سوار ہوجاتے ہیں اور ان سے
بہترین نتائج کی امیدیں لگا لیتے ہیں۔
زندگی کے ہر شعبہ میں شارٹ کٹ کا بڑھتا ہوا رجحان تعلیم کے تقدس کو بھی
پامال کر رہا ہے۔مہذب اور قوم میں استاد کا درجہ اور مقام والدین سے بھی
افضل ہے۔ایک وہ دور تھا جب خلیفہ ہارون الرشید کے دونوں بیٹے امین اور
مامون استاد کی جوتیاں سیدھی کرنے اور اٹھانے کیلئے پہل کرنے کیلئے دوڑ
پڑتے تھے،آج ہم ہیں جنھوں نے استاد کو جوتیوں میں رکھا ہوا ہے۔ لیکن اس سب
میں قصور وار استاد بھی ہیں جو خود بھی اپنے مرتبے اور مقام سے ہٹ گئے
ہیں۔انھوں نے تعلیم کو پروفیشن سمجھ کر دونوں ہاتھوں سے جیبیں بھرتے ہوئے
کوچنگ سینٹر چلانا شروع کر دیئے ہیںجن کے متعلق ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ
کوچنگ سینٹر کم ’’ڈیٹ ‘‘سینٹر زیادہ ہیں۔
قصور دراصل نئی نسل کا بھی نہیںہم ببول بو کر گلاب کی آرزو نہیں کر
سکتے۔والدین کو چاہئے کہ وہ سچائی کے ساتھ اپنا محاسبہ کریں کہ دن رات کے
چوبیس گھنٹوں میںوہ اپنی اولاد کے سامنے کب کب مثالی کردار ادا کرتے ہیں؟
طلبہ صرف اساتذہ کی ہی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ والدین اور اساتذہ کا یکساں
فرض ہے۔
ساتھ ہی ساتھ محکمہ تعلیم کا بھی فرض ہے کہ وہ امتحانات کے نظام میںایسی
تبدیلیاں لائیں کہ طلبہ نقل کی بجائے اپنی ذہانت اور علم کے مطابق پرچہ حل
کر سکیں اور ایک روشن مستقبل کی شروعات کرسکیں۔ |