سالوں سے ایبٹ آباد کی یونین کونسل بانڈہ پیرخان کے
بلندترین گاؤں ریالہ ڈنہ میں فاسفیٹ کی قانونی اورغیرقانونی کان کنی جاری
ہے جس سے رہائشی مکانات تباہ اوربارود ی دھماکوں اور کھدائی کے باعث جگہ
جگہ سے زمین پھٹ چکی ہے،ماحول ابتر ،فضا آلودہ ہے،کوئی گھرانہ ایسا نہیں
جہاں ایک آدھ فرد نفسیاتی مسائل کا شکار نہ ہو،خوشحالی اور ترقی کا یہ خواب
اب ڈراؤنا ہوتا جارہا ہے مگر مالکان کی ہوس ہے کہ رکنے کو نہیں آرہی……تاریخ
بتاتی ہے کہ معدنیات نکالنے کا کام تو صدیوں سے جاری ہے،زمین،پہاڑ،دریا ،سمندر
قدرتی سائل سے مالامال ہیں ۔صنعتی انقلاب کے بعد کان کنی کو فروغ حاصل ہوتا
ہے،پہلی فاسفیٹ کی کان فلوریڈا میں 1883میں الوچوہا کاؤنٹی میں قائم کی
جاتی ہے،جدید مشینیری کی بدولت اب قدرے کام آسان ہو چکا ہے مگر مضر اثرات
کا تدارک ممکن نہیں ہو سکا،اس صنعت سے بھی لاکھوں مزدور وابستہ ہیں ،فاسفیٹ
کی پہاڑیوں میں فاسفورس بھی ہوتا ہے،جو ایک اچھی کھاد ہے،فوری گروتھ کے لیے
اس کا کوئی نعم البدل نہیں،دنیا بھر میں امریکہ سب سے بڑا برآمد کنندہ
ہے،فاسفیٹ ایک قدرتی انمول معدنیات ہے ……مائینز ایکسپرٹ کے مطابق کان کنی
سے پہلے ماحول کا جائزہ لیا جاتاہے،نقصان کا احتمال ہر وقت رہتا ہے،مقامی
سبزہ،جنگلی حیات کو مد نظر رکھاجاتاہے،مواصلاتی ذرائع کا ہونا بھی ضروری
ہے۔فاسفیٹ30-40فٹ کی گہرائی میں ملتی ہے،top soil کے نیچے فاسفیٹ لہر ہوتی
ہے جسے میٹرکس کہا جاتا ہے یہ فاسفیٹ راک،مٹی اور ریت کا مکسچر ہوتی ہے۔بعد
ازاں پراسیسنگ کے لیے مینوفیکچرنگ پلانٹ میں بھیجا جاتا ہے۔ویٹ پراسس کے
بعد یہ فاسفورک ایسڈ میں تبدیل ہوجاتی ہے جسے پودے آسانی سے جذب کر لیتے
ہیں،جپسم اس کا بائی پراڈکٹ ہے جو کہ ریڈیو ایکٹو میٹریل ہے،ویسٹ کلے بھی
بائی پراڈکٹ ہے اسے مکسچر سلوری کے زریعے پراسسنگ سے فلٹر کیا جاتاہے اس
بائی پراڈکٹ میں ٹاکسک لیول آف یورینیم اور ریڈیم ہوتاہے،جو ماحول کے لیے
بہتر نہیں ہوتا،اسے علیحدہ سے جوہڑوں میں اکھٹا کیا جاتا ہے۔اس کے ڈھیر
اردگرد کے ایک سسٹم پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں،بارشی پانی کو interceptکر
لیتے ہیں ،زمین خشک رہ جاتی ہے،بعض اقات جوہڑوں میں جمع کی گئی ٹاکسک کلے
پانی یا دریا میں چلی جاتی ہے جو پودوں کی زندگی اور آبی مخلوق کے لیے زہر
قاتل ثابت ہوتی ہے……کان کنی میں بھی حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں لیکن
ترنوائی میں ایسا کچھ نہیں ، بٹ کنالہ کان میں حادثہ میں گیارہ مزدورایک
ساتھ دفن ہوجاتے ہیں ،لاشیں تک نہ نکالی جاسکیں……گلڈانیہ میں چھ مزدوروں کی
جانیں چلی جاتی ہیں کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی……مقامی زرائع کے مطابق
پچاس سے زاہد مزدور کانوں کاا یندھن بن چکے ہیں …… نذیرشاہ اورقابل شاہ
آنکھوں کی بینائی گنوا بیٹھے ،بازوکٹوا بیٹھے …… کانوں کے اندر اورباہر کام
کے دوران کوئی حفاظتی اقدامات نظر نہیں آتے……طبعی سہولیات بھی کوسوں دور
ہیں، ایسے واقعات کالوبانڈی، لکڑ بن، ڈنہ بٹ کنالہ، منڈرائیاں، گل ڈانیہ،
نلیاں کی ان کانوں میں معمول کاحصہ ہیں۔بلاسٹنگ کے باعث صوتی آلودگی پھیلی
جسکا متعدد لوگ شکار ہوئے فاسفیٹ کے لیے ہونے والی بلاسٹنگ سے ایک جوانسال
لڑکی متاثر ہوئی ہے جس کا علاج تک نہیں کرایا گیا۔ڈسٹرکت ہیلتھ آفیسر
ڈاکٹرمظہر علی شاہ کے مطابق اس آلودگی سے اونچا سننے کی بیماری ہوجاتی
ہے،مستقل بہرہ پن بھی ہوسکتاہے،ڈپریشن اور نفسیاتی اثرات بھی ہوسکتے ہیں
اور بعض اوقات متاثرہ مرد یا خاتون خودکشی بھی کر لیتی ہے ،جہاں بلاسٹنگ کی
جارہی ہو وہاں کے رہائشیوں کو صوتی آلات فراہم کیے جائیں تا کہ وہ پہن لیں۔
لیبر پالیسی1955-1922اورسب سے اہم ترین1972،2002 یا2010سب میں مزدوروں کے
حقوق کی بات موجودہے گوکہ 77سے88تک ضیاء الحق کی آمریت میں پابندیوں
اورمزدوروں تنظیموں پرقدغن سے بہت نقصان ہوااس کے باوجود اس وقت ملک میں
پاکستان ورکرز فیڈریشن کے آ ٹھ ریجنل دفاتر کے ساتھ419یونینز
کے880,000کارکن ممبر موجودہیں اوران کے علاوہ اس سے بڑی تعداد ملک بھر کی
طرح ایبٹ آباد کی فاسفیٹ کانوں میں کام کرنے والے مزدور جوکہ کسی کے ساتھ
منسلک نہیں اورنہ ہی یہ کسی سے اپنے حقوق کی بات کرسکتے ہیں،حالانکہ آئین
پاکستان کی دفعہ17(1)انکویونین سازی کاحق جبکہ دفعہ(11) 1سے4تک ان کے کام
کامعاوضہ جبری مشقت بچوں کے حقوق اوردفعہ19ان کو بولنے کاحق دیتی ہے، دنیا
کے آبادی کے لحاظ سے چھٹے بڑے ملک پاکستان کی60%آبادی لیبر اوراوسط عمر
بائیس سال س ہے اور یہ ملک کی ترقی میں انتہائی اہم کرداراداکررہے ہیں اس
کے باوجود ان کے حقوق سلب کئے جارہے ہیں کہیں بھی کوئی منصوبہ شروع کرنے سے
قبل اس کاتخمینہ اثرات کیلئے باقاعدہ EPAکیاجاتا ہے اسی طرح ایبٹ آباد کی
فاسفیٹ کی ان کانوں کیلئے 1973 میں سرحدڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ماہرین نے سروے
کئے۔ مقامی شاہ زمان نامی شخص کاکہنا تھا کہ اس وقت ترنوائی کے ان علاقوں
میں خطیررقم اورماہرجیالوجسٹ کی نگرانی میں جگہ کی نشاندہی ہوئی اورتجربات
کیلئے فاسفیٹ نکالی گئی بعدازاں ایس ڈی اے کوختم کرکے محکمہ معدنیات نے اے
بی اورسی بلاک بنالیے…… اے اوربی بلاک میں اس وقت سہارامنرل پاک عرب،رخسانہ
جاوید،راجہ حبیب گرین ویلی جیسے نامی گرامی گروپ لیزہولڈر ہیں جبکہ سی بلاک
خالصتا محکمہ معدنیات کی ملکیت ہے اس کے باوجود یہاں سے غیرقانونی طریقہ سے
فاسفیٹ نکال کر لیزہولڈر کے چالان لگاکر فروحت کی جاتی ہے جس سے قومی خزانے
کوروزانہ کی بنیادپر لاکھوں کا نقصان ہورہا ہے جبکہ دوسری طرف سوات اورمظفر
آبادکے مزدوروں کودن رات کم اجرت، غیر حفاطتی حالات میں ان موت کی غاروں
میں داخل کیاجاتا ہے اوراس غیرقانونی کھدائی سے جہاں رہائشی آبادیوں میں
پینے کاپانی ختم ہوگیا وہاں مختلف گیسوں کے اخراج سے مختلف بیماریاں اور
فضائی آلودگی پھیل رہی ہے ، ڈنہ ریالہ کے رہائشیوں حاجی قاسم دین ،گل
حسن،نورعالم،گل زار،شاہ زمان،دریمان اسماعیل وغیرہ کاکہناتھا کہ ہم لوگ موت
کہ منہ میں ہیں ہماراپینے کاپانی ختم ہوچکا، مکان گررہے ہیں حادثات سے
قیمتی جانیں ضائع ہورہی ہیں ضلعی انتظامیہ کواطلاع دینے کے باوجود کارراوئی
نہیں ہوتی ……
ڈائریکٹر معدنیات شیرایازخان کاکہناتھا کہ 2005،مائن رولز اور1973 مائن
ایکٹ موجود ہیں لیبرویلفیئر آفیسراورمائن انسپکٹر اپناکام کرکے حالات
بہترکرسکتے ہیں اس وقت سینئرانسپکٹر مائن فضل رازق کے تبادلے کے بعدکوئی
موجودنہیں جبکہ لیبرآفس میں ڈائریکٹر لیبربیورو فیض اﷲ خان کاکہنا تھا کہ
وہ ہریپورآفس میں ہوتے ہیں جبکہ ایبٹ آباد میں دولیبر انسپکٹرکام کرتے ہیں
جن میں مشتاق شاہ سٹی ایریا اورگلیات جبکہ سردرا اورنگزیب حویلیاں اور
مانسہرہ روڈ پرکام کرتے ہیں، ڈائریکٹر معدنیات شیرایاز کاکہنا ہے کہ حالات
اچھے نہیں میں نے آکرکئی کانوں کے لیز ہولڈرز کونوٹس جاری کئے ہیں اورجن
جگہوں سے نشاندہی ہورہی ہے وہاں کارراوئی کررہے ہیں جبکہ دوسری طرف
انٹرنیشنل لیبرکنونیشنز اوریونیورسل انسانی حقوق کاچارٹر جس میں دنیا کے
123 ممالک نے دفعہ23میں کارکنوں کے حقوق, دفعہ22سوشل سیکورٹی
اوردفعہ12پرائیویسی پردہ کے حقوق کی بات کی مگر ضلع ایبٹ آباد کے ڈنہ ریالہ
جیسے علاقوں کے مکینوں اور مزدوروں کاکہنا ہے کہ ان تمام حقوق کی کھلی خلاف
ورزی ہورہی ہے……کان کنی سے قبل یہاں معطر فضاء تھی ، خوبصورت بولیاں بولنے
والے پرندے اورنایاب جنگلی حیات تھی جسے دیکھنے کے لیے آنکھیں ترس گئی ہیں۔ |