آپ کہیں انٹریوکے لیے جائیں اورآپ کے نمبر ۴۵فی صد ہوں
اورآپ کے ہندوساتھی کے۴۰فی صد، توممکن ہے مارکس زیادہ ہونے کے باوجودآپ کے
ساتھ تعصب برتا جائے اور آپ کے ہندو ساتھی کو منتخب کرلیاجائے ۔لیکن
اگر۴۵کے بجائے آپ کے مارکس ۸۰ یا ۹۰فی صدہوں تویقین کرلیجیے آپ کوتعصب کی
شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔
آپ بزنس مین ہیں،مارکیٹ کی ابھرتی ڈوبتی قیمتوں اور اشیا کی قدروقیمت
پرگہری نگاہ رکھتے ہیں توآپ کو دیکھنا پڑے گا کہ اس وقت مارکیٹ ویلیوکس
چیزکی ہے۔ اگرآپ اسی طرح کامال مارکیٹ میں پیش کریں گے توآپ ناکام بھی
ہوسکتے ہیں لیکن اگرآپ اس سے اچھے معیارکامال لاکرکررکھ دیں تویقیناآپ
کامال سب سے زیادہ فروخت ہوگا۔خریداریہ نہیں دیکھے گاکہ دوکان دارمسلمان ہے
بلکہ آپ کے مال کی کوالٹی اسے آپ کے پاس آنے پرمجبورکردے گی۔ خریدار کی
نظرکسی کی ذات پات ،دھرم اور نظریات پر نہیں ہوتی بلکہ معیار اور کوالٹی
پرہوتی ہے ۔ خریدار غیر معیاری چیز کو دیکھتا تو ہے مگر خریدنے کی نیت سے
نہیں بلکہ اس پراچٹتی نگاہ ڈالتاہے اور آگے بڑھ جاتاہے ۔
یہ مسلمہ حقیقت بتاتی ہے کہ کوالٹی اورمعیارایسی چیزہے جو بد ترین دشمنوں
اورسخت متعصبوں کوبھی آپ کی تعریف کرنے پرمجبورکردیتی ہے۔ یہ دور مسابقت
کاہے، معیار کا ہے، کوالٹی کاہے ۔ آپ اگرچاہتے ہیں کہ آپ کی مارکیٹ
ویلیوبڑھ جائے اورلوگ آپ کی طرف متوجہ ہو جائیں توآپ کومارکیٹ کا مزاج
سمجھنا ہوگا اوراسی کے مطابق تیاری کرنی ہوگی۔اس کے بعدجب آپ میدان عمل میں
اتریں گی تو یقینا کامیابی خود بخود آپ کااستقبال کرے گی۔ بصورت دیگر محض
شکوے کرنے سے کچھ نہیں ہوگابلکہ آپ کی مارکیٹ ویلیوکم ہوتی جائے گی اورآپ
پس ماندگی کی کیچڑ میں لتھڑتے چلے جائیں گے ۔
اس سے ایک اصول سمجھ میں آیاکہ میچ جیتنے کے لیے محض گراؤنڈ پر جمے رہنا
کافی نہیں ہوتابلکہ اچھی کارکردگی کامظاہرہ بھی کرناپڑتاہے اس لیے اب یہ
شکایت بندہونی چاہیے کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں ملازمت نہیں ملتی،ان کے
ساتھ عصبیت برتی جاتی ہے، ناروا سلوک کیاجاتاہے،انہیں ترچھی نظروں سے
دیکھاجاتاہے اورانہیں پس ماند ہ بنادیاگیاہے۔وغیرہ وغیرہ ۔ غور اس
پرکرناچاہیے کہ آپ کاتعلیمی ریکارڈکیا ہے،آپ کے کتنے بچے TOPکررہے ہیں، آپ
نے اپنے مقاصدکے حصول کے لیے اپنی ذمے داریاں کتنے خلوص سے انجام دی ہیں
اوراس تعصب کوبے اثر کرنے کے لیے کیا نظم و ضبط اور منصوبہ بندی کی ہے ۔؟
انسان کی زندگی دواہم ترین عناصرسے بندھی ہو ئی ہے ایک حقوق،دوسراذمے
داری۔ان دونوں کی ادائیگی کے بغیر زندگی شکووں، دوریوں،غلط
فہمیوں،جھگڑوں،نفرتوں اورمنافرتوں کے کھنڈر میں تبدیل ہو جاتی ہے اورانسان
اندرہی اندر سلگتا رہتا ہے ۔ ان دونوں یعنی حقوق کی ادائیگی اورذمے داری کی
انجام دہی کے بغیرزندگی گزاری تو جاسکتی ہے مگرایسی زندگی کامقصدہی
کیاجودکھ درد سے اس طرح لبریز ہو کہ ہلکاسا ایک جھٹکابھی انسان کو بکھیر کر
رکھ دے ۔یہ عناصرزندگی کے دوپہیے ہوتے ہیں اور زندگی کے ٹریک کو اس خوش
اسلوبی کے ساتھ آگے لے جاتے ہیں کہ انسانوں کوان کی منزل مقصودتک پہنچنے
میں دشواری نہیں ہوتی ۔آپ زندگی کے کسی بھی شعبے سے وابستہ ہوں جب تک آپ
اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کرتے آپ اپنے حقوق کے مطالبے کے مجازنہیں
ہوسکتے۔بس یہی فرق ہے جوہماری سمجھ میں نہیں آتایاہم سمجھنانہیں چاہتے۔ہم
اپنے حقوق کامطالبہ توبڑے دعوے کے ساتھ کرتے ہیں اوردوسروں کے سامنے شکایات
کی گٹھری کھول کر رکھ دیتے ہیں لیکن اپنے فرائض وذمے داریوں سے آنکھیں
چراتے ہیں ۔بہ لفظ دیگر خود تو کام نہیں کرتے مگردوسروں سے کام کی امید
رکھتے ہیں۔
عوام کی ایک بڑی اکثریت صرف خداکے بھروسے کے دعوی کے ساتھ جیناچاہتی ہے
محنت کرنے ،آگے بڑھنے اورکچھ کردکھانے کاجذبہ نہیں رکھتی۔ اس کااسلام سے
دورکابھی کوئی رشتہ نہیں۔دین تدبیر و تقدیر دونوں کے مجموعے کانام ہے ۔دین
نے تدبیرکرنے پر بھی ابھارا ہے اورتقدیرکوحق سمجھنے کابھی حکم دیاہے ۔
تدبیر سے کنارہ کشی کرکے محض تقدیرکے بھروسے جینے والے وہی ہیں جواپنی ذمے
داریوں کی ادائیگی سے کتراتے ہیں اورجب ان کے حقوق غصب کیے جاتے ہیں تو
آوازِ احتجاج سب سے پہلے انہی کی طرف سے بلند ہوتی ہے ۔اسلامی اصول تویہ ہے
کہ آپ جوکرناچاہتے ہیں اس کے لیے بھرپورمحنت کریں اوراپنی بھرپورکوششیں
جاری رکھیں پھراس کے بعداﷲ سے دعاکریں کہ اے اﷲ!مجھ سے جتنا ہو سکتا تھا
میں نے کر دیا اب نتیجہ تیرے ہاتھ ہے۔
محنت اورکوشش کی سب سے اچھی اورعظیم مثال جنگ بدرکاواقعہ ہے ۔جنگ بدرکے ضمن
میں ۳۱۳اور۱۰۰۰کاذکربہت کثرت سے ہوتا ہے لیکن ا س کے بین السطورمیں جوپیغام
پنہاں ہے اسے فراموش کردیا جاتاہے ۔اس جنگ میں صحابۂ کرام کی تعدادمحض
۳۱۳تھی جب کہ ان کے مقابلے میں کفارایک ہزارکی تعدادمیں تھے ۔صحابۂ کرام کے
پا س لڑنے کے لیے اسلحہ بھی کم تھا،خوراک اورسواریاں بھی نہ ہونے کے برا بر
تھیں۔ دوسری طرف کفارکے پاس ہتھیاربھی تھے، سواریاں اور خوراک بھی اور
افرادکی کثرت بھی ۔نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک ایک اونٹ پرتین تین
صحابۂ کرام کو سوار کرایا،جن کے پاس تلواریں نہیں تھیں انہیں درختوں کی
سوکھی ٹہنیاں دی گئیں۔ مسلمانوں سے جتناکچھ ممکن ہوسکاتھا انہوں نے کیا۔جب
جنگ کانقارہ بجااور میدان بدر میں مسلمان و کفارایک دوسرے کے سامنے صف
آراہوگئے تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے خدا کے حضوردعافرمائی اور غیب سے
فتح و نصرت کے طالب ہوئے اوراﷲ نے ا ن کی نصرت کے لیے پانچ ہزار فرشتے اتار
دیے۔ قرآن مجیدمیں ہے: اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا وَیَاْتُوْکُمْ مِّنْ
فَوْرِہِمْ ہٰذَا یُمْدِدْکُمْ رَبُّکُمْ بِخَمْسَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ
الْمَلٰٓئِکَۃِ مُسَوِّمِیْنَ (ترجمہ) اگر تم صبرکرو، تقویٰ اختیارکرو اور
کافر اسی دم تم پر آپڑیں تو تمہارا رب تمہاری مدد کو پانچ ہزار فرشتے نشان
والے بھیجے گا۔(سورۂ آل عمران: ۱۲۵ )
اس واقعے نے کئی اصول طے کردیے۔(۱)دعااسی وقت کی جاتی ہے جب تیاری مکمل
ہوجاتی ہے۔(۲)خدائی نصرت اسی کوملتی ہے جوساری تیاری کرکے بڑی عاجزی اوربے
کسی کے ساتھ اس سے مددکاطالب ہو۔(۳)اگرآپ سچے ،مخلص اورجذبے سے لیس ہیں تو
خداکی مددضرورآئے گی ۔(۴)آپ کے موقف کی سچائی وقت کے سپر پاورکوبھی شکست
کھانے پرمجبورکردے گی۔(۵) قائد اگر سچا، کھرا اور مخلص ہوتواس کے متبعین بے
سروسامانی کابہانہ نہیں کرتے اورجاں نثار کرنے کوتیارہوجاتے ہیں۔(۶) جنگیں،
اسلحوں اورمادی وسائل سے زیادہ گہرے جذبوں،مضبوط حوصلوں اور بھرپور قوت
ارادی سے لڑی جاتی ہیں۔ (۷) اگرتیاری مکمل ہوتوفتح مندی کے امکانات زیادہ
روشن ہوتے ہیں۔
میدان جنگ میں آنے سے پہلے اورکفارسے مقابلے کے لیے نبی کریم صلی اﷲ علیہ
وسلم سے بحیثیت انسان جوکچھ ہوسکتاتھاانہوں نے کیا۔ اپنی کوششوں،محنتوں،
تیاریوں اور قربانیوں کاساراسرمایہ سمیٹ کر میدان بدر میں لے آئے۔صرف دعاؤں
پربھروسہ نہیں کیا۔ دعا کے لیے اس وقت ہاتھ اٹھائے جب ساری تیاریاں مکمل
ہوگئیں اور بظاہر اس سے زیادہ کوشش کرناان کے لیے ممکن نہ رہا۔اگروہ چاہتے
تو دعاؤں کے سہارے ہی کفارکوشکست دے دیتے ،خانۂ کعبہ کے سائے میں دعا
فرماتے ساراعرب مسلمان ہوجاتامگریہ جنگیں کیوں برپاکی گئیں ، صحابۂ کرام
کوجہادکیوں کرناپڑا۔؟اس لیے کہ بندہ صرف دعاؤں پرتکیہ کرکے نہ بیٹھ جائے
اورمادی وسائل کااستعمال ترک نہ کردے ۔ اسلام عملی مذہب ہے، وہ پوری
دنیاکویہ پیغام دیتاہے کہ محنتوں اور کوششوں سے تقدیریں بدلتی ہیں پھراس کے
بعدہی اﷲ پرتوکل کیا جاتا ہے ۔
جب تیاری مکمل ہو،اس سے زیادہ کوشش کرناہمارے بس میں نہ ہواورہم خداکے
حضورگڑگڑاکراس کی مددکے طالب ہوں تو خداے عظیم ایسے راستے سے ہماری
مددفرماتاہے جوکسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس اگرہم
ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اوراپنامستقبل خدا کے دست قدرت کے حوالے کردیں
اور مطلوبہ کامیابی نہ ملنے پرشکوہ کریں کہ خداکوایساہی منظورہے تویہ بے
عملی کہلائے گی اوراﷲ عزوجل بے عملوں کی مددکوآگے نہیں آتا۔
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،ایک صحابی رسول حاضرہوئے او رنبی
کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے دریافت کیا: ےَارَسُوْلَ اللّٰہِ
!اَعْقِلُھَاوَاتَوَکَّلُ اَوْاُطْلِقُھَاوَاَتَوَکَّلُ؟قَالَ :
اِعْقِلْھَاوَ تَوَکَّلْ اے اﷲ کے رسول!میں اونٹنی کوباندھ کرتوکل کروں
یااسے چھوڑکرتوکل کروں۔حضورنے فرمایاکہ اسے باندھو پھر توکل کرو۔
یہ روایت سنن ترمذی میں مختلف طرق سے آئی ہے۔ اس حدیث سے بھی یہ سبق ملتاہے
کہ پہلے انسان اپنے طورپر پوری کوشش کرلے اس کے بعد اﷲ پر توکل کرے کیوں کہ
جو اپنی مدد آپ کرتاہے اﷲ تعالیٰ بھی اس کی مددفرماتاہے اور جواپنی مدد آپ
نہیں کرتاتواﷲ تعالیٰ اس کویوں ہی چھوڑدیتاہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے انسانوں کو
پیدا کیا اور جنت وجہنم کے حصول کا انحصاران کے اعما ل پر رکھا۔ اﷲ عزوجل
کومعلوم ہے کہ کون جنتی ہے اور کون جہنمی مگر پھربھی بندے کواس کے اعمال کا
مختار بنانے کا کیا مطلب ہے ؟یہ دنیا دارالعمل ہے۔یہاں جوعمل کرتاہے ، کوشش
کرتا ہے ، محنتو ں اور جدوجہد کی قربان گاہ میں خودکوقربان کرتا رہتاہے وہی
کامیاب ہوتاہے ۔
آج ہم جس دورسے گزررہے ہیں اس میں محنت کامفہوم بدل گیاہے ،آج اسی کی محنت
رنگ لاتی ہے جس کے اندر معیار پایا جائے۔ محنت اورکوشش میں اگرکوالٹی نہ
ہوتوا س زمانے کی لغت میں ایسے عمل کو محنت نہیں کہتے۔ یقینامحنت ہم بھی
کررہے ہیں لیکن ہمارے اندروہ مطلوبہ جذبۂ مسابقت نہیں پایا جاتا جو معیارکے
حصول کے لیے انتہائی مطلوب ہے۔ ہماری خواہش ہوتی ہے کہ تھوڑی سی محنت سے
ہمیں مطلوبہ کامیابی حاصل ہوجائے ، آج کے دورمیں یہ ناممکن ہے ۔ انفراد ی
واجتماعی دونوں محاذپرہمیں اپنی محنت اورتیاری کی بلندترین چوٹی کو سر
کرناہوگااورمشترکہ ملی مفادات کے لیے بھی اپنے اپنے حصے کا پانی ڈالنا
ہوگاتبھی یہ شجرملت ثمردار ہوگا اور اس کے پھیلتے سائے ہمیں ٹھنڈک پہنچائیں
گے۔جب تک انسان اپنے اپنے حصے کاپانی نہیں ڈالے گاحالات جوں کے توں رہیں گے
۔ ہم لوگوں سے تووہ مینڈک اچھا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو
نمرودنے آگ میں ڈالا تو وہ اپنے منہ میں پانی لاکرآگ بجھانے کی کوشش کرنے
لگا ۔ ظاہر ہے آسمان سے باتیں کرتی ہوئی آگ ایک مینڈک کے منہ کے پانی سے
کیسے بجھ سکتی ہے ۔ اس کے منہ میں پانی ہی کتنا آتاہے ،اس سے سلگتے ہوئے
انگاروں کو بھی سردنہیں کیاجاسکتا۔لیکن اس نے اپنے طور پر کوشش توکی
اوراپنی عقل اوربساط کے مطابق آگ بجھانے کے لیے آگے توبڑھا ۔اگریہ بھی
ہماری ہی طرح سوچتا کہ ہماری محنت سے کیا ہوگا تووہ یہ نیک کام بھی نہ
کرپاتااورنہ خداکے یہاں سے اجر کا مستحق قرار پاتا۔اسی وجہ سے بعض علمانے
مینڈک کومارناممنوع قرار دیا ہے ۔
یقین مانیں ہم تواس مینڈک سے بھی گئے گزرے ہیں جوہمیشہ ذمے داری نہ نبھانے
کابہانے تراشتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم جیسے ناکارہ آدمی کی چھوٹی موٹی کوشش
سے کیاہوجائے گا۔آپ معاشرے کا سروے کرلیں تقریباًہرانسان یہی کہتاملے
گا۔دنیامیں کون ہے جسے یہ حقیقت معلوم نہ ہوکہ قطرہ قطرہ سمندر ہوتا
ہے۔اگرہرانسان اپنی اپنی ذمے داری نبھائے تومحنتوں اورجدوجہدکاایک ایساپہاڑ
کھڑا ہوجائے جوٹکرانے والوں کاپاش پاش کرکے رکھ دے ۔اجتماعی طورپرنہ سہی
انفرادی طورپرہی اگرہم آگے بڑھیں اورخدانخواستہ اس کے نتائج نہ بھی نکلیں
توکم ازکم ہم احتساب سے توبچ ہی جائیں گے ۔
یہ بھی ذہن نشین کرناضروری ہے کہ اس زمانے میں چوں کہ معیارات کاسانچہ بدل
گیاہے ا س لیے کوششوں اورمحنتوں کازاویہ بھی تبدیل ہوناچاہیے۔بدلتے
منظرنامے میں محنت اورتیاری کامفہوم یہ ہے کہ جیسا سوال ہواسی طرح کاجواب
دیاجائے ،محنت کامطلب صرف محنت کرنانہیں بلکہ درست سمت میں محنت کرناہے
اورجس قسم کی محنت مطلوب ہے ویسی محنت کرنی ہے ورنہ نتائج اچھے نہیں آئیں
گے ۔آج بھی کچھ لوگ ماضی میں زندگی گزا ر رہے ہیں ، چلت پھرت زمانۂ حال میں
ہے لیکن کا م کرنے کا انداز وہی ماضی جیسا ہے ۔اگردشمن جدیدترین ٹیکنالوجی
کے سہارے حملہ آورہورہاہے تو ظاہر ہے اسی کے مطابق جواب بھی دیناہوگابصورت
دیگر یہ جواب نہیں ہوگا حماقت ہوگی اوردین ودنیادونوں سے ناآشنائی بھی
کہلائے گی ۔آج دین کے فروغ کی محض باتیں کرنامگرا س کے لیے موجودہ جدید
ترین آلات ترسیل اورذرائع ابلاغ کااستعمال بھی گناہ سمجھنا انتہائی اعلیٰ
درجے کی سادہ لوحی ہے۔فروغِ دین کے لیے عصری تقاضوں سے گریز کرنا ایساہی ہے
جیسے کوئی بیماری کے علاج کے لیے دوائیں کھانے کے بجائے محض دعاکرنے
اورکرانے پر اکتفا کرے ۔ایسے لوگوں کے بارے میں کہاجاسکتاہے کہ ان کو محنت
، کوشش، جدوجہد،تیاری اور منصوبہ بندی کے ابجدسے بھی واقفیت نہیں ہے ۔
تیاری اسی وقت تیاری کہلاتی اور ثمربار ہوتی ہے جب امتحان ہال میں آنے والے
پرچے کے مطابق کی جائے ۔اگرآپ صرف خداکے فضل کے سہارے امتحان گاہ میں پرچہ
حل کرنے جائیں گے تونہ صرف یہ کہ ناکام ہوں گے بلکہ ذلت وخواری کی بھی نوبت
آجائے گی ۔ اگر آپ کے پاس مطلوبہ تیاری نہیں ہے توکیاجذبات سردپڑگئے ہیں
اورحوصلے شل ہوگئے ہیں اورکیا آپ کے پاس جذبۂ مسابقت بھی نہیں ہے ۔؟
مسلمانوں کے پاس حددرجہ غیر معمولی ذہانت ہے۔اس کی نمایاں مثالیں
ہماراشاندارماضی ہے اور آج بھی ہمارے ایسے بھائی ہیں جن کے کارنامے سن کر
ہماری گردنیں فخرسے تن جاتی ہیں ۔
بات تیاری کی چل نکلی ہے تویہ بھی بتادیناضروری ہے کہ ہم محنت
کرنے،قربانیاں دینے اورخودکوکسی مقصدمیں لگادینے میں کسی قوم سے پیچھے
ہرگزنہیں ہیں مگرچوں کہ ہماری قوتوں کا مرکزایک نہیں ہے اس لیے ہماری ان
تیاریوں کی بھی کوئی حیثیت نہیں رہ گئی ہے۔ ہماری ساری قوتیں مختلف جگہوں
پر بکھری ہوئی ہیں اورجوچیزبکھری ہوئی ہو ٹوٹ پھوٹ کاشکارہووہ کوئی کام
نہیں کرسکتی لیکن جب ساری قوتیں ایک جگہ جمع ہوجائیں تبھی وہ کوئی بڑاکام
کرنے کی ہمت جٹاپاتی ہیں۔ اگر یہ ساری قوتیں،صلاحیتیں اورمحنتیں ایک جگہ
مجتمع ہوجائیں اور پھر تنظیم ،منصوبہ بندی کے ساتھ تقسیم کارکے اصول کے تحت
کام پرلگ جائیں توہمیں شکوے شکایات کا موقع ہی نہیں ملے گا۔شکوہ کرنا دراصل
اپنی کوتاہیوں اورغلطیوں کوغذا پہنچانے کے متراد ف ہوتا ہے ، ہماری کم
نصیبی کہ ہم اپنی ہی کوتاہیوں کو غذافراہم کرکے غلطی پرغلطی کیے جارہے ہیں
اور ہمیں اس کا احساس ہی نہیں۔
آج ہرکسی کی زبان پربس ایک ہی شکوہ ہے ’’ہماری دعاقبول نہیں ہوتی‘‘۔دماغوں
میں یہ خلش کثرت سے پائی جاتی ہے کہ ہم پنچ وقتہ نمازی ہیں،بزرگوں کے پاس
بیٹھتے ہیں،بڑوں سے دعائیں کراتے ہیں،انفرادی طورپردعابھی کرتے ہیں
اورہزاروں ولاکھوں کے مجمع میں بھی دعامیں شرکت کرتے ہیں مگرحالات کی اینٹ
بدلتی تو کیاکھسکتی بھی نہیں۔لوگ ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں کہ کیا ہماری
دعاؤں سے اثراٹھالیاگیا؟گھوم پھرکرگفتگواسی مرکزپرآرہی ہے کہ جب انسان کی
ساری کوششیں دم توڑدیتی ہیں تب اﷲ کی رحمت ونصرت اسے اپنے آغوش میں لیتی
ہے۔انسان کواپناکام کرتے رہنا چاہیے اﷲ عزوجل بھی یقینااپناکام کرے گا۔ہمیں
یہ سمجھناہوگاکہ ہم جس چیزکے لیے دعاکررہے ہیں ہم نے اس کی تکمیل کے لیے
کیاکیاہے۔
اس سطح پرآکردیکھیں توعوام اورخواص میں کوئی فرق نہیں معلوم ہوگا۔جس طرح
عوام کی ایک بڑی اکثریت صرف ’’دعا‘‘پرجیناچاہتی ہے اسی طرح ہمارے مذہبی
اشرافیہ کی بھی ایک بڑی اکثریت ’’دوا‘‘ پر کم اور’’دعا‘‘پرزیادہ جیناچاہتی
ہے یاکم ازکم ایسا تاثر دینا چاہتی ہے۔ یہ کسی کامذہب توہوسکتاہے، دین
اسلام ہرگزنہیں ہوسکتا ۔اسلام کامشن یہ ہے کہ پہلے دوا بعد میں دعاتاکہ
ظاہری اورباطنی دونوں طرح سے بھرپورنصرت و حمایت حاصل ہواورکامیابی دست
بوسی کے لیے تلاش کرتی پھرے ۔اس کے باوجوداگرمطلوبہ مرادنہ ملے توسمجھ
لیجیے کہ اس میں کوئی بہت بڑی حکمت ہے جوسمجھ میں آنے والی نہیں۔ ہاں مطلق
’’دوا‘‘اسی وقت کارگرہوسکتی ہے جب اﷲ چاہے۔ہماری منصوبہ بندی،محنت ، کوشش،
عمل، جدوجہد، تیاری، قربانی اورنظم و ضبط ’’دوا‘‘ہے اورپھرخداکے حضور
کامیابی کی التجا ہماری’’ دعا‘‘۔ لاپرواہی ، بدعہدی،بے فکری،بے توجہی،بے
حسی،کاہلی،مردہ ضمیری، شکوہ سنجی اور غیر ذمے داری کے ڈھیرپربیٹھ کردعاکرنے
والے سے اس کے سوا امید ہی کیاکی جاسکتی ہے کہ وہ شکایات کے دفتر کھول
کررکھ دے اور اپنی قوم کی تباہی کا مرثیہ پڑھے ۔کوئی میرے کان میں پھونک
رہاہے کہ میاں!تم بھی تو انہی میں سے ہو۔ |