ملک کی خوشحالی کے لیے صدیقی تعلیمات پر عمل کی ضرورت
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد مجمع عام
میں سب سے پہلی تقریر جو فرمائی وہ اپنی سادگی ، اثر اندازی اور جامعیت میں
بے مثال ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ ایک مومن حاکم کی حکومت کی
پالیسی کیا ہونا چاہئے آپ نے فرمایا : ’’ اے لوگو ! واﷲ میں نے کبھی خفیہ
یا اعلانیہ حکومت کی تمنا نہیں کی۔ میں تم پر حاکم بنایا گیا ہوں ، در آنحا
لیکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں۔ اب تمہارا فرض یہ ہوگا کہ اگر میں اچھا کام
کروں تو میری اطاعت کرو۔ لیکن اگر میں ٹیڑھا ہوجاؤں تو مجھے سیدھا کردو ،
یاد رکھو ، سچائی امانت ہے اور جھوٹ بد دیانتی ہے۔ ‘‘ تم میں سے کمزور ترین
آدمی بھی میرے نزدیک طاقتور ہے جب تک کہ میں اس کا حق دلوا نہ دوں اور تم
میں سے قوی ترین شخص بھی میرے نزدیک کمزور تر ہے جب کہ میں دوسروں کا حق اس
سے حاصل نہ کرلوں۔ یادرکھو ! جو قوم اﷲ کی راہ میں جہاد کرنا چھوڑ دیتی ہے
اﷲ اسے ذلیل و خوار کرتا ہے اور جس قوم میں بدکاری پھیل جاتی ہے۔ خدا اسے
کسی عام مصیبت میں گرفتار کرادیتا ہے۔ اْٹھو ! اﷲ تم پر رحم کرے۔ اْٹھو
نماز کی تیاری کرو۔
جنگ موتہ ۸ ھ کے شہداء کے خون کا بدلہ لینے کیلئے نبی کریم صلی اﷲ علیہ
وسلم نے وفات سے کچھ دِن قبل اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہما کی سپہ سالاری میں
ایک مہم روانہ فرمائی تھی۔ اس فوج میں بڑے بڑے آزمودہ کار اور جلیل القدر
صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین بھی شامل تھے۔ ابھی یہ لشکر روانہ
ہی ہوا تھا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا اور عرب بھر میں فتنہ و
فساد اور بغاوت کی ہوائیں تیزی سے چلنے لگیں اس صورتحال کے پیش نظر بعض
صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کی رائے تھی کہ اسامہ رضی اﷲ عنہ
کے لشکر کو مرکز اسلام کی حفاظت کیلئے روک لیا جائے ، کیونکہ ایسے ناسازگار
حالات میں فوج کو مرکز خلافت سے دور بھیج دینا اور مدینہ کو خالی چھوڑ دینا
قرین دانش نہیں۔ علاوہ ازیں اس مہم سے پہلے دوسرے معاملات کا نپٹانا مثلاً
مرتدین کی سرکوبی وغیرہ ضروری ہے ، لیکن جو کچھ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی
نگاہ دوربین کام کررہی تھی۔ اس کا کسی کو اندازہ نہ تھا۔ اْنہوں نے شدت سے
اس رائے کی مخالفت فرمائی تھی اور ہا ’’ واﷲ ! اگر مدینہ میں سناٹا چھا
جائے اور وحشی درندے آکر میری ٹانگیں نوچ لیں تب بھی میں اس مہم کو نہیں
روک سکتا جس کی روانگی کا حکم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم دے چکے ہیں۔ چنانچہ
یہ مہم منزل مقصود کی طرف روانہ ہوئی اور سوا مہینے کے بعد فتح یاب ہوکر
واپس لوٹی۔ عرب میں اس کا بڑا اثر ہوا اور دشمنان اسلام نے سمجھ لیا کہ
مسلمانوں کے پاس اس قدر طاقت موجود ہے کہ وہ اتنی دور تک جہاد و قتال کیلئے
لشکر بھیج رہے ہیں۔
جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہما کے لشکر کو
روانہ کیا اور خود پیادہ پا مدینہ سے باہر تک اسے رخصت کرنے کیلئے تشریف
لائے۔ اسامہ رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا حضرت ! آپ سوار ہوجائیں یا مجھے پیدل
ہوجانے کی اجازت دیں ، تو فرمانے لگے بیٹا نہ میں سوار ہوں گا نہ تم پیدل
ہوگے۔ تم راہ میں جہاد کیلئے جا رہے ہو۔ میں چاہتا ہوں تمہارے گھوڑوں کا
اْڑایا ہوا غبار مجھ پر پڑجائے اور میں بھی تمہارے اجر میں شامل ہوجاؤں۔ ‘‘
جب لشکر کو رْخصت کرنے لگے تو فرمایا ’’ اﷲ کا نام لے کر راہِ خدا میں جاؤ۔
امانت میں خیانت نہ کرنا ، مال غنیمت کو مت چھپانا،بد عہدی اور بے وفائی سے
پرہیز کرنا، دشمنوں کے مردوں کا حلیہ مت بگاڑنا،بوڑھوں بچوں اور عورتوں کو
قتل نہ کرنا، سر سبز اور پھلدار درختوں کو مت کاٹنا اور کھانے کی ضرورت کے
سوا جانوروں کو ذبح مت کرنا۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نہایت متواضع اور سادہ مزاج تھے نہ صرف یہ کہ
اپنے تمام کام خود ہی سر انجام دینے کی کوشش کرتے بلکہ گلی محلہ والوں تک
کے کام کرنے میں عار محسوس نہ فرماتے تھے ،ہمسایوں کی خدمت گزاری کا جذبہ
یہاں تک تھا کہ بعض دفعہ ان کے مویشی تک چراتے اور دودھ دوہ دیتے تھے۔ جب
خلیفہ ہوئے تو آپ کے پڑوس میں ایک خاتون جس کی بکری کا دودھ آپ دوہا کرتے
تھے ، بہت متفکر ہوئی کہ اب ہماری بکری کا دودھ کون نکالے گا ؟ آپ کو معلوم
ہوا تو فرمایا ’’ خلافت مجھے خلق خدا کی خدمت سے باز نہیں رکھ سکتی ، یہ
کام اب بھی میں ہی سر انجام دیا کرونگا۔ ‘‘
سچ ہے سید القوم خادمہم سروری در دین ما خدمت گری ست |