حامد میر پر قاتلانہ حملہ کی خبر میڈیا پر نشر کیا ہوئی
……پاکستان اور اسکی بہادر افواج سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والوں نے اپنی
توپوں کے رخ ادھر موڑ دئیے۔ آو دیکھا اور نہ تاؤ بس آئی ایس آئی کے خلاف
زہر اگلنا شروع کردیا سب سے بڑھ چڑھ کر حامد میر کے برادر خورد نے ننگ دین
اور ننگ وطن ہونے کا ثبوت دیا……اسکے جو منہ میں آیا کہہ دیا۔ میں نے عامر
میر کا اگلا زہر سنتے ہی سوشل میڈیا پر لکھ دیا کہ’’ عامر میر ہو یا حامد
میرآزادی صحافت اور انسانی حقوق کی لڑائی آئین اور قانون کے دائرے میں رہ
کر لڑیں تو ہم کیا پوری قوم انکے ساتھ کھڑی ہوگئی اور لیکن اگر یہ کسی اور
کے ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے ملکی دفاع کی ضامن افواج پاکستان کے خلاف زہر
اگلیں گے تو یہ تنہا رہ جائیں گے…… یہ بات ان دونوں بھائیوں کو اچھی طرح
ذہن نشین کر لینی چاہیے ۔اور یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جتنا بڑا صحافی
یا دانشور ہوگا وہ اسی قدر بڑی ایجنسی یا ادارے کے لیے خدمات سرانجام دیتا
ہوگا‘‘
میں حیران ہوں کہ جس سطح پر حامد میر کا بھائی عامر میر چلا گیا ہے اس حد
کو تو ہمارے ازلی دشمن اور ان دونوں بھائیوں کی آنکھوں کا تارا’’ بھارت کے
صحافتی حلقے نہیں گے۔’’ ٹائمز آف انڈیا ‘‘ نے اپنے دوست حامد میر پر حملے
پر لکھا ہے کہ ’’ وہ صحافی نشانہ بنے ہیں۔جن کو طالبان سے خطرہ تھا‘‘ٹائمز
آف انڈیا نے بھی پاکستان کی افواج کے ذیلی ادارے آئی ایس آ ئی کو ٹارگٹ
نہیں کیا۔وہ کہتا تو بات سمجھ میں با آسانی آ سکتی ہے۔لیکن حامد میر ،انکے
بھائی،عامر میر نے اپنے ادارے کے مالکان جو بھارت دوستی کے علمبردار بنے
ہوئے ہیں ۔کی رضامندی سے ہی پاکستانی فوج اور اسکے ذیلی ادارے کا ٹارگٹ کیا
ہے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب ان دونوں بھائیوں اور ’’جیو تو بے غیرتی
کے ساتھ جیو‘‘ کے علمبردار ادارے کے مالکان کے پلے کیا رہا ہے؟جب تحریک
طالبا پنجاب نے حامد میر پر حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ اور ساتھ ہی
بھی کہا ہے کہ انہوں نے یہ حملہ کراچی میں موجود لشکر جھنگوی کی مدد سے کیا
ہے۔ اسی لیے تو سیانے بزرگوں نے کہا ہے کہ ’’ کچھ بولنے سے پہلے اچھی طرح
سوچ لیا کرو‘‘ یعنی پہلے سوچو پھر بولو……اﷲ تعالی سبحانہ نے بھی بولنے والی
زبان کے ارد گرد بتیس پہرے دار بٹھائے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جن کے دماغ میں
شیطانی کیڑے فٹ ہیں وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر کے جو منہ میں آئے بول
جاتے ہیں اور بعد میں شرمندگی اور ندامت کا احساس ہونے پر(اگر ضمیر زندہ ہو
تو) سر جھکائے اور منہ چھپائے گھر سے باہر نہیں نکلتے
یہاں ایک واقعہ سن لیں’’ ایک شخص کا ایک پنڈت سے جھگڑا ہو گیا۔معاملہ عدالت
میں جا پہنچا۔ عدالت نے فیصلہ سنایا کہ دونوں کو پانچ پانچ ’’ چھتر‘‘
لگائیں جائیں اور پنڈت کے ساتھ جھگڑا کرنے والے کی ناک بھی کاٹ دی جائے۔
دونوں سزا ملنے پر گھروں کو لوٹ آئے۔تین چار روز تک پنڈت گھر سے باہر آیا
اور نہ ہی مندر گیا۔ایک دن اعلان ہواکہ پنڈت کا انتقال ہوگیا۔ خیر اسکی
رسومات کی ادائیگی کردی گئی…… وقت گزرتا گیا کوئی دو ماہ بعد عدالت کے قاضی
کو سوجھی کہ ان دونوں کی خبر گیری کی جائے۔ مخبر بھیجے تو انہوں نے آکر
حالات و اقعات سے آگاہی حاصل کی تو انہیں بتایا گیا کہ پنڈت صاحب تو سزا
ملنے کے بعد گھر سے باہر ہی نہیں نکلے اور چوتھے پانچویں روز اسکا انتقال
ہوگیا ۔ مگر دوسرا شخص ابھی زندہ ہے اور فلاں چوک میں موجود ہے۔ مخبر
مطلوبہ مقام پر پہنچے تو دیکھا کہ وہ شخص ’’ کٹی ہوئی ناک‘‘ پر پٹی باندھے
بیٹھا ہے اور ایک سوال پر کہتا ہے کہ ’’ قاضی سے ناک کٹوائی ہے کسی’’ للو
پنجو ‘‘ سے نہیں…… نتیجہ یہ کہ غیرت مند پنڈت نے گھر سے نکلنا گوارہ نہ کیا
اور ذلت و شرمندگی کا احساس لیے گھر کے اندر گھٹ گھٹ کر مرگیا۔لیکن بے ضمیر
شخص فخر سے کہتا پھرتا ہے کہ ناک کسی للو پنجو سے نہیں کٹوائی-
میرا سوال اب حامد میر ،عامر میر اور انکے ادارے سے ہے کہ اب جب تحریک
طالبان پنجاب نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے تو پاک فوج پر بلا جواز
تنقید کرنے اور انکے خلاف زہر اگلنے اور جھوٹے الزامات لگانے پر آپ کی کیا
سزا ہے۔ قلم اور کمان آپ کے پاس ہے۔سزا بھی خود ہی تجویز کرلیں۔تحریک
طالبان پنجاب کے اعتراف کے بعد اگر آپ کو اور آپکے مالکان کو ندامت اور
شرمندگی کا احساس ہو گیا ہے تو قوم کے سامنے معافی مانگ لیں تو قوم آپکو
معاف کر دے گی……حامد میر اور عامر میر اور جیو والو تم یہ کیوں بھول گے ہو
کہ ’’جس کا کھائیے اسکا گیت گائیے‘‘
تسلیم کرتا ہوں کہ ہمارے محافظ ادارے کے کچھ افراد سے ناانصافیاں اور
کوتاہیاں سرزد ضرور ہوئی ہوں گی۔ لوگوں کو گھروں سے اٹھا یا گیا ہوگا……یہ
بات بھی تو یاد رکھنی چاہئیے کہ ’’دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں کوئی چنگاری
موجود ہو……جب لوگوں کو اٹھایا گیا ہے انہوں نے بھی تو کچھ نا پسندیدہ
سرگرمیوں میں فعالیت دکھائی ہوگی؟……ایسے کیسے کسی کو خواب آجاتی ہے کہ فلاں
بندہ فلاں رہتا ہے اسکو اٹھا لیا جائے؟ خیر میری اداروں کے ذمہ داران سے
بھی درخوست ہے کہ ’’ ہتھ ہولہ رکھا جائے‘‘ پوری جانکاری کے بعد کسی کو
قانون کے شکنجے میں لایا جائے اور اگر کوئی بندہ حراست مین لینا مقصود و
مطلوب ہو تو اسکے خلاف تمام ثبوت جمع کیے جائیں پھر انہیں حراست میں لیا
جائے۔
ایک گزارش میر برادران کی خدمت میں بھی کہ میر صاحبان ! ہوش کے ناحن لیجیے
اپنی افواج اپنی ہی ہوتی ہے۔ شائد آپکو معلوم نہ ہو مگر مجھے سب معلوم ہے
’’ آپکے والد وارث میر نے جنرل ضیا الحق کے کہنے پر وزیر اعظم جونیجو کے
لیے تقریر لکھی ۔ضیا الحق سے رابطے میں تھے۔کس کس کو معلوم نہیں کہ جب تم
نے جنگ لاہور کو جوائین کیا تو کس کے لیے کام کرتے رہے،۔کن کی سیڑھیوں سے
آپ ملک کے بلند پایا اینکر اور صحافی بن پائے……اسامہ تک رسائی کیسے حاصل
کرتے رہے ۔ آخر میں نعرہ لگائیے آزادی صحافت زندہ باد۔……آزادی ضمیر زندہ
باد ……پاک فوج زندہ باد……پاکستان پائیدہ باد |