معیاری اشیاء کا حصول پاکستانیوں کا حق

پاکستان شاید پوری دنیا میں پہلا ایسا ملک ہے جہاں غیر معیاری اشیاء کی بہتات ہے ان میں کھانے پینے کی اشیاء سے لیکر روز مرہ استعمال کی چیزیں بھی شامل ہیں مارکیٹ کا اگر سروئے کیا جائے تو ہر تیسری چیز غیر معیاری ہوتی ہے ہر تیسری چیز کسی نہ کسی مشہور برانڈ کی ہو بہو نقل تیار کر کے مارکیٹ میں اس اصل کی آدھی قیمت پر سر عام دستیاب ہوتی ہے اورہم لوگ اس کی کم قیمت ہونے کی وجہ سے بڑھ چڑھ کر اس کی خریداری کرتے نظر آتے ہیں بلکہ اب تو بڑے بڑے برانڈ بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں اور خود ہی اپنے نام کی گھٹیا چیزیں تیار کروا کر پاکستانی مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں اور سالانہ اربوں روپے کا منافع پاکستانی عوام کی جیبوں سے نکالتے نظر آتے ہیں ۔اس چور بازاری کی سب سے بڑی وجہ صارفین کی اپنے حقوق سے لاعلمی ہے۔ غیر معیاری اشیاء کی صورت میں انہیں کنزیومر کورٹس سے رجوع کرنا چاہیے صارفین کا یہ حق ہے کہ وہ کسی بھی چیز کے معیار کو چیک کر سکتے ہیں اگر دکاندار دھوکے سے خراب چیز فروخت کرتا ہے یا ا ن سے کسی قسم کا دھوکہ ہوتا ہے تو انہیں عدالتوں سے رجوع کرنا چاہیے پوری دنیا میں صارفین کے حقوق کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے اور اس سلسلے میں قوانین بھی سخت ہیں لیکن پاکستان میں کئی سالوں تک یوں ہی ڈنگ ٹپاؤ پالیسی جاری رہی جس کے بعد آہستہ آہستہ عوام میں اس بارے میں شعور بیدر ہوا اور آج الحمدﷲ ستر فیصد پاکستانی لوگ جب بھی کوئی چیز خریدتے ہیں چاہیے وہ کھانے کی چیز ہو یا استعمال کرنے کی اس کی ایکسپائری تاریخ کو ایک نظر ضرور دیکھتے ہیں دوسرے لفظوں میں ان کو پتا چل گیا ہے کہ یہ کتنا ضروری ہے اور اس احساس کو جگانے میں میڈیا ،سول سوسائٹی اور صارفین کے حقوق کا تحفظ کرنے والی تنظیموں کا بڑا ہاتھ ہے جو ہمیں یہ باور کروانے میں کامیاب ہوئی ہیں کہ ہمارے حقوق کیا ہیں ان میڈیا ،سول سوسائٹی اور تنظیموں کی وجہ سے حکومت کو بھی اس طرف راغب کرنے میں کافی مدد ملی ہے اور اس بارے میں قانونی سازی بھی ہوئی اور اعلی ٰ ایوانوں میں بحث مباحثہ بھی اب یہ قوانین پاکستان میں بھی لاگو ہو چکے ہیں حکومت کی طرف سے بنائے جانے والے اداروں میں ابھی اور کام کرنے کی سخت ضرورت ہے ہم ہر روز کئی کنزیومر کورٹس کے فیصلوں کے بارے میں اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں اپنے حقوق کی پہچان کے لئے یہ بہت اچھا ہے تاہم اس کے باوجود ہمارے لوگوں کی بڑی تعداد اپنے حقوق سے لا علم ہے پاکستان میں بہت سے ادارے ہیں جہاں صارفین اپنے حقوق کے حصول کے لئے داد رسی کی در خواست دے سکتے ہیں اور وہاں سے ان کی داد رسی کے واضح امکانات بھی ہیں مگر یہ کڑوا سچ ہے کہ حکومت نے اس سلسلے میں ادارے تو بنا دیے مگر ان داروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے ان پر کوئی خاص چیک اینڈ بیلنس بھی نہیں ہے اس سلسلے میں مختلف صوبوں میں عدالتیں بھی قائم کی گئی ہیں پنجاب بھر میں صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لئے کئی عدالتیں قائم ہیں اسی طرح ملک کے دیگر صوبے بھی اس حوالے سے کافی پیش رفت کر رہے ہیں پاکستان میں آج صارفین کے حقوق کو تحفظ دینے کے لئے خصوصی قوانین نافذالعمل ہیں لیکن معروضی صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو طبقات اپنے حقوق کا ادراک رکھتے ہیں ان میں سے کتنے لوگوں نے مخصوص عدالتوں سے رجوع کیا ہے یقیناً ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی لوئر مڈل کلاس اور لوئر کلاس جو غیر معیاری اشیائے خوراک استعمال کررہی ہے وہ اس حد تک روزی روٹی کے مسائل سے دو چار ہے کہ اس کے پاس صارفین عدالتوں سے رجوع کرنے کا وقت ہی نہیں ہے جبکہ ملاوٹ اور غیر معیاری اشیاء اعلیٰ طبقات کا سرے سے مسئلہ ہی نہیں ہے ۔

یہ مسئلہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی مایوس کن کارکردگی کے نتیجے میں پیداہوا ہے اگر ملاوٹ زدہ اور غیر معیاری اشیاء کی فروخت اور تیاری کے خلاف حکومتوں نے سخت کارروائی کی ہوتی تو عوام بہت سی بیماریوں اور مسائل سے محفوظ رہتے مگر گڈ گورننس کے فقدان اور بدعنوانی کے فروغ نے اس مسئلہ کو جنم دیا ہے ہمین لوگوں کو یہ بتانا ہو گا کہ غیر معیاری اشیاء کے خلاف صارفین کی عدالتوں سے رجوع کرنا چاہیے ان میں وہ محض سادہ درخواست کے ذریعے اپنا مسئلہ پیش کر کے انصاف حاصل کر سکتے ہیں لیکن صوبائی اور مرکزی حکومتوں کو بھی اس حوالے سے اپنی آئینی اور قانونی ذمے داریاں پوری کرنی چاہیں موقع کی مناسبت سے غیر سرکاری تنظیموں کو بھی اس طرف متوجہ کرنا ضروری ہے یہ تنظیمیں عطیات دینے والے ملکوں اور اداروں کے مخصوص موضوعات کو اجاگر کرتی اور متحرک رہتی ہیں مگر پاکستان کے عوام کو ملاوٹ زدہ اور غیر معیاری اشیاء کی فراہمی کے خلاف حرکت میں نہیں آتیں انہیں بھی صارفین کے حقوق کے لئے مختلف اشیاء کے نمونوں کے ساتھ عدالتوں سے رجوع کر کے متعلقہ افراد کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔

اور حکومت کو بھی چاہیے کہ عوام میں شعور کی بیداری کے لئے بھر پور مہم چلائے ساتھ ساتھ ان عناصر کا قلعہ قمہ کرئے جو عناصر ایسی غیر معیاری اور حفظان صحت کے اصولوں کے منافی اشیاء تیار کر کے معاشرے میں بیماریاں عام کرنے کا سبب بن رہے ہیں ایسے لوگوں کے لئے سخت سے سخت سزا تجویز کی جائے -

rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 227300 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More