ہمارے اباوٗاجداد نے تحریک پاکستان میں جانی و مالی
ہر طرح سے قائدین پاکستان کی مدد کی ۔برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان منتقل
ہوگئے ۔گورنمنٹ آف پاکستان کے شانہ بشانہ ملکی ترقی کے لیے خوب کام کیا ۔
ہماری پوری فیملی اعلی تعلیم یافتہ ہے۔2مارچ 1972کو میری سب سے چھوٹی بہن
عافیہ صدیقی کی پیدائش ہوئی۔عافیہ جیسے جیسے جوان ہوتی گئی ۔انسانیت کی
خدمت کا جذبہ بھی اس میں پروان چڑھتا گیا۔کہیں کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی
دیکھتی تو بغیر کسی ہچکچاہٹ کہ کسی بھی درد مند کا ساتھ دینے کے لیے تیار
ہوجاتی۔ وہ شروع ہی سے اسلامی رسم ورواج سے محبت کرتی ۔جب بھی کسی پلیٹ
فارم پر تقریر کا موقع ملتا تو موضوع اسلام پر بہت خوشی اور پختہ دلائل کے
ساتھ تقریر کرتی۔عافیہ کافی عرصہ تک امریکہ میں بھی مقیم رہی۔اور امریکہ ہی
کی مشہور یونیورسٹی ) MIT)سے اپنی قابلیت کی بدولت مکمل شکالرشپ حاصل کی ،اور
جیسے ہی عافیہ نے (ایم ائی ٹی )سے گریجوائیٹ مکمل کیا تو یونیورسٹی کے وائس
چانسلر نے عافیہ کے بارے میں کہا کہ
Afia is an institutuin in herself.
امریکہ میں کافی عرصہ مقیم رہنے کے بعد امریکن نیشلٹی آفر ہونے کے باوجود
ڈاکٹر عافیہ نے امریکن نیشلٹی لینے سے انکار کردیا ۔کیونکہ وہ اپنی شناخت
صرف اور صرف پاکستانی ہی رکھنا چاہتی تھی۔جس پاکستان کے لیے اس کے بڑوں نے
بیش بہا قربانیاں دیں۔پاکستان کے تعلیمی نظام میں تبدیلی لانے کے لیے ڈاکٹر
عافیہ کافی عرصے سے کوشاں تھیں۔انکی خواہش تھی کہ وہ پاکستان کے تعلیمی
نظام میں اسلامی تعلیمات متعارف کروائیں۔لیکن پاکستان میں دنیا کی قابل
خاتون ڈاکٹر کا موجود ہونا،اور اس خاتون کی جانب سے تعلیمی نظام کی بہتری
کے لیے اقدامات کرنا یقینا دشمنان اسلام اور دشمنان پاکستان کو برداشت نہ
ہوسکا اسی لیے ڈاکٹر عافیہ کو 30مارچ,2003کو اغوا کرکے امریکہ کے ہاتھوں
فروخت کردیا گیا یہ وہ وقت تھا جب وہ کراچی سے اسلام آباد روانہ ہونے کے
لیے ٹیکسی پر اپنے گھر سے نکلیں۔لیکن ائیرپورٹ پر پہنچنے سے قبل ہی غائب
کردی گیں۔ ڈاکٹر عافیہ کے اغوا کے بعد جب میری والدہ سمیت تمام گھر والوں
نے انکو ڈھونڈنے کی کوشش شروع کی تو کراچی میں مقیم ہم سب گھر والوں کو بھی
موت کی دھمکیاں دی جانے لگیں۔اور خاموش رہنے کا کہا جاتا رہا۔لیکن ڈاکٹر
عافیہ کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔ اور جب پتہ چلا تو ڈاکٹر عافیہ کی پہچان قیدی
نمبر 650بن چکی تھی۔ یہ کچھ معصومانہ باتیں تھیں دختر پاکستان ڈاکٹر عافیہ
صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی ۔جو انہوں نے لاہور میں ہونے والی
ملاقات میں اپنی بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقیکے متعلق ہمیں بتائیں۔جو کئی سالوں
سے اپنی بہن کی رہائی کے لیے پرامن جدوجہد کررہی ہیں۔
جی ہاں قارئین یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ ہمارے ملک کی بیٹی عافیہ صدیقی کے
ساتھ ہونے والے ظلم کی اندھی داستان ہے ڈاکٹر عافیہ کو اپنے گھر والوں سے
بچھڑے گیارہ برس بیت چکے ہیں۔ڈاکٹر عافیہ کو اغوا کے بعد بدمعاش امریکہ کے
حوالے فروخت کیاگیا۔ امریکہ نے انہیں بگرام جیل افغانستان میں قید
رکھا۔جہاں ڈاکٹر عافیہ کو قیدی نمبر 650الاٹ کردیاگیا۔ڈاکٹر عافیہ پر ہونے
والے ظلم کی داستان اتنی خوفناک ہے کہ بیان کرنا نا ممکن ، اور اگر قلم سے
لکھنے کی کوشش کریں تو قلم ساتھ نہیں دیتا۔بگرام جیل ہی سے آزاد ہونے والا
ایک بے گناہ پاکستانی قیدی معظم بیگ اپنی کتاب میں لکھتاہے کہ جب قیدی نمبر
650یعنی ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر تشددہوتا تو پوری بگرام جیل اسکی چیخوں کی
آوازسے کانپ اٹھتی تھی ۔ اور اسکی یہ کتاب پڑھ کر نومسلم برطانوی صحافی (ریڈلے
)نے قیدی نمبر 650کے متعلق اپنی تفتیش کا آغاز کیا۔اور بالاآخر 2008میں
برطانوی صحافی نے قیدی نمبر 650کا بھانڈا پھوڑ دیا۔جس کے مطابق قیدی نمبر
650کوئی اورنہیں بلکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہی ہے جس پر امریکن فوجیوں کی جانب
سے بہت ظلم کیا جاتا ہے ۔ جیسے ہی ڈاکٹر فوزیہ کو قیدی نمبر 650کی صورت میں
ڈاکٹر عافیہ کا علم ہوا تو انہوں نے اپنی بہن اور اسکے بچوں کی آزادی کے
لیے ملک گیر احتجاج شروع کردیا۔جس میں سیاسی قائدین سمیت عوام کی بھرپور
تعداد نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا ساتھ دیا۔ بالاآخر عوام کے بھرپور احتجاج
رنگ لے آیا۔اور حکومت نے امریکہ کی قید سے عافیہ صدیقی کے بچوں کورہائی
دلواکر ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے حوالے کردیا۔ لیکن امریکن حکام کی جانب سے
ڈاکٹر عافیہ پر امریکن فوجیوں پر گولی چلانے کا جھوٹا مقدمہ بنا کر امریکن
جیل منتقل کر دیا۔اور عدالت میں کسی بھی قسم کا مناسب ثبوت نہ ہونے کے
باوجود بھی امریکن عدالت کے بے حس جج برمن نے ڈاکٹر عافیہ کو 86برس کی سزا
سنادی۔ ڈاکٹر عافیہ کو سزا سنانے کے بعد امریکن جج نے ڈاکٹر عافیہ سے کہا
کہ اگر تم مجھ سے رحم کی اپیل کرو تو میں تمہاری سزا کچھ کم کر سکتا ہوں۔جس
کے جواب میں وہیل چیر پر بیٹھی عافیہ نے جواباً انتہائی نرم لہجہ میں کہا
کہ جج صاحب اگر میں رہم کی اپیل کروں گی تو وہ پروردگار سے کروں گی۔اور
عافیہ کے اس جواب کے بعد عدالت میں موجود تمام لوگوں کی جانب سے جج برمن کے
خلاف ( shame shame) کے نعرے بلند ہونے لگے۔کیونکہ انہوں نے انصاف کو رسوا
ہوتے دیکھ لیا تھا۔ انصاف سب کے لیے کا نعرہ بلند کرنے والے امریکہ کا
مکروہ چہرہ دیکھ لیاتھا۔عافیہ کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے بعد امریکن
این جی او ( (peace through justiceکے سربراہ موری صلاح خان نے بھی امریکن
حکام کے خلاف عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے پوری دنیا میں تحریک چلانے کا
آغاز کردیا ہے۔جو ابتک دنیا کے کئی ممامک میں معصوم عافیہ کے بے گناہ ہونے
کے بارے میں آواز پہنچا چکے ہیں۔افسوس کی بات ہے پوری امت مسلمہ کے لیے ،
جن کی بہن کفار کی قید میں ہے اور ان کو اسکی کوئی پرواہ ہی نہیں۔ ایک
امریکن این جی او کے سربراہ کو ڈاکٹر عافیہ پر ہونے والا ظلم واضح دکھائی
دے گیا ،اور اس نے عافیہ کی رہائی کے لیے پوری دنیا میں احتجاج شروع کردیا
۔لیکن پتہ نہیں ہمار ی تمام این جی اوز کیوں خاموش تماشائی بنی بیٹھی
ہیں۔جنہیں اپنی بیٹی کی رہائی سے کوئی سروکار نہیں۔
خدارا! ایک مسلمان ہونے کے ناطے اگر آپ عام شہری ہیں تو عافیہ کی رہائی کے
لیے دعا کرنے میں کمی نہ چھوڑیں ۔اگروکیل ہیں تو اپنی وکالت کے ذریعے ڈاکٹر
عافیہ کی رہائی کے لیے کوششیں تیز کریں۔اگر سیاستدان ہیں تو اپنی سیاسی
اثرورسوخ کے ذریعے پوری دنیا کوامریکہ میں پھنسی اپنی بے گناہ بیٹی کی بے
گناہی سے آگاہ کریں۔ اور اگر صحافت سے وابستہ ہیں تو اپنے قلم کے ذریعے
دنیا کو عافیہ کی بے گناہی سے آگاہ کریں۔اوراگر کسی کاروباری شخص کے پیسے
سے عافیہ رہا ہوسکتی ہے تو وہ بھی اپنا فرض ضرور ادا کرنے میں کوتا ہی نہ
کرئے۔ہو سکتاہے کہ روز قیامت ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے کی جانے والی
کوشش ہی ہماری بخشش کا ذریعہ بن جائے۔
قائداعظم کے شانہ بشانہ ڈاکٹر عافیہ کے اباوٗاجداد نے جن مقاصد کے لیے
پاکستان آزاد کروایا تھا۔ان مقاصد میں سے ایک مقصد اس ملک میں بسنے والے ہر
شخص کی جان و مال کا تحفظ بھی تھا۔نہ کہ ملک کی بیٹی کو غیروں کے ہاتھوں
فروخت کرنا ۔یقینا ڈاکٹر عافیہ کی رہائی پوری قوم اور حکومت وقت کے لیے ایک
بہت بڑا چیلنج ہے حکمران وقت کا فرض ہے کہ وہ محمد بن قاسم کی مثا ل سامنے
رکھتے ہوئے امریکن حکام کے سامنے ڈٹ جائیں۔اور ہر معاملے کا ایک ہی جواب
عافیہ کی رہائی سے منسلک کردیں۔ کیونکہ ڈاکٹر عافیہ کے چہرے سے جھلکنے والی
مایوسی محمد بن قاسم کو ڈھونڈ رہی ہے ۔الیکشن میں کامیابی سے قبل میاں
صاحبان نے بارہا ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے اقدامات کا عوام کو یقین
دلایا تھا۔لیکن حکومت کی جانب سے رہنے والی خاموشی کوئی مناسب پیغام نہیں
دیتی،پچھلے دور حکومت میں حکومت پاکستان نے ڈاکٹر عافیہ کے بچوں کو امریکن
قید سے آزاد کروا کر آدھا کام کردیا تھا۔اور اب موجودہ حکومت کی یہ ذمہ
داری بنتی ہے کہ عافیہ کی رہائی کو یقینی بنا کر کام مکمل کردیں۔ حکومت
ڈاکٹر عافیہ کو اغوا کرنے اور غیروں کے ہاتھوں فروخت کرکے امریکن ڈالر
کمانے والوں کو سزا دیکر دنیا کے سامنے عبرت کا نشان بنا ئے ۔حکومت وقت
ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور اسکو اغوا کرنے کے بعد افغانستان میں امریکہ کے
حوالے کرنے والے مجرموں کے خلاف کاروائی کا آغاز کرے ۔ یقینا عوام حکومت کے
ساتھ ہیں۔۔۔ |