وہ مجھے اپنی ماہانہ آمدنی
اور اخراجات کے حوالے سے بتا رہا تھا،اور میں خاموشی سے ہُوں ہاں کرتے ہوئے
صبر کے ساتھ سب کچھ سُن رہا تھا،وہ بتا رہا تھا کہ اُسکے بزنس میں سے اُسے
تقریبا ً 2,50000 لاکھ روپے ماہانہ بچت آجاتی ہے،وہ مجھے بتا رہا تھا کہ
اُس کی خود کی اور اُس کی بیوی کی گورنمنٹ جا ب سے آنے والی ماہانہ آمدنی
بھی تقریبن ً80000 ہوجاتی ہے،اور یہ ٹوٹل لگ بھگ 3,30000روپے بن جاتے
ہیں۔لیکن اخراجات اتنے ہیں کے یہ بھی کم لگتا ہے، چاہت تو یہ ہے کہ اس سے
بھی زیادہ کمایاجائے،اور پھر طنزیہ اندازمیں کہنے لگا، لیکن تمہارے اِس
مُلک کے حالات ایسے ہیں کہ یہ ہمیں ایک مخصوص آمدنی سے ذیادہ کمانے کی
اجازت ہی نہیں دیتے،کبھی یہاں مسئلہ تو کبھی وہاں مسئلہ ، ہر لمحہ کہیں نہ
کہیں کچھ نہ کچھ پرابلم رہتا ہی رہتا ہے،اس سے تو اچھا تھا کہ
انڈیااورپاکستان کبھی الگ ہی نہ ہوتے ،یا پھر کم سے کم ہم انڈیا میں ہی رھ
لیتے ، اور پھر اُس کے بعدآخر میں بڑے تھکے ہوئے لہجے میں مُنہ اُتارتے
ہوئے کہنے لگا،پھر بھی شُکر ہے اﷲ کا۔
میں نے جب اُس کو اﷲ تعالیٰ کی ذات کا شُکر اتنے بے ہودہ انداز میں ادا
کرتے دیکھا تو مجھ سے رہا نہیں گیا،میرے صبر کے پیمانے ٹوٹ گئے، میں نے
اُسے کہا کہ بھائی اتنے چھوٹے سے شہر میں رہتے ہوئے صرف5 لوگوں پہ مُشتمل
خاندان کو سنبھالتے ہوئے ،3,30000 روپے تک کی ماہانہ آمدنی رکھتے ہوئے بھی
اگر تمہارا اﷲ تعالیٰ کی ذات کا شُکر ادا کرنے کا انداز اتنا تھکا ہُوا ہے
،تو پھر میرے خیال میں تمہاری حوس نے حوس کی صرف ایک دُکان نہیں بلکہ
دُکانیں کھولنا شروع کردی ہیں،بقولِ احمد فرازؔ
پہلے پہلے حوس اک آدھ دُکاں کھولتی ہے
پھر تو بازار کے بازار سے لگ جاتے ہیں
میرے خیال میں اﷲ تعالیٰ کو تمہارے ایسے مُردہ شُکر کی ضرورت نہیں ہوگی،اور
ہاں جس مُلک کو تم مجھے مُخاطب کر کہ کہہ رہے ہو کہ تمہارے اِس مُلک میں
کبھی یہاں مسئلہ تو کبھی وہاں مسئلہ رہتا ہی رہتا ہے․․،تومیرے بھائی․․،یہ
مُلک صرف میرا اکیلے کا نہیں ہے، بلکہ ہم سب کاہے۔تمہارے اندر کا کچھ معلوم
نہیں،لیکن خُدا کی قسم مجھے فخر ہے ․․․․،کہ میں اِس مُملکتِ خُداداد
’’پاکستان ‘‘کے جس کے دُنیا کے نقشے پہ آنے کی صدیوں پہلے سے پیشنگوئیاں
ہوتی آئی ہیں، میں پیدا ہُوا ہوں۔میں نے مزید اُنسے عرض کِیا کہ تم اس مُلک
سے شکوے تو بُہت کر رہے ہو، لیکن کیا تم مجھے یہ بتا سکتے ہو کہ اپنی اس
چالیس پینتالیس سال کی عُمر میں تم نے اس مُلک کو کیا دیا ہے․․․؟اور اس کے
برعکس کیا تم نے کبھی اکیلے میں بیٹھ کے یہ سوچا ہے کہ اِس مُلک نے تم کو
کیا کیادیاہے؟ اُس پہ اُس صاحب نے سامنے سے کہا،کہ کیا دیا ہے ہمیں اس مُلک
نے؟میں نے عرض کیا،کہ یہ جو تمہارا بزنس ہے،اس کوشروع کرنے اور چلانے کے
لئے پیسے کیا تمہارے بزرگ پارٹیشن کے وقت انڈیا سے لے کے آئے تھے ؟اُس صاحب
نے کہا، نہیں۔ میں نے عرض کِیا ،تو پھر پاکستان کی بینکوں سے لون لے کے
شروع کِیا تھا؟ اُس نے کہا ہاں ،ظاہر ہے۔میں نے عرض کِیا، کہ پاکستان کی
بینکوں میں کس کا پیسہ سے ؟ کیا وہ پیسہ جس سے تم نے بزنس شروع کِیا اور آج
لاکھوں پتی بن گئے ہو،وہ پیسہ پاکستان کا اور پاکستان کی قوم کا نہیں ہے؟وہ
خاموشی سے میری طرف دیکھتا رہا۔میں نے مزید عرض کِیا کہ یہ جو تمہاری اور
تمہاری بیوی کی تنخواہ ہے یہ کون دیتا ہے ؟اورکس کے پیسوں سے دی جاتی ہے؟
کیا یہ پیسے اس مُلک کے لوگوں کے یا اس مُلک کے قومی خزانے کے نہیں ہیں؟
بڑی حیرت کی بات ہے کہ تم یہ کہتے ہو کہ اس مُلک نے ہمیں کیا دیا ہے،اور جس
انڈیا کی تم بات کر رہے ہو ،اُس کا احوال وہاں انڈیا میں مُقیم مُسلمانوں
سے لو تو پتہ چلے کہ وہاں مُسلمان کس کنڈیشنز اور پابندیوں میں زندگی گُزار
تے ہیں، خان برادران کوانڈین فلم انڈسٹری میں ذیادہ اہمیت دینا،ڈاکٹر
عبدالکلام کو صدر بنانااور اظہرالدین کو اپنی کرکٹ ٹیم کا ایک عرصے تک
کیپٹن رکھنا، یہ سارا کا سارا گیم صرف اور صرف دُنیا کے تم جیسے کم عقل
لوگوں کو دِکھانے کے لیے رچایا جاتا ہے،تا کہ تم لوگ یہ سمجھو اور دُنیا کو
یہ بتاتے پِھروکہ اانڈیا تو بلکل بھی انتہا پسندمُلک نہیں ہے، اور اقلیتوں
کو برابر کے حقوق دیتا ہے ،حقیقت جاننی ہے تو جاؤ واپس جاکر وہاں ایک انڈین
مُسلمان کی حیثیت سے زندگی گُزارو توپتہ لگ جائے کہ حقیقت کیا ہے،جس مُلک
میں اُس مُلک کی کریم مُسلمان شخصیتوں شبانہ اعظمی اور جاوید اختر کو ممبئی
میں صرف مُسلمان ہونے کی وجہ سے ایک فلیٹ تک خریدنے کی پرمیشن نہ ہو، تم
اُس مُلک کے لیے کہتے ہو کہ وہاں ہوتے تو اچھا تھا!میں تو کہتا ہوں کہ ایک
بار واپس انڈیا جا کر ایک مُسلمان کی حیثیت سے اپنی زندگی شروع کرو تو ــ’’لگ
پتہ جائے‘‘ کہ کتنے بیس مِلا کر سو بنتے ہیں۔
میں رُکا ،ذرا سانس لِیا اور پھر اُن صاحب سے مُخاطب ہُوا،میں نے عرض کِیا
جناب اگر حقیقت پسند ہو کہ دیانت اور ایمانداری کے ساتھ آنکھ کھول کر دیکھو
،سوچو اورسمجھو تو تمہیں خود معلوم ہوجائے گا ،کہ اِس مُلک نے ہمیں کیا کیا
عطا کِیا ہے، شاید ہم اِس قابل بھی نہیں ہیں کہ جتنا پیدائش سے لیکر اب تک
ہمارے ہر قدم پر ہمیں اِس مُلک نے عطا کِیا ہے،لیکن میرے خیال میں تم ایک
بُنیادی طور پہ ناشُکرے اورلالچی انسان ہو،اِسی لئے نہ تو تم اﷲ تعالیٰ کی
تمہیں عطا کی ہوئی نعمتوں کا شُکر اداکرنے کی طرح ادا کرتے ہو ،اور نہ ہی
اس مُملکتِ خُداداد ’’پاکستان‘‘ کا شُکر ادا کرتے ہو۔
میرے خیال میں تم نے اپنی حوس سے بھرپورمحدود زندگی سے باہر کبھی جھانک
کرنہیں دیکھا،تم نے یہ نہیں دیکھا اور نہ ہی دیکھنا چاہا کہ اِس مُلک میں
نہ جانے ایسے کتنے لوگ ہیں جو چھ سے آٹھ ہزار روپے کی آمدنی میں اپنے آٹھ
بچوں کی پرورش کرنے پر مجبور ہیں،اور وہ چھ سے آٹھ ہزار بھی کنفرم انکم
نہیں ہے،وہ بھی مل جانے کی بُنیاد پر منحصر کرتی ہے،اور میرے خیال میں وہ
لوگ اپنی گلی کے نُکرپہ لگے ہوئے نلکے سے پانی بھر کے ،اور اپنی ٹین کی بنی
ہوئی چھتوں والے گھروں میں رھ کرہم سے ذیادہ پُر سُکون اور اﷲ اوراِس مُلک
کا سچا شُکر ادا کرنے والی زندگیاں گُزار رہے ہیں۔اور ہم لوگ اپنی آسائشوں
سے بھرپور زندگی گُزارنے کی خواہشوں کو سفر کرواتے ہوئے وہاں تک لے آئے ہیں
کہ جہاں ہمیں ہماری خواہشیں،ضرورت لگنے لگی ہیں۔اور ہم اپنی ان جھوٹی
ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں۔
آج ہمارے گھر کااے․سی یا جنریٹرخراب ہوجائے تو ہمارے اندر ایک بے چینی اور
بے سُکونی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے،اور ہم سوچتے ہیں کہ کچھ بھی کر کہ
اِنہیں جلد سے جلد ٹھیک کروالیا جائے،ورنہ پتہ نہیں کیا ہو جائے گا،شایدہم
مر جائیں گے۔جبکہ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اِس مُلک میں کثرت سے ایسے لوگ
موجود ہیں جنہیں روز مرہ کی زندگی میں دو سے تین وقت کا کھانہ بھی ٹھیک
طریقے سے پیٹ بھر کے کھانے کو نہیں ملتا،لیکن اُنہیں کچھ نہیں ہوتا․․، وہ
مرتے نہیں ہیں۔بلکہ ایک دن گُزارنے کے بعدہر حال میں اﷲ تعالیٰ کاشُکر ادا
کر کہ، ایک دوسرا دن بھرپور انداز سے گُزارنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوتے
ہیں،اور میرا خیال ہے کہ ہمیں شُکر سے بھرپور زندگیاں گُزارنے کے لیے،اُن
لوگوں سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ |