میں مردم بیزار ہوں!!!!

خودنمائی، طلب شہرت، تکبراوراپنے آپ کو ’’سب کچھ‘‘ یا ’’بہت کچھ‘‘ سمجھنا یقیناشرعی اور اخلاقی لحاظ سے بہت قبیح اوصاف ہیں۔ خدا ہر مسلمان کو محفوظ رکھے۔ شکرہے میں اپنے اندرمذکورہ اوصاف کی بوبھی محسوس نہیں کرتا۔ زیرنظرتمہیدقصیر کے مفہوم ومطلب ذہن میں رکھ کر دل مغموم میں ’’احساس‘‘ بہت رکھتاہوں۔ گوشت پوست سے بنے انسانوں کی طرح مجھے بھی انسانوں کی شکل دینا خیریہ تو خدائی معاملہ ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کی مشیت ورضا پر موقوف ہے، البتہ اپنے اردگرد بلکہ بہت دور تک ارد گرد کے لوگوں کودیکھ کران کے درمیان پیداہونا اپنی بدقسمتی سمجھتاہوں، اگرچہ یہ سوچ بھی ساتھ رکھتاہوں کہ رب کائنات مجھ ناچیزکے لیے الگ دنیا یا جائے قرار توقرارنہیں دے گا اور مجھے پیغمبروں اور اولیاء کی اس دنیامیں ہی رہناہے۔۔۔ شایدآپ مجھے بہت کمزوراعصاب والاسمجھیں یا ذہنی بیماری میں مبتلا لیکن میری مجبوری ہے کہ میں معاشرے میں رہنے والے انسانوں سے بہت نالاں ہوں اور ان کے کرتوت میرے لیے ناقابل برداشت ہیں۔ کہا جاتاہے کہ انسان مدنی الطبع ہے ، اس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ انسان طبعی اور فطری لحاظ سے لوگوں کے درمیان رہناپسندکرتاہے اور ان سے میل ملاپ چاہتاہے۔ میں اس حقیقت یا مقولے کی صحت ودرستگی سے انکار نہیں کرتا، ہوسکتاہے انسانوں کی فطرت ایسی ہی ہو لیکن میرامعاملہ یکسرمختلف ہے؛ میں طبعی اور فطری لحاظ سے لوگوں کے درمیان رہناقطعاً پسندنہیں کرتا البتہ نظریۂ ضرورت ہے جومجھے اس عمل پرمجبورکرتاہے،ساتھ ساتھ کچھ شرعی احکام ہیں جن کی تعمیل کے لیے لوگوں سے میل ملاپ رکھنی پڑتی ہے۔ مجھے لوگوں سے بحیثیت انسان کوئی نفرت نہیں کیونکہ میں خود انسان کے نوع سے ہوں اور انسانوں میں ’’انسان‘‘ بھی ہوتے ہیں جوانسانیت کے تقاضے پورے کرتے ہیں لیکن بلحاظ مجموعی۔۔۔ یا یوں کہیے کہ انسانوں کی اکثریت جس روش پہ چل پڑی ہے یقیناًوہ بہت ڈراؤنی ہے۔ کرہ ارض پر موجود انسانوں نے ظلم وفسادکے وحشت ناک ’’کارناموں‘‘ کی جوپریکٹس شروع کر رکھی ہے وہ تو خیرنہ ختم ہونے والی صورت حال ہے۔۔۔ مجھے دنیاسے کیا۔۔ اپنے اردگرد اور اڑوس پڑوس میں ہونے والی صبح وشام کی کارستانیاں سن یادیکھ نہیں سکتا۔۔ دل ہو، احساس ہواور انسانی ’’اعمال‘‘ کی خبرہو توحق یہ ہے کہ موت کی تمنا کی جائے یاکم ازکم دیوانگی اور پاگل پن کی نوبت تو ضرورآئے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے پھربھی کچھ حساس انسانوں میں حس شعور کے ساتھ ساتھ ہمت وبرداشت کی قوت بھی رکھی ہوتی ہے ورنہ میں تو کب سے پاگل بن چکاہوتا۔ اُنس ومحبت، رواداری، سچائی، خلوص، ہمدردی اور خیرخواہی جیسے پاکیزہ اوصاف سے عاری آج کے سنگدل اور خودغرض انسانوں نے انسانیت کی تعبیرہی ختم کرڈالی۔ روحانیت اور اخلاقیات کو پس پشت ڈال کرصرف مادیت اور مادہ پرستی کومطمح نظربنانے والے انسانوں نے تمام ترانسانی اقدار کوبری طرح پائمال کیا۔ خدائی حدود و قیودتو کجا خالص انسانی ذہنوں میں کبھی خیال سے آنے والے مثبت افعال و اقوال بطورنمونہ بھی موجودنظرنہیں آتے۔ایسے میں اگراپنے آپ کو مردم بیزار اعلان کرتاہوں تو لوگوں کی طرف سے متکبر، کم ہمت یاکچھ دیگر ناشائستہ القابات سے نوازنے کی نوبت آئے گی، لیکن اپنے دل میں انتہائی نرمی، ’’انسانوں‘‘ سے محبت، خیرخواہی، جذبۂ خدمت اور خلوص رکھنے کے باجود میں اس کہنے میں کوئی عارمحسوس نہیں کرتا کہ میں مردم بیزارہوں۔ میں دل کی تلخی کو زبان کی مٹھاس سے چھپانے کی کوشش کرتاہوں لیکن ہاتھ کیسے رُکے جوقلم کوچلاچلتاہے۔ ذہن بے شمار تلخ حقائق اورغیرمہذب معاشرتی رویوں کی عکاسی پیش کرتاہے لیکن وہ قرطاس ودفترکہاں سے لاؤں جو ان کو سماسکے۔خیرزندگی ہے گزرجائے گی اور موت ہی ہے جوان خارجی جوروستم اور ناشائستہ کرداروں کے مشاہدے سے پردہ بنے گی۔اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ آج کی ذہنی و قلبی اذیتیں ہمارے لیے کافی ہوں اور موت کے بعدہمیں نجات اور خوشی ہی نصیب ہو۔
Nizam Uddin
About the Author: Nizam Uddin Read More Articles by Nizam Uddin: 14 Articles with 17999 views Columnist / Reasercher / Story Writer.. View More