دنیا بھر کی طر ح پا کستان میں بھی حالات بہت تیزی کے
ساتھ تبد یل ہو رہے ہیں۔جہاں پر سائنس و ٹیکنالوجی کے نئے نئے ایجادات میں
اضافہ ہو رہا ہے وہاں پر عالمی سیاست کے ساتھ علاقائی سیاست میں بھی کافی
تیزی سے تبدیلی رونماہورہی ہے ۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بھی آئے دن
کو ئی نہ کوئی مسئلہ پیدا ہو تا رہتا ہے ۔ایک طرف ملک و عوام کودہشت گردی
کا سامنا کرناپڑ رہا ہے تو دوسری طرف انرجی بحران کی وجہ سے بھی عوام مسائل
سے دوچار ہے ۔ ان حالات میں سیاسی ماحول میں پیدا ہونے والے واقعات بھی
اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔انہی حالات کی وجہ سے انسانی زندگی پر اثرانداز
ہونے والے اہم واقعات ومعاملات پر لکھنے کی زیادہ فرست ہی نہیں ہوتی۔ میڈ
یا کی دنیا میں زیادہ تر لوگ موجودہ حالات کو پڑھنا،سننااور دیکھنا پسند
کرتے ہیں ۔ اس لیے باو قت مجبوری ہمیں دوسری طرف توجہ کم ہی رکھنی پڑتی ہے
۔ کئی دنو ں سے ذہن میں ایک سوال اٹھتاجا رہا ہے کہ بحیثیت قوم و معاشرہ ہم
کس طرف جارہے ہیں ۔ آئے دن میڈ یا میں ایسی ایسی خبر یں اپنے معاشرے کے
حوالے سے سننے ، پڑھنے اور دیکھنے کو ملتی ہے کہ جس کی وجہ سے رونگٹے کھڑے
ہو جاتے ہیں ۔ ایسے ایسے واقعات جس کااسلام میں تو کیا عام انسانی زندگی
ومعاشرے میں بھی تصور نہیں کیا جاسکتا ۔آج وہ حالات و واقعات رونما ہورہے
ہیں جودور جا ہلیت کی یاد تازہ کر تی ہے۔ایک جانب تو خواتین ،بچو ں وبچیوں
کے ساتھ افسوسناک و المناک واقعات پیش آتے ہیں تودوسری طرف بر داشت بھی
معاشرے میں ختم ہورہی ہے جس کی وجہ سے ہم آئے روز نت نئے مسائل ومشکلات سے
دوچار ہو تے ہیں۔ پشاورگھر کے پڑوس میں گزشتہ دنوں ایک افسوسناک واقعہ پیش
آیا جس کو سن کر بالکل یقین نہیں آرہا تھا لیکن چونکہ حقیقت حقیقت ہوتی ہے
آنکھیں بند کر کے حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی ، اسلئے اس حقیقت کو تسلیم کر نا
پڑا ۔محلے میں ایک بیٹے اور بہو نے ساس کو اس طر ح مارہے کہ وہ بوڑھی ماں
دس دنوں سے ہسپتال میں زیر علاج رہی ۔ وجہ کوئی بھی ہو لیکن کیا ایک بوڑھی
ماں اپنے سگے بیٹے اور بہوپر کتنا ظلم و زیادتی کر سکتی ہے جس کی وجہ سے
بیٹا اور بہو اپنی ماں کو لہولہان کر یں ۔یہ پہلاواقعہ نہیں بلکہ ایسے
واقعات ہمارے معاشرے میں آئے روز رونما ہو رہے ہیں ۔ دہشت گردی کے خلاف
جاری جنگ کا سب سے زیادہ نقصان پختون معاشر ے کو پہنچا ہے ۔ لو گ ذہنی
بیمار بن گئے ہیں۔ معمولی معمولی باتوں پر ہاتھ وگر یبان ہو جانا ائے روز
دیکھنے کوملتا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ لوگ معمولی معمولی مسئلوں پر بندوق
اٹھا کر قتل و غارت گری شروع کر دیتے ہیں ۔ پچھلے دس سالوں میں اگر دیکھا
جائے تو پا کستان میں بالعموم اور خیبر پختونخوا میں بالخصو ص قتل و غارت
گری کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ پولیس رپورٹس کے مطابق زیادہ تر قتل و
غارت معمولی معمولی باتو ں پر ہو ئے ہیں ۔ عدم برادشت کی اگر ایک بڑی وجہ
تعلیم ہے تو اسی طرح ہمارے معاشرے میں غربت بھی ایک بڑی وجہ ما ہرین سمجھتے
ہیں ۔ ماہر ین نفسیات سمیت سوسائٹیز پر ریسر چ کرنے والے کہتے ہیں کہ پا
کستانی سو سائٹیز میں مہنگا ئی و بے روزگاری کی وجہ سے ذہنی امر اض میں
اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے دوسرے افراد پر بھی اس کا اثر پڑ رہاہے ۔ یوں
معاشرے میں عدم برداشت پیدا ہو رہا ہے جو کئی مسائل کو جنم دیتا ہے ۔ علماء
کرام معاشر ے میں عدم برادشت کو لو گوں کی دین سے دوری سمجھتے ہیں ۔ علماء
کا کہنا ہے کہ آپ کا جس فرقے یا مذ ہب سے تعلق ہو لیکن اگر اپ اس پر عمل کر
تے ہیں اور دین کی سمجھ بوجھ اور اﷲ کی عبادت کر تے ہیں ۔تو انفرادی طور پر
برادشت کامادہ بڑھ جاتا ہے جو آخر میں اجتماعی صورت اختیار کر کے معاشرے
میں ایک دوسرے کو برداشت کر نے کی صورت میں آتاہے ۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ
ہے کہ ہم اسلام کا نام تو لیتے ہے۔ نماز وغیر ہ بھی پڑھتے ہیں ۔ صبر و شکر
کی تلقین بھی کر تے ہیں لیکن جب وقت امتحان کا آجاتا ہے تو ہم سب کچھ بھول
جا تے ہیں۔ اب تو حالات ایسے بن رہے ہیں کہ دین و اسلام کا نام ہم صرف اپنے
مقاصد کے لیے استعمال کر تے ہیں ۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ میں تبلیغ میں جا
تا ہوں یا میں پیر صاحب کامر ید ہوں یا میں اسکول و کالج سے تعلیم یا فتہ
ہوں ۔ ہم یہ بھی بھول جا تے ہیں کہ میں تو اسلامیات اور مدرسے وسکول کا
استاد یا شاگرد ہوں ۔ دوسروں کو نصیحت کر نا آسان اور خود عمل کر نا مشکل ۔
تمام مذاہب میں جو ایک درس مشترک ملتا ہے وہ ایک دوسرے کو برداشت کر نا کا
ہے۔
اس طرح اگر ہم د یکھے تو انسانوں کو زند گی گزرنے کے لیے کھانے پینے کے
علاوہ دوسری تفریحی مواقعوں کی بھی اشد ضرورت ہو تی ہے ۔ ذہنی سکون کے لیے
سیر و تفریح بھی انتہائی اہم ہے جس کی جانب نہ حکومتوں کی توجہ ہو تی ہے کہ
لوگوں کیلئے ایسے مواقع اور ماحول پیدا کریں اور نہ ہی ہم خود ایسے مواقعوں
سے فائدہ اٹھا تے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتوں سمیت سول سو ئٹیز ،
ادارے اور ہم خود اس جانب تو جہ دے تاکہ معاشرے میں بڑ ھتے ہوئے عدم برداشت
پر قا بو پا یا جا سکے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میڈ یا کی اس تیز رفتار دور میں
جہاں پر دن رات ٹاک شوز اور سیاسی بحث و مباحث ہوتے ہیں وہاں پر بھی نہ
سیاسی جماعتوں میں ایک دوسر ے کا مواقف سنا جا تا ہے اور نہ ہی ہمارے میڈیا
میں اس جانب توجہ دی گئی ہے ۔ ٹیلی وژن ڈرموں میں بھی وہ موضات زیادہ
دکھائے جاتے ہیں جس کا ہمارے معاشرے سے کوئی واسط نہیں ہو تا ۔ |