ریاستی اور غیر ریاستی؟

آزادکشمیر میں چند ایک لینٹ آفیسران کے علاوہ مختلف شہروں میں چند ایک کاروباری حضرات کا تعلق پاکستان کے مختلف علاقوں سے ہے۔ ان میں مری، ایبٹ آباد کے علاوہ پختوں علاقوں سے تعلق رکھنے والے کاروباری حضرات شامل ہیں اور کچھ پٹھان لوگ محنت مزدوری بھی کرنے آتے ہیں۔ افغان مہاجرین میں سے بھی کچھ حضرات آزادکشمیر کے مختلف علاقوں میں کاروبار کرتے ہیں۔ انسان جہاں رہتے ہیں وہاں باہمی تعاون اور پیارومحبت کے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں اور گاہے گاہے شکایات بھی جنم لیتی ہیں۔ یہ شکایات ہم کشمیریوں کو آپس میں بھی ہیں، لیکن اس پر کبھی اتنا شور شرابہ نہیں ہوتا جب کبھی کسی دوسرے صوبے کے کسی فرد سے کشیدگی ہو جائے تو جو سرپٹوکی جاتی ہے۔ مقامی سطح پر عموماً مفادات کے تصادم ہوتے ہیں، بعض بہت ہی معمولی واقعات ہوتے ہیں لیکن اخبارات میں اسے بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے۔ جس سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے غیر ریاستی عناصر نے کشمیر پرقبضہ کر لیا ہو یا کوئی بہت بڑی زیادتی کا ارتکاب ہو گیا ہے۔

ہم تو بدقسمت لوگ ہیں، دنیا کا حسین و جمیل خطہ اﷲ نے ہمیں عطا کر رکھا ہے، انسانی صلاحیتوں کے اعتبار سے کشمیر کے لوگوں کا شمار ذہین ترین افراد میں ہوتا ہے لیکن ہم خوبصورت خطے کی حفاظت کر سکے اور نہ ہی اپنے انسانی وسائل سے کوئی فائدہ اٹھا سکے۔ ہر دو نعمتوں کی بے توقیری کی حدیں ہم نے پھلانگ رکھی ہیں۔ جو کشمیری دھکے کھاتے کھاتے کسی اچھے معاشرے (یورپ، مڈل ایسٹ وغیرہ) پہنچنے میں کامیاب ہوئے ، وہ وہاں کے سماج میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہم جو کشمیر میں رہتے ہیں ہر وقت باہمی جنگ و جدل، برادری ازم ، علاقائیت، سیاسی افراتفری، دوسروں کی ٹانگیں کھینچنے اور غیبت و حسد کی ناسور امراض کا شکار رہتے ہیں۔

نائب قاصد کی ایک نوکری کے لیے ہم دوسروں کو نوچ کھانے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ ملازمتوں میں پوسٹنگ پر ہم ہمیشہ سیخ پار ہتے ہیں۔ کسی دوسرے فرد کو ترقی کرتا ہم نہیں دیکھ سکتے۔ جب کوئی باہر کا مہمان ہمارے ہاں کاروبار کرنے آئے اور ہمارے مفادات کو زک پہنچے تو ہم برداشت کرنے پر تیار نہیں ہو تے۔ کاروباری مقابلہ کرنے کے بجائے ریاستی اور غیر ریاستی کی جنگ چھیڑ لیتے ہیں۔ اس طرح کے سطحی ایشوز کو اٹھانے سے پہلے ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہمارے کشمیر بھائی پاکستان کے ہر شہر میں محنت مزدوری کر رہے ہیں۔ ہمارے متعصبانہ رویے کا اگر کسی نے جواب دے دیا تو پھر نتائج کیا ہوں گے۔ پاکستان کا کوئی شہر ایسا نہیں جہاں ہمارے ریاستی باشندے روزگار کے لیے مقیم نہ ہوئے۔ چھوٹے چھوٹے معاملات پر ہم جس ردعمل کا اظہار کرتے ہیں اگر کسی مقام پر کوئی ردعمل ہوا تو ہم اسے برداشت کر لیں گے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دفعہ باغ میں ایک پٹھان مزدور سے مقامی افراد نے زیادتی کی، جرگہ ہوا لیکن نام نہاد معززین نے بیچارے پٹھان کی ایک نہ سنی۔ شام کو صوبہ سرحد سے ایک قبائل سردار نے فون پر دھمکی دی کہ مزدور سے انصاف کرو ورنہ کل شام تک سارے کشمیریوں کی بیکریاں بندکرکے کشمیریوں کو لپیٹ دوں گا تو ہمیں جان کے لالے پڑگئے۔

گزارش یہی کرنا ہے کہ ہمیں اعتدال میں رہنا سیکھ لینا چاہیے۔ ریاستی اور غیر ریاستی کی تفریق بنیادی انسانی اور اسلامی اقدارے کے بھی منافی ہے اور خود ہمارے معاشرتی ڈھانچے کو بھی سبوتاز کرنے کے لیے کافی ہے۔ کچھ انتہا پسند جاہل قوم پرستی کے نام پر ایسے فسادات برپا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا ایجنڈا ہی یہی ہے کہ اہل کشمیر اور ملت اسلامیہ پاکستان کے درمیان نفرتوں کی دیوار حائل کردی جائے۔ وہ اہل کشمیر کو صرف پاکستان نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا ایجنڈا امت کے تصور کو پامال کرنا ہے۔ انہیں کشمیریوں سے کوئی دلچسپی نہیں، وہ پٹے ہوئے عالمی استعمار کے پے رول پر ہیں۔ ہمیں اپنے روئیے قائم کرتے ہوئے زمینی حقائق کو مدنظر رکھنا چاہیے اور نفرتوں کو کم سے کم کرتے ہوئے سازگار حالات میں مناسب حل کو ترجیح دینی چاہیے۔ اپنے مفادات اور اپنے علاقے سے ذرا بلند ہو کر سوچنے اور فیصلے کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اخبار نویس بھائیوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ ریاستی بنیاد پر تفریق کو نفرت میں بدلنے سے بچائیں، اس میں ہم سے کی خیر ہے۔

جن کو ہم غیر ریاستی کا طعنہ دیتے ہیں، وہی ہیں جنہوں نے زلزلے کو موقعہ پر اپنا سب کچھ ہم پر نچھاور کیا۔ یہ وہی لوگ ہیں کہ حالیہ تحریک آزادی میں کشمیر کے کونے کونے میں ان کے جوانوں نے اپنے گرم لہو کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ پاکستان کا کونسا گاؤں ہے جس کے جوان کی قبر کشمیر میں موجود نہیں۔ آزادکشمیر میں تو ایسی کئی یونین کونسلیں موجود ہیں ، جہاں سے موجودہ تحریک میں ایک بھی جوان قربان نہیں ہوسکا لیکن ’’غیر ریاستی عناصر‘‘ تو ہر موقعہ پر ہم سے بازی لے گئے۔ یہ ہمارے محسن ہیں۔ اس طرح انہیں مخاطب نہ کریں۔ دانش مند قومیں احسان کا بدلہ احسان سے دیتے ہیں۔

Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 105652 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More