دودھ مافیا ڈیری مافیا

ڈیری مافیا یومیہ 4کروڑ روپے کاناجائز منافع کمارہی ہے،

میں ہمیشہ کھلا دودھ استعمال کرتا ہوں،شام کو گھر جاتے ہوئے، ایک اہم ڈیوٹی یہی ہے کہ دودھ لے کر جایا جائے، اگر کسی وجہ سے میں اپنی مخصوص دکان سے دودھ نہ خرید سکوں تو پھر دودھ کا ناغہ کرنا پڑتا ہے کہ مجھے ڈبے کا دودھ اس کی گرانی سے زیادہ شک وشبہے میں مبتلا کرتا ہے، گذشتہ چند برسوں میں دودھ کی قیمتیں واقعی آسمان کو پہنچ گئی ہیں، اس کا اندازہ دودھ والے کی دکان پر ان چھوٹی چھوٹی تھیلیوں کو دیکھ کر ہوتا ہے، جو غریب آدمی دس یا بیس روپے کا دودھ لے کر بنواتا ہے۔ دس یا بیس روپے کا دودھ کتنا ہوسکتا ہے، آپ خود اندازہ کرلیں، اب کیا یہ دودھ بچہ پی سکتا ہے، یا ایک گھرانے کی چائے کی ضرورت کو پورا کرسکتا ہے، کراچی اب مافیاوں کا شہر بنتا جا رہا ہے، پانی، ٹریفک، دودھ، بھتہ، بھکاری، اغوا،بجلی چوری، آپ کس کس مافیا کو روئیں گے۔ دودھ ہر گھر کا مسئلہ ہے۔ پانی کی طرح ہرروز دودھ کا بھی انتظام کرنا پڑتا ہے۔ صبح سویرے دودھ کی دْکانوں پر گاہکوں کی آمد شروع ہوجاتی ہے۔کھانے کی 50 فی صد اشیا میں کسی نہ کسی صورت دودھ استعمال ہوتا ہے ،اس لیے قیمتوں کے عدم استحکام سے کروڑوں صارفین متاثر ہوتے ہیں۔حکم رانوں کی عوامی مسائل سے عدم دل چسپی، کرپشن اور قانون پر عمل درآمد نہ ہونے سے دودھ جیسی ضروری غذائی اشیا بھی غریبوں کی پہنچ سے دْور ہوتی جا رہی ہے۔دودھ کے نرخ کون طے کرتا ہے، اس کی قیمت میں اضافے کا ذمے دار کون ہے ، معیاری دودھ میں کون سے اجزا ہوتے ہیں ، دودھ کا کاروبار کس طرح چلتا ہے اورکون لوگ یہ نظام چلا رہے ہیں۔ یہ بات اب راز نہیں رہی ہے، آئے دن اس بارے میں خبریں شائع ہوتی ہیں۔ اب ڈیری مافیا نے ایک بار پھر کراچی کے شہریوں کو ڈس لیا ہے۔ شہری انتظامیہ اور سرکاری نرخ کو خاطر میں لائے بغیر دودھ کی قیمت میں 4 روپے فی لیٹر اضافے کا اعلان کردیا۔شہر کے دکانداروں کے مطابق ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن کی جانب سے 31مارچ سے دی جانے والی سپلائی میں فی لیٹر 4روپے کا اضافہ کردیا گیا ہے جس کے بعد شہر بھر میں تازہ دودھ کی خوردہ قیمت 84 روپے فی لیٹر ہوگئی ہے۔ اس سے پہلے دودھ کی سرکاری قیمت 70روپے فی لیٹر تھی۔ جس پر کبھی بھی عمل نہیں ہوا۔ شہر بھر میں تازہ دودھ 76سے 80روپے لیٹر کی مختلف قیمتوں پر فروخت کیا جارہا تھا۔ کراچی میں ڈیری مافیا پہلے ہی من مانی قیمت پر دودھ فروخت کرتی رہی ہے اور اس بار بھی سرکاری نرخ 70روپے فی لیٹر کے باوجود قیمت بڑھادی گئی ہے، یہ نہ سزا سے ڈرتی ہے اور نہ جرمانوں سے شہریوں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ اس قدر نااہل ہے کہ دودھ فروشوں سے بھی سرکاری احکام پرعمل نہیں کراسکتی،در اصل یہ نااہل سرکاری افسران ہی ہیں جو رشوت کے کروڑوں روپے لے کر ان مافیا کے ساتھی اور مددگار بنے ہوئے ہیں۔ اس شہر میں حکومت نام کی کوئی شے موجود ہی نہیں ہے۔ جو دودھ کی قیمتوں میں من مانے اضافے کا نوٹس لے۔ جو حکام قانونی کارروائی کرنے نکلتے ہیں ، وہ بھی اپنی قیمت لے کر واپس آجاتے ہیں۔ کھلے دودھ کی فی لیٹر قیمت بڑھانے کا فیصلہ حکومت یا سرکاری دفتر میں نہیں بلکہ بھینس کالونی میں ڈیری فارمرز اورہول سیلرز کے اجلاس میں کیا جاتا ہے۔ صوبائی حکومت اورسٹی گورنمنٹ گزشتہ 3سال سے کراچی میں دودھ کی قیمت کوکنٹرول کرنے میں ناکام ہیں۔ اس عرصے میں فی لٹر کھلے دودھ کی قیمت 37 روپے سے بڑھ کر70 روپے اور اب 84 روپے ہوچکی ہے۔ اس صورت حال پرسخت نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ اورگورنر سندھ نے ڈی سی او کراچی کو ہدایت کی ہے کہ وہ حکومت کی جانب سے مقرر کردہ نرخ پر عوام کو دودھ کی فراہمی یقینی بنائیں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔لیکن اس پر عمل درآمد کون کرائے۔ ڈیری فارمرز اور ہول سیلرز نے راتوں رات دوودھ کی قیمت میں اضافہ کرکے لاکھوں روپے کمالئے ہیں۔ کراچی میں دودھ کی قیمت چار سال میں چوبیس روپے فی کلو بڑھائی گئی ہے۔دودھ مافیا نے عوام سے دودھ جیسی بنیادی شے کو چھین لیا ہے۔ دوہزار دس کے دوران دودھ کی قیمت ساٹھ روپے، دسمبر دوہزار گیارہ میں اڑسٹھ روپے، مارچ دو ہزار بارہ میں چوہتر روپے، اپریل دوہزار تیرہ میں اٹہتر روپے اور اب چھ روپے اضافے سے دودھ کی فی کلو قیمت چوراسی روپے کردی گئی ہے۔ ریٹیلرز کہتے ہیں ڈیری فارمرز سے پوچھا جائے قیمت کیوں بڑھی ہے۔ لیکن اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی میں روزانہ پینتیس لاکھ لیٹر دودھ استعمال ہوتا ہے۔ ریٹیلرز قیمت میں اضافے کا ذمہ دار ڈیری فامرز، بیوروکریسی، غیر قانونی چھاپوں اور ٹرانسپورٹیشن کی قیمتوں میں اضافے کو قرار دیتے ہیں۔ لیکن پس تو عوام ہی رہے۔ اضافے کے لئے ایک من گھڑت لاگت کا تخمینہ کمشنر آفس کو ارسال کردیا جاتا ہے، جس کے جواب میں بھاری رشوت لے کر کمشنر کراچی اور ان کا عملہ نوٹیفکیشن جاری کر دیتا ہے۔ پھر اس نوٹیفیکشن کی مدت کے خاتمے سے قبل ہی یہ ڈرامہ دوبار رچا یا جاتا ہے۔ ڈیری مافیا نے دودھ کی پیداوار، تھوک اور ریٹیل فروخت کے لیے لاگت کا من گھڑت تخمینہ دوبارہ کمشنر آفس میں جمع کرادیتی ہے جس میں دودھ کی سرکاری قیمت مزید فی لیٹر بڑھانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ موسم سرما کے دوران دودھ کی کھپت میں کمی اور پیداوار میں اضافے کے سبب طلب کے مقابلے میں رسد زیادہ ہونے کی نشاندہی کرتے ہوئے موسم سرما میں قیمت کم کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا تاہم صوبائی حکومت اور اعلیٰ انتظامیہ کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے موسم سرما میں قیمت کم کرنے کی بجائے اضافے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ اور یہ حکمت عملی کامیاب ٹہری۔ ڈیری انڈسٹری کے ذرائع کے مطابق موسم سرما میں دودھ کی پیداوار میں 20 سے 30 فیصد اضافہ ہوجاتا ہے ساتھ ہی دودھ کے کمرشل استعمال میں 50 فیصد تک کمی ہوجاتی ہے سرد موسم کے سبب لسی، دودھ کی بوتلوں، قلفی، فالودے، دودھ سے تیار مشروبات، قلفی کھیر فرنی اور دودھ سے تیار کیے جانے والے دیگر ٹھنڈے آئٹمز کی طلب غیرمعمولی طور پر کم ہوجاتی ہے پیداوار بڑھنے اور طلب کم ہونے سے مجموعی طور پر طلب کے مقابلے میں رسد 80 فیصد تک بڑھ جاتی ہے جس سے دودھ کی تھوک قیمت میں بھی کمی واقع ہوتی ہے موسم سرما میں شہر بھر میں دودھ کے عارضی اسٹالز اور دکانیں قائم کردی جاتی ہیں۔جہاں دودھ عام دکانوں سے 20 فیصد تک ڈسکاؤنٹ پر فروخت کیا جاتا ہے تاہم بندی پر دودھ لینے والے دکاندار بدستور مہنگے داموں دودھ فروخت کرتے ہیں، اس سارے کھیل میں نام نہاد کنزیومر رائٹس پروٹیکشن کونسل آف پاکستان بھی شامل ہے، جو صارفین کی نام نہاد نمائندگی کرتی ہے، بلکہ اس کھیل کا حصہ ہے۔ دوسری جانب ڈبے بند دودھ کی قیمتوں میں بھی من مانا اضافہ کیا جاتا ہے۔ ایک کمپنی نے غیراعلانیہ طور پر فی لیٹر دودھ کے پیکٹ کی قیمت میں4 روپے کا اضافہ کیا، پھر دوسروں نے بھی اس کی پیروی کی۔ جس کے نتیجے میں فی لیٹر ٹیٹراپیک دودھ کے پیکٹ کی قیمت95 روپے سے بڑھ کر99 روپے ہوگئی، اس طرح سے رواں سال کے ابتدائی ڈھائی ماہ کے دوران ٹیٹرا پیک ملک کے تیارکنندگان کی جانب سے بلاجواز فی لیٹردودھ کے پیکٹ کی قیمت میں مجموعی طور پر9 روپے کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ جنوری2014 میں فی لیٹرٹیٹرا پیک دودھ کی قیمت90 روپے تھی جو فروری کے وسط میں 5 روپے کے اضافے سے 95 روپے کردی گئی اور اب ہفتہ کو مزید4 روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔مارکیٹ ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹیٹرا پیک دودھ کے تیار کنندگان کی جانب سے یہ روایت بن گئی ہے کہ وہ پیشگی اطلاع دیے بغیر اچانک من مانے انداز میں قیمتوں میں اضافہ کرنے لگے ہیں، یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کمپنیوں کو لگام دینے کیلیے متعلقہ ادارے غیرمتحرک ہوگئے ہیں اورپرائس کنٹرول کمیٹی کی رٹ بھی ختم ہوگئی ہے ۔کچھ عرصے قبل کراچی میں شہری حکومت نے سرکاری طور پر مقرر کردہ نرخ سے زیادہ قیمت پر دودھ فرخت کرنے کے الزام میں دودھ فروشوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے چالیس دکانداروں پر جرمانے عائد کیے ہیں جبکہ پانچ کو جیل بھیجا۔ لیکن اب نہ جرمانے کی پروا کی جاتی ہے اور نہ جیل جانے کی دودھ اسی قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ بھی ڈیری مافیا ہے، جو اپنے ارکان کو بچانے کے لئے ساز باز کرتی رہیتی ہے۔ بہت سے دودھ فروشوں چاہتے ہیں کہ قیمت میں کمی کی جائے، لیکن ایسوسی ایشن انھیں ایسا کرنے سے باز رکھتی ہے۔ باڑے سے گھر تک دودھ پہنچانے میں کئی لوگ حصّہ لیتے ہیں، جن میں تین کردار بڑے اہم ہیں،باڑے کا مالک (ڈیری فارمر)، مڈل مین اور دْکان دار۔جب دودھ کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کی ذمے داری یہ تینوں ایک دوسرے پر ڈالنے لگتے ہیں، لیکن درحقیقت یہ تینوں ہی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں اور بھگتنا عوام کو پڑتا ہے۔ پانچ برسوں میں دودھ کی قیمت دْگنی ہوچکی ہے۔ دْکانوں پر کبھی اصل قیمت پر دودھ فروخت نہیں ہوتا۔ دْکان دار سرکاری ریٹ سے ہمیشہ پانچ ،دس روپے زیادہ ہی وصول کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے دودھ 80 روپے میں فروخت ہورہا تھا، جس میں یکم اپریل سے منافع خوروں نے اچانک 4 روپے اضافہ کرکے فی لیٹر دودھ 84 روپے تک پہنچا دیا۔ دودھ کے نرخ ایک کمیٹی مقرر کرتی ہے، جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی نمایندگی ہوتی ہے۔ ان میں ڈیری فارمرز، ہول سیلرز، ریٹیلرزاورصارف تنظیموں کے نمایندوں کے علاوہ شہری وصوبائی حکومتوں اور لائیو اسٹاک کے عہدے دار شامل ہوتے ہیں۔ ان سب کے اتفاق رائے سے دودھ کی قیمت طے ہوتی ہے۔ نرخ طے کرنے کی بنیاد ایک تحقیق پر ہوتی ہے، جس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک بھینس روزانہ اوسطاً 8 لیٹر دودھ دیتی ہے اور بھینس کا چارا، اْس کی دوائی، ملازمین کی تن خواہیں وغیرہ شامل کر کے ایک بھینس پر آنے والے اخراجات کا حساب نکالاجاتا ہے۔ اس طرح باڑے کے مالک ، ہول سیلرز اور ریٹیلرز کا منافع شامل کر کے فی لیٹر دودھ کا سرکاری ریٹ مقرر کیا جاتا ہے۔ دودھ کے کاروبار سے جْڑے بعض افراد کا کہنا ہے کہ سرکاری کمیٹی محض خانہ پْری کے لیے ہوتی ہے، اصل ریٹ باڑے کے مالکان طے کرتے ہیں اور کمیٹی کو اْ ن کے مقرر کردہ ریٹ کے مطابق فیصلہ دینا پڑتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو کچھ دنوں بعدباڑے والے اپنی قیمت پر دودھ بیچنا شروع کر دیتے ہیں اور دْکان داربھی سرکاری نرخ سے زیادہ قیمت وصول کرتے ہیں۔عوامی شکایات پر حکومت رسمی طور پر کچھ دْکان داروں پر گراں فروشی کا جرمانہ کر دیتی ہے اورپھر پورا سال خاموشی سے عوام کے لْٹنے کا تماشا دیکھتی رہتی ہے۔ باڑے والے ، دْکان داروں کو براہ راست دودھ نہیں بیچتے۔ اْن کے درمیان ایک مڈل مین ہوتا ہے، جو باڑے کے مالک سے ایک سال کا معاہدہ کرتا ہے، جسے ’بندی‘ کہتے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت باڑے والا ،مڈل مین کو پورے سال ایک ہی ریٹ پر دودھ فروخت کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ مڈل مین اپنا کمیشن رکھ کردودھ ْدکان دار کو بیچتا ہے۔ مڈل مین اور دْکان دار کے درمیان بھی بندی کا معاہدہ ہوتا ہے۔اس معاہدے کی معیادہر سال 31 دسمبر کو ختم ہوتی ہے۔

ان دودھ فروشوں کا مطالبہ ہے کہ شہری حکومت تازہ دودھ کے کاروبار کو تحفظ فراہم کرے اور ڈیری فارموں اور ڈسٹری بیوٹروں کو بھی پابند کرے کہ وہ دوکانداروں کو دودھ سرکاری نرخ پر فراہم کریں تاکہ عوام کو بھی سرکاری قیمت پر دودھ مہیا ہوسکے۔ ڈیری مافیا کا موقف یہ ہے کہ حکومت ڈبے والوں کو کچھ نہیں کہتی، جبکہ تازہ دودھ فروخت کرنے والے ہی مارکیٹ میں مقابلہ کی فضاء قائم رکھے ہوئے ہیں اور جب یہ نہیں رہیں گے تو ڈبہ کا دودھ فروخت کرنے والی ان کثیرالاقوامی کمپنیوں کی اجارہ داری ہوجائے گی اور دودھ بہت مہنگا ہوجائے گا۔دودھ فروشوں کی انجمن بھی ہے۔ اس کا موقف یہ ہے کہ حکومت ڈیری فارم والوں اور ڈسٹری بیوٹروں کو پابند کریں کہ وہ دوکانداروں کو دودھ مقررہ قیمت پر فروخت کریں تاکہ دوکانداروں کو نقصان برداشت نہ کرنا پڑے۔ان کا کہنا ہے کہ دوکاندار دودھ زائد قیمت میں خرید کر کم قیمت میں کیسے فروخت کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ کئی برسوں سے طے نہیں ہوا ہے اور مستقل نقصان برداشت کرنے کی وجہ سے بہت سے دوکانداروں نے دودھ کے کاروبار کو خیرآباد کہہ دیا ہے۔ ان کا یہ دعوی بھی ہے کہ تازہ دودھ کی فراہمی کو جان بوجھ کر مشکل ترین بنایا جارہا ہے اور اس سے کثیرالاقوامی کمپنیوں کو فائدہ ہورہا ہے۔ بھینس مالکان کتے ہیں کہ اگر حکومت چارے کی قیمتوں میں اگر دو تین سال تک اضافہ نہ ہو نے کی یقین دہانی کرادے توباڑے والے بھی دودھ کی قیمت میں اضافہ نہیں کریں گے۔ بھینس کے راشن میں شامل کْتّر (سبز گھاس)، بھوسا، دلیہ ، کھلی اورچوکروغیرہ شامل ہے۔ دودھ گاڑھا کرنے کے لیے سردیوں میں بھینسوں کی خوراک کے ساتھ گھی ملایا جاتا ہے اور گرمیوں میں سرسوں کا تیل شامل کیا جاتا ہے۔بھینسوں کو بورنگ کا پانی پلانے سے دودھ کی کوالٹی متاثر ہوتی ہے اور دودھ پتلا ہوتاہے، اسی لیے بھینسوں کو میٹھا پانی دینا پڑتا ہے۔ ایک بھینس روزانہ 9 سے 10کلو راشن کھاتی ہے۔ ایک کلو راشن 40 روپے کا پڑتا ہے۔راشن کے ساتھ بھینسوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ جو بھینس ایک لاکھ 10 ہزار کی تھی ، آج وہ ڈیرھ لاکھ روپے کی ملتی ہے۔‘‘ حکومتی عہدے داروں اور صارف تنظیموں کے نمایندوں کا موقف ہے کہ باڑے والے دودھ کی قیمت میں اضافہ کرنے کے لیے اخراجات بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور اس میں مبالغہ آرائی کرتے ہیں۔ اْن کاکہنا ہے کہ اگر باڑے والوں کو اس کاروبار میں نقصان ہورہا ہے تو بہتر ہے وہ کوئی دوسرا کاروبار کرلیں اور یہ کام کسی اور کو کرنے دیں۔اْن کا کہنا ہے کہ کچھ باڑے والوں کے اپنے فارم اور دْکانیں ہیں، جو ہر طرف سے منافع کما رہے ہیں، لیکن پھر بھی اخراجات کا رونا روتے رہتے ہیں۔ معیاری دودھ میں 6 فی صد چکنائی (Fats) ضروری ہے لیکن بازارمیں فروخت ہونے والے دودھ میں صرف 2 سے 3 فی صد چکنائی ہوتی ہے۔اگر ایک فی صد چکنائی کم ہو جائے تو دودھ کی قیمت میں فی لیٹر 10 روپے کمی ہوجاتی ہے۔ انڈیا میں اسی اْصول پر عمل کیا جاتا ہے۔ ممبئی میں چکنائی کی پیمائش کی مشینیں نصب ہیں،جہاں چکنائی کے حساب سے دودھ فروخت ہوتا ہے۔ دو سال قبل کوالٹی کنٹرول کے اہل کاروں نے شہر بھر سے دودھ کے 117 نمونے اکٹھے کیے تھے، جن میں سے 35 فی صد مضر صحت نکلے۔ دنیا بھر میں گوشت اور دودھ دینے والے جانور الگ ہوتے ہیں لیکن ہمارے یہاں اس میں کوئی فرق نہیں رکھا جاتا۔جن گائے بھینسوں سے دودھ حاصل کرتے ہیں، بعد میں اْسی کو ذبح کر کے کھا جاتے ہیں۔ باڑا مالکان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بھینسوں سے زیادہ سے زیادہ دودھ حاصل کرے۔ اس کوشش میں وہ بعض اوقات اخلاقی حدود بھی پھلانگ جاتے ہیں۔ ایک نارمل بھینس ایک سال تک دس سے بارہ کلو روزانہ دودھ دیتی ہے اس کے بعد اْس میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ جب بھینس کم دودھ دینے لگتی ہے تو اسے چوائی (دودھ دھونے) کے وقت ایک خاص قسم کا انجکشن لگایا جاتا ہے، جس سے وہ دودھ کی مقدار بڑھا دیتی ہے۔ یہ غیر فطری طریقہ ہے، جس سے بھینس کو دودھ دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ دوسری ظلم اْن کا ساتھ یہ کیا جاتا ہے کہ اْن کے کٹوں کو پیدا ہونے کے کچھ دن بعد قصائیوں کے ہاتھوں بیچ دیا جاتا ہے، تا کہ وہ اپنی ماں کا دودھ پی کر اْن کے منافع کو کم نہ کر دیں۔ قصائی ان کٹوں کو ذبح کر کے اْن کا گوشت ہوٹلوں میں بیچ دیتے ہیں، جہاں اسے بکرے کے گوشت سے تیارکھانے ظاہر کر کے گاہکوں کو پیش کیا جاتا ہے۔ آسٹریلیا دودھ کی پیدا وار میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ وہاں دودھ دینے والی گائیں الگ ہوتی ہے،جن کی خاص طریقے سے پرورش کی جاتی ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پنجاب میں بھینسوں کا علاج معالجہ مفت ہوتا ہے اور چارے کی قیمتیں سال بھر مستحکم رہتی ہیں۔ حکومت سندھ اگر ہمیں سہولتیں دیں تو ہم 10 لاکھ لیٹر دودھ کی قلت دْور کر سکتے ہیں۔ اس وقت کراچی میں روزانہ 70 لاکھ لیٹر دودھ کی ضرورت پڑتی ہے، لیکن کراچی کے باڑوں میں موجود قریباً 19 لاکھ بھینسوں سے 60 لاکھ لیٹر دودھ حاصل ہوتا ہے اور 10 لاکھ لیٹر دودھ کی کمی خشک دودھ سے پوری کی جاتی ہے۔ دودھ میں پانی ملا کر مقدار بڑھانے اور اسے گاڑھا کرنے کے لیے اس میں رورڈ اور یوریا کیمیکل ملانے کی شکایات اکثر سامنے آتی ہیں۔ملاوٹ کے لیے دودھ مافیا نے باقاعدہ پیڑول پمپوں پر اپنے اڈے قائم کر رکھے ہیں۔ جہاں پانی کی ملاوٹ کی جاتی ہے۔دودھ میں یوریا کیمیکل اور پانی بھی ملایا جاتا ہے۔کراچی میں بھی مضر ِ صحت دودھ سے متعلق سیکڑوں شکایات موصول ہوتی ہیں، جن پر بہت کم ایکشن لیا جاتا ہے۔ باڑوں سے نکلنے کے بعد دودھ کو برف یا فریزر میں نہ رکھا جائے تو وہ 4گھنٹے بعد خراب ہوجاتا ہے، چناں چہ دْکان دار دودھ کے ڈرم کے وسط میں اسٹیل کی ٹنکی میں برف رکھتے ہیں، تا کہ فروخت ہونے تک دودھ خراب نہ ہو۔ برف پگھل کر دودھ میں شامل ہوتی رہتی ہے، لیکن اسے ملاوٹ کے بہ جائے دْکان دار کی مجبوری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ دودھ کے کاروبار سے منسلک لوگ دودھ میں پانی کی ملاوٹ تسلیم کرتے ہیں لیکن کوئی دوسری مایع شے کی ملاوٹ کے قائل نہیں ہیں۔ اْن کا کہنا ہے کہ دودھ بڑی حساس شے ہوتی ہے، اس میں تیل ، گھی یا کسی مایع شے کا چھینٹا بھی پڑ جائے تو وہ خراب ہوجاتا ہے۔ اس لیے اراروٹ اوریوریا کیمیکل کی ملاوٹ والی بات عقل تسلیم نہیں کرتی۔ڈبے کا دودھ ڈالر کی کمی کے باوجود مہنگا ہو رہا ہے۔ اس کے نرخ مسلسل بڑھ رہے ہیں‘ بچوں کیلئے دودھ کے ڈبے کی قیمت دو ماہ میں 15 فیصد بڑھ چکی ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران 200 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ پاکستان دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہونے کے باوجود ملک پروسینگ پر سرمایہ داروں کی اجارہ داری کے باعث بچوں کیلئے خشک دودھ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پانے میں ناکام ہے حالانکہ ملک پروسینگ انڈسٹری میں گزشتہ 5 سالوں کے دوران 700 ملین ڈالر کی اضافی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ اس کے باوجود ڈبے میں محفوظ دودھ مارکیٹ کا صرف سات فیصد حصہ ہے۔ ڈبہ والے دودھ کے مالکان کے مطابق پروڈکشن کاسٹ میں مسلسل اضافے کی وجہ سے دودھ کے ڈبے کی قیمتوں میں اضافہ روکنا ناممکن ہو گیا ہے۔ ایک لیٹر کا دودھ کا ڈبہ جو پانچ سال قبل 36 روپے کا تھا اب 99 روپے کا ہو گیا ہے۔ ڈبے کا دودھ بنانے والی کمپنیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ عالمی معیار کو برقرار رکھتے ہوئے کم سے کم منافع پر اپنی مصنوعات فروخت کر رہے ہیں۔ قیمتوں میں اضافے میں سب سے بڑا رول کراچی کی ضلعی انتظامیہ کا ہے۔ جو اجلاس میں شریک ڈیری فارمرز، ہول سیلرز اور ریٹیلرز سے سرکاری نرخ پر دودھ فروخت کرنے کی یقین دہانی حاصل کرنے میں ناکام رہی اور ڈیری فارمرز کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ اس موقع پر صارف انجمنوں کے نمائندے بھی خاموش رہے، جو ایک مجرمانہ خاموشی ہے۔ دودھ صحت بخش غذا ہے، اس لیے ہر ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ اْس کا بچہ ناشتے میں یا رات کے وقت دودھ کا ایک گلاس پی کر سوئے۔ تاہم غیر معیاری دودھ بچے کو صحت مند بنانے کے بہ جائے اْس کی جان خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ دودھ ہمیشہ اچھے اور ایمان دار دْکان دار سے خریدنا چاہیے۔ جگہ جگہ اسٹالوں میں فروخت ہونے والا دودھ غیر معیاری ہوتا ہے، جس میں دیہات سے جمع کیا گیا گائے، بکری کا دودھ بھی شامل کر لیا جاتا ہے اور اسے انتہائی غیر محفوظ طریقے سے جمع کر کے شہر تک پہنچایا جاتا ہے۔ دودھ کی قلت دور کرنے کے لیے نئے باڑوں کا قیام ناگزیر ہوچکا ہے۔ اس سلسلے میں سندھ حکومت کا ٹھٹھہ میں 8.2 ارب روپے لاگت کا ’’بھنبھور ڈیری فارم (ولیج ) اینڈ پروسیسنگ زون‘‘ منصوبے زیر تعمیر ہے۔ پورے ملک میں دودھ کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ایسے منصوبے جلد از جلد مکمل کیے جانے چاہیے تا کہ دودھ کی قیمتیں کم کی جا سکیایک اندازے کے مطابق کراچی میں تازہ دودھ کی یومیہ کھپت 50 لاکھ لیٹر ہے جس پر فی لیٹر 8 روپے منافع وصول کیا جانے سے ڈیری مافیا یومیہ 4کروڑ روپے کاناجائز منافع کمارہی ہے، یہ رقم رشوت کے لئے استعمال کی جا رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق شہریوں سے غیر سرکاری قیمت کے نام پر وصول کی جانے والی رقم، پرائس اور کوالٹی کنٹرول کے تمام محکموں میں تقسیم کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔

Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387629 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More