یہ ھے وہ دعا جو کھبی صبح سویرے ھر سکول میں پڑھی جا تی
تھی۔ طلباء و طلبات کو اخلاقیات پڑھائے جاتے تھے۔ بچوں کی صحیح پرورش کی
جاتی تھی۔ حالات یکسر تبدیل ہوگئے ہیں۔۔جو بچیاں کبھی والدین کے سامنے سر
سے دوپٹہ نیچے نہیں گراتی تھی آج وہ بچیاں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں غیر
مردوں کے سامنے بے ہودہ ڈانس کرتے نظر آتے ہیں
گنواں دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا نے زمین پر اسمان سے ھم کو دے مارا
ھائے وہ علم کی موتی کتابیں اپنے ابا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ھوتا ھے سہ پار١
میڈیا کے دنیا میں بھونچال آنے کے بعد جہاں خبروں کی بھر مار ،ملکی و غیر
ملکی مسائل کو ناظرین تک پہنچانے کا کام ہو وھاں عشقیہ ڈرامے اور مارننگ
شوز میں بے ہودہ ڈانس ہو، ھر چینل اک دوسرے پہ سبقت لئےناظرین کو محظوظ کر
رہے ہیں تو دوسری جانب نوجوان نسل کو بھی تباہ کرکے معاشرتی بگاڑ کا سبب بن
رہا ہے،روشن خیالی فروغ پا رہی ہے۔شرم و حیا جو کبھی مشرق کی لڑکیوں کی
زیور تھی آج وہ سر عام نیلام ھو رہی ہے۔ پانچ بھائیوں کی بیچ ایک بہن
موبائل پہ اپنے کئی سو میل دور دوست سے مسیجز ،گندہ لطائف بھیجتی رہتی
ہے،کندھوں پہ دوپٹہ لئے باپ سے کہتی ہے،بابا یہ تو فیشن ہے۔ باپ بھی دور
حاظر کی نزاکت کو مجبوری بنا کر چپ کی سادہ لئے ہوئے ہیں کہ کہیں ان کی
اولاد کوئی غلط قدم نہ اٹھائے۔ معاشرہ بگاڑ کی طرف جا رہی ہے۔۔
قوموں کے مستقبل بنانے والے معمار (اساتذہ کرام) سکولوں ،کالجوں اور
یونیورسٹیوں میں غیر نصابی سرگرمیوں کی آڑ میں روشن خیالی اور بے ہودہ ڈانس
کو فروغ دے رہے ہیں۔ کوئی پرسان حال نہیں جو پوچھے کہ خدارا تعلیمی درسگا
ہوں میں غیر نصابی سرگرمیوں کے نام پہ یہ فحاشی بند کریں۔
شہر میں پڑھ کرانے والے بھول گئے
کس کے ماں نے کتنا زیور بیچا تھا
جو طلبات کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلباء کے سامنے ناچتی ہے تو کیا یہ
ممکن ہے کہ بنت حوا کی سرکتی جسم کو دیکھ کےابن آدم کا دل غلط وسوسوں اور
شیطانی خیالات سے بھر نہ جائے اور شیطان پھر یہی نہیں رکتا بلکہ یہ معاملہ
اگے چل کربنت حوا کی عزت پہ ہی ختم ہو جا تی ہے۔
اگر ہوش کے ناخن نہ لئے گئے اور تعلیمی درسگاہوں میں لڑکیوں اور لڑکوں کو
روشن خیال بنانے کا مخلوط طریقہ کار بر قرار رہا تو یقین مانیں کہ ہر صبح
نو کسی بنت حوا کی عزت پا مالی کا خبر لے آئے گا اور پھر دنیا نگاہ حسرت سے
دیکھی گی کہ وہ درسگا ہیں جو انسانیت سازی،تہذیب و شائستگی اور معا شرے کی
کامیاب افراد بنانے کیلئے بنانے گئے تھے،محض حیوانیت ،شہوت رانی اور ہوس
کاری کے اڈے بن کر رہ جائینگے۔
اسلام عورتوں کی تعلیم کی خلاف نہں بلکہ اس کی حد درجہ تاکید کرتا ہے، لیکن
تعلیم ایسی ہو کہ جو ان کی عصت کی حفاظت میں معاون ہو،جو ان کی لیاقت اور
فکر کی مناسب ہو، نہ کہ ایسا تعلیم جو بنت حوا کو زمرہ نسواں سے خارج کرکے
انسانی روپ میں موجود درندوں کی بھینٹ نہ چڑھ جائے۔۔ اللہ ھم سب کو اپنے
حفظ و امان میں رکھیں، آمین |