حضرت ابوبکر صدیق ۔رضی اﷲ عنہ ۔کے فضائل وشمائل بہت ہیں ،مناقب
صحابہ ؓ پر مشتمل کتب میں ذرہ سی نگاہ سے حضرت صدیق کے متعدد اوصاف اور
مواقف ایسے سامنے آجاتے ہیں ،جوصرف انہی کا خاصہ ہیں ، لیکن عام مسلمانوں ،اقتدار
کے ایوانوں میں براجمان حکمرانوں اور بلاتفریقِ دین ومذہب پوری انسانیت کو
فی زمانہ ان کے سچائی والے وصف ِامتیازی کی جس قدر ضرورت ہے ،اتنی شاید
کبھی نہ ہو ، وہ صدیقیت کے مقام پر فائز تھے ، صدق وراستی ان کا ایسا شیوہ
بن گیاتھا کہ وہی ان کا لقب ، تخلص اور دوسرا نام پڑ گیاتھا ، سب سے بڑی
بات یہ ہے کہ اس وصف کے ذریعے روحانیت میں ان کو نبوت کے بعد کل کائنات میں
بہت ہی اعلی وارفع مرتبہ ملا،اسی وصف سے وہ طوفانوں سے ٹکرا کر ہمیشہ فاتح
بن کر نکلے ، اسی وصف نے انہیں تجارت ،معاشرت ،رفاقت ،مصاحبت ،شجاعت ،وزارت،خلافت
اور حکومت کی چوٹیوں پر پہنچایا، ’’صِدّیق‘‘ کا معنی ومفہوم ہی ’’سچ میں
مبالغہ کرنے والا‘‘ہے، بہت زیادہ اور ہرحال میں صدق کا دامن تھا مے رکھنے
والا،قرآن وسنت میں سچ اپنانے اور جھوٹ سے پر ہیزکرنے کی جابجا تلقینات
وتنبہات موجود ہیں،ایک آیت کریمہ میں تو جھوٹوں پر پروردگار کی لعنت کی گئی
ہے ،حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ سچ نجات کاراستہ ہے اور جھوٹ ہلاکت وتباہی کا۔
آج انسانیت کو ہر سطح پر جوبربادی کا سامناہے ،اس میں دیگر چیزوں کے علاوہ
ایک بہت بڑا عامل وباعث اور سبب وعلت جھوٹ ہے ،
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ’’مسئلہ ‘‘نہیں سمجھتے ،اور المیہ یہ ہے کہ مسائل
سمجھنے سمجھانے ،پڑھنے پڑھانے والے بھی صورت مسئلہ میں صورت پر زیادہ جاتے
ہیں ،مسئلہ پر جاتے جاتے وہ صورت میں اتنے اختلافات ابہامات تشکیکات اور
تنازعات کے شکارہوگئے ہوتے ہیں ، کہ اب مسئلہ سمجھناانکے بس کا روگ نہیں
ہوتا، تو مسئلہ پر عمل کیاکریں گے اور اسے اپنی زندگی کا حصہ کیسے بنائیں
گے ،یہ تو ہوئی ان کی بات، جنکی زندگیاں مسائل میں گزرتی ہیں ان کے سوا
دیگر لوگ اس مسئلۂ سچائی کو کہاں سے سمجھے، کہ وہ مسائل کے علم سے ناواقف
ہیں ،لہذا یوں دنیا میں کامیابی وکامرانی اور آخرت کی حیات جاؤ دانی مین
نجات وفلاح کے اس عظیم وصف سے ہم مسلمان خود بھی محروم رہے اور دنیائے
انسانیت کو بھی اس سے بے بہرارکھا -
بنابریں جب وصف کو ہم نہیں سمجھ سکے، تو صاحب وصف کو کیسے ہمارے پہنچ ہو،
یہی وجہ ہے کہ آج ابوبکر صدیق ؓ کی شخصیت اور ان کے ذات میں اندر چھپے
کردار’’ سچائی‘‘ سے ہمارے عوام وخواص دانشور علماء اہل قضاو اہل اقتدار
ناشناس ہیں ،سچ کی تلاش میں ہمارے معاشرے کے مختلف کردار وں کو اپنا اپنا
حصہ ڈال کر اس گو ہرِنایاب کو دستیاب کرناہوگا ،ورنہ دین ودنیاکے تمام
شعبوں میں جھوٹ اتنا دخیل ہے ،کذب بیانی اتنی دخیل ہے کہ کچھ نہیں
کہاجاسکتا ،بالخصوص میڈیاکی تو گویا بنیاد ہی جھوٹ پر ہے ،حالانکہ یہ غلط
ہے، میڈیا کا معنی ہے دعوت وتبلیغ، اور دعوت وتبلیغ میں تو جھوٹ کا شائبہ
بھی’’ حرام مؤبد ‘‘ہے۔
اﷲ تعالی کی لعنت اور پٹکا ر سے بچنے کے لئے دھڑلے سے جھوٹ بولنے کی عادت
پر نظر ثانی کیلئے ہمیں حضرت صدیق ؓکی سیرت وتاریخ میں اس بیش بہا جوہر کو
تلاش کرناہوگا اسی راز کو موضوعِ سخن بناکر کانفرنسز ،سیمینارز ،اور جلسے
منعقد کرنے ہوں گے ،کچھ حضرات کو’’تحریک سچائی‘‘ کے نام سے مستقل دعوتی
سلسلہ چلانا ہوگا ۔
اگر ہم ظاہری طہارت وپاکیزگی کے لئے ملکی یا عالمی سطح پر ’’یوم صفا ئی
‘‘مناسکتے ہیں، تو باطنی تزکیہ ،تطہیر اور احسان کے نام پر ’’یوم سچائی ‘‘
کیوں نہیں بناسکتے ؟
۲۲ جمادی الثانی کی تاریخ ہمیشہ کے لئے انسانیت کو اس متاعِ گمشدہ کی تلاش
کے طرف متوجہ کرتی رہیگی ۔ |