کچھ وقت کی محنت ساری زندگی کو پرسکون بنا دیتی ہے اور
محنت سے عاری شخص ساری زندگی آرام طلبی کی غرض سے دوسروں کے رحم و کرم پر
ہی رہتا ہے اور یوں زندگی بھر ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ بھی تو حاصل نہیں
کر پاتا۔ اس مثال کا دائرہ کار اگر فرد سے آگے قوم یا معاشرت تک بڑھایا
جائے تو بات مزید آسان ہو جاتی ہے۔ خوداعتمادی اور عزت نفس کے حقیقی مفہوم
سے بھی صرف وہی لوگ آشنا ہوتے ہیں جو محنت و مشقت کے بل بوتے پر معاشرے میں
اپنا ایک منفرد اور باعزت مقام رکھتے ہیں۔نیک نیتی کے بعد یقین محکم کے
ساتھ مسلسل شوق اور لگن سے کوئی بھی عمل جاری رکھا جائے تو اس کا ثمر ضرور
اور بھرپور ملتا ہے۔ ضروری نہیں کہ اس عمل کا آغاز کسی بڑی سطح سے یا بڑے
پیمانے پر ہی کیا جائے تو بہتر ثمر کا حصول ممکن ہوتا ہے بلکہ اصل کامیابی
انسانی ارادے اور مسلسل محنت کے ساتھ مشروط ہے۔ پہاڑ سے ٹپکنے والا پانی کا
ایک ایک قطرہ بظاہر کتنا چھوٹا اور نرم معلوم ہوتا ہے لیکن اگر وہ کسی سخت
سے سخت پتھر پر مسلسل پڑتا رہے تو بہت گہرا سوراخ کر دیتا ہے۔ انسان کی
کوشش پانی کے اس قطرے جیسی کم تر ہی کیوں نہ ہو، پہاڑ جیسی طاقتور چیز پر
اپنا بھی اثر ضرور چھوڑ دیتی ہے بشرطیکہ اس کوشش کے پسِ پردہ پختہ یقین،
ارادہ اور لگن شامل ہو۔ اصولِ فطرت بھی یہی ہے کہ کسی کی محنت رائیگاں نہیں
جاتی۔
تمام شعبہ ہائے زندگی میں بنیادی اور کلیدی مرکزیت محنت اور بھاگ دوڑ کو ہی
حاصل ہے۔ یہی پہلو انسانی زندگی کا اہم خاصہ بھی ہے۔ اگر اس کے ظاہری پہلو
پر ہی غور کیا جائے تو محنت و مشقت اور ہنر مندی کی جھلک نمایاں طور پر
انسانی ترقی کے پہلو کو فطری طور پر جِلا بخشتی نظر آتی ہے۔ انسانی ترقی کا
راز اور اس کی عظمت صرف اور صرف محنت میں ہی پنہاں چھوڑ دی گئی ہے۔ محنت سے
عاری شخص کی گنجائش تو کسی معاشرت کا خاصہ نہیں رہی۔ چاہے اس کا تعلق کسی
دینی مذہبی فکر سے ہو یا خالصتاً دنیوی معاملات سے۔ سوچنے سمجھنے اور کام
کرنے کی صلاحیت سے معذور شخص ہو یا قوم، ساری زندگی دوسروں کے رحم و کرم پر
زندگی بسر کرنے پر مجبور رہتا ہے۔ ایسا شخص معاشرے میں سب سے الگ تھلگ نظر
آتا ہے بالکل کسی خودکار مشین کے ناکارہ پُرزے کی مانند جو کسی کام کا نہ
ہونے کے باعث مشنری سے الگ کر دیا جاتا ہے۔ یوں گمنامی کی حالت میں زندگی
کے دن گن گن کر گزارنے کے سوا کچھ کر بھی تو نہیں پاتا۔ اپنی اس نالائقی کے
باعث انسانی قسمت کے فیصلوں کا محور اور مرکز جب اغیار کے ہاتھوں میں منتقل
ہو جائے تو ایسے انسان یا قوم کی ذلت اور رسوائی کا اندازہ لگانے میں بھی
زیادہ دقّت محسوس نہیں ہوتی۔ ایسے حالات میں عزتِ نفس کا تو جنازہ نکل جاتا
ہے، اخلاقی اور سماجی اقدار کو بھی رہن چھوڑنا پزتا ہے اور انسان اپنے ہی
گھر میں چار و ناچار بے بسی اور غلامی کی زندگی گزارنے پہ مجبور ہوتا ہے۔
تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ انسان نے محنت و مشقت کو جب اور جس
سمت بھی رخ دیا کامیابی کے جھنڈے گاڑھتا چلا گیا اور دوسری جانب اگر پسپائی
یا کمزوری رہی تو وہ اسی محنت کی کمی کا باعث ہے۔ اگر اس پہلو کے اندر دو
طبقات کو الگ الگ حوالے سے دیکھا جائے تو پہلے طبقے کی مثال ان لوگوں کی ہے
جنھوں نے مصمم ارداے اور یقین کے تحت اپنی اس کاوش اور محنت کو اﷲ سبحانہ و
تعالیٰ کی ہدایت و اطاعت کے تابع کرتے ہوئے کام جاری رکھا وہ نہ صرف اس
دنیا کے اندر معزز اور عالی مرتبت قرار پائے بلکہ ان میں سے بعض خوش نصیبوں
کو تو آخرت میں بھی اپنی انتہائی منزل پر پُرسکون زندگی بسر کرنے کی بشارت
اسی دنیا میں ہی دے دی گئی۔ یہی وہ معزز اور محترم شخصیات ہیں جنہوں نے
دوسرے تمام لوگوں کے لیئے رہتی دنیا تک ایک قابل تقلید مثال کی حیثیت
اختیار کر لی۔ دوسرا طبقہ جس نے دینی و باطنی پہلوؤں سے قطع نظر محض دنیوی
مقاصد کے لیئے صرف انسانی خدمت کو اپنا شعار بنا تے ہوئے تسخیر کائنات میں
اپنے فن اور صلاحیت کے جوہر دکھائے، دنیا کو مسخر کرنے کی سعی میں سب کو
پیچھے چھوڑنے کی خواہش میں قوموں کی زندگی میں اگراپنا منفرد مقام حاصل
کرنے میں کامیاب نظر آ رہا ہے تو محض ارادے، یقین،سخت محنت، اور مشقت کے
باعث ہی ایسا ممکن ہوا۔ مگر یہ الگ بحث ہے کہ ان کی اس ساری محنت اور اس کے
نتیجے میں حاصل ہونے والے ثمرات حقیقی منزل کے تعین میں مدد گار بھی ثابت
ہو پائے یا سب کچھ ہی اکارت گیا۔ ماضی کی ایسی بے شمار مثالیں ہمارے لیئے
قیمتی سرمایہ و اثاثہ سے کم نہیں ہیں کہ جب تک ہم نے اپنی تمام تر محنت و
مشقت کا رخ الہامی ہدایت کی روشنی میں اﷲ کی خوشنودی کے ساتھ مشروط رکھا تب
تک دینی اور دنیوی دونوں کامیابیاں مقدر رہیں۔ جوں جوں ہماری ترجیحات میں
تبدیلی آتی گئی، کاوشوں کے نتائج بھی بدلتے گئے۔ کسی خاص ہدایت و رہنمائی
کی روشنی میں اطاعت و فرمانبرداری کے تقاضے پورے کرنے میں اپنی توانائیاں
صرف کرتے رہنے سے ظاہری اور باطنی دونوں پہلوؤں کا احاطہ ہو تا رہتا
ہے۔ہمیں اپنے اندر کی خامیوں اور کوتاہیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے زندگی کے
ان دونوں پہلوؤں کو مؤثر اور بامقصد بنانے کے لیئے آفاقی اور الہامی اصولوں
کے تحت اپنے شب و روز میں ’’محنت‘‘ کو فوقیت دینا ہو گی تبھی ہم اس مختصر
سی زندگی کو حقیقی معنوں میں خوشگوار اور پُرسکون بنانے میں کامیابی کے
زینے پر قدم رکھ سکتے ہیں۔ ورنہ ہماری مثال بھی خودکار مشین کے اُس ناکارہ
پُرزے سے کچھ کم نہ ہو گی جس کی نہ تو کوئی افادیت رہی اور نہ ہی منزل ۔ |