لیاری جو آج خوف کی علامت بن چکاہے کبھی یہ امن کا
استعارہ تھا۔ آج اس علاقے کو جاہلوں کا مسکن کہا جاتا ہے ( حا لانکہ یہاں
تعلیم یافتہ نوجوانوں کی کثیر تعداد ہے ) کل یہاں سے لوگ اپنی علم کی پیاس
بجھانے آتے تھے ۔ کیونکہ پروفیسر شاھین صاحب علم کا وہ چشمہ تھے جو بلا رنگ
و نسل سب کو علم سے سیراب کرتے تھے ۔ آج اسے جنگجوؤں کا علاقہ کہا
جاتا ہے ۔ کل اسے اسپورٹس یعنی باکسنگ ، اور فٹ بال کے کھلاڑیوں کی فیکٹری
کہا جاتا تھا ۔ کیونکہ یہیں سے بین ا لا قوامی کھلاڑیوں کی تعمیر و ترقی
ہوتی تھی ( اور ہوتی ہے ) کراچی میں سب سے زیادہ فلاحی تنظیمیں لیاری ہی
میں تھیں ، سب سے زیادہ اسٹریٹ سکولز ماضی میں لیاری ہی میں بنے۔ اور آج
بھی کراچی کی آدھے سے زیادہ لائیبریریز لیاری ہی میں موجود ہیں۔ سماجی
تنظیموں اور غیر سیاسی تعلیمی اداروں کی کاوش سے لیاری آہستہ آہستہ بلندی
کی طرف جا رہا تھا مگر لیاری کی یہ پہچان شاید کچھ لوگوں کو منظور نہیں تھی
۔ چنانچہ چند سیاسی تنظیموں نے اپنے مفاد ات کے حصول کی خاطر یہاں پر موجود
جنگجوؤں کو استعمال کرنا شروع کر دیا اور انھیں پورے ملک میں ایک خوف کی
علامت کے طور پر مشہور کردیا ۔
سوال یہ ہے کہ یہ سماجی ادارے اور اسپورٹس کلب اور تعلیمی ادارے کیا " جمودـ"
کا شکار رہے ؟
جی نہیں ، بالکل نہیں ، بلکہ یہ لوگ تو زیادہ تیزی سے اپنا کام کرتے رہے
مگر افسوس ہمارے ملک کی میڈیا صرف اسی چشمے سے دیکھنے کی عادی ہے جو ایک"
مخصوص لابی" اسے دکھاتی ہے ۔ ہونا تو یہ چائیے تھا کہ ان تعمیری کاموں کو
میڈیا زیادہ سے زیادہ تیزی سے دکھاتا اور ان پر زیادہ لکھا جاتا کہ" حبس کے
موسم " میں بھی لیاری میں" ٹھنڈی ہواؤں" کے جھونکے چلتے رہے مگر افسوس صد
افسوس حقیقت کو سمجھنا اور اس کے لیئے بات کرنا بہت مشکل بنادیا گیا ہے ۔
ARM ایک ایسا ادارہ ہے کہ جس نے فلاحی کاموں میں وہ محنت اور تیزی دکھائی
کہ لیاری کے لوگ ہمیشہ ان کی خدمات کو یاد رکھیں گے ۔
سہیل راہی ایک ایسا نوجوان ہے جس نے اس دور میں جب پورے کا پورا لیاری چند
انتہاپسندوں کے ہاتھوں یر غمال سمجھاجاتاتھا۔
ایسے ایسے فلاحی اور تعلیمی کار نامے سر انجام دیئے کہ لوگ حیران ہو گئے
مگر افسوس ہے کہ اس سماجی کارکن کا وہ کام سامنے نہیں لایا گیا۔
اب بھی اگر دیکھا جائے کہ لیاری میں جو لوگوں کو امن و سکون کی سانسیں ملی
ہیں کہ یہ بھی اسی نوجوان کی کاوشوں کی مرہون منت ہے ۔ یوتھ کیفے کراچی میں
روزانہ نوجوانوں کو امن ، محبت ، رواداری کا کسی نہ کسی انداز میں سبق دیا
جاتا ہے ۔
تسلسل سے یہاں امن سیشن ( Peace Session ) منعقد کیے جاتے رہے اور نوجوانوں
کی ایک ایسی کھیپ تیار کر دی گئی ہے جو اب صرف اور صرف پیار ، محبت ، امن
اور تعلیمی کارناموں کا سا تھ دیگی ۔ اب بندوق کی زبان بولنے والے لیاری پہ
اپنا تسلط قائم نہیں کر سکیں گے ۔ کیونکہ لیاری کے پاس سہیل راہی ہے جو
لیاری کا فرزند ہے جس نے ہمیشہ محبت ، پیار، اور خلوص سے معاشرے کو تبدیل
کر نے کی کوشش کی ، اب اس فرزند لیاری نے اتنے سہیل راہی تخلیق کردیئے ہیں
کہ جو گنتی میں نہ آئیں ۔ اب سماج بدلے گا۔
اب زمانہ خرام بدلے گا
اب یہ کہنہ نظام بدلے گا
خود غرضی کی شراب بدلے گی
ساقی بدلے گا ، جام بدلے گا |