میری اس یہ پہلی ملاقات تھی ، لاپتہ افراد کے لئے ایک احتجاج کے سلسلہ میں
وہ فیصل آ باد کے ضلع کونسل چوک میں موجود تھی،مجھے اس کی آنکھوں میں ایک
عجیب سی اداسی نظر آئی جس نے خود مجھے رنجیدہ کردیا مگر جب اس نے میرے ساتھ
گفتگو شروع کی تو بلا کااعتماد، سنجیدگی اورمتانت اس کے چہرے پر عیاں
تھی،اپنی زندگی کے سب سے بڑے کرب سے گزرنے کے باوجود وہ اوروں کی بات کر
رہی تھی ، وہ دوسروں کا انصاف فراہم کروانے کے لئے پر عزم تھی ، وہ ایک ایک
کا نام جانتی تھی،ایک ایک بیوہ ماں اور بوڑھے باپ کا نام لے کر بتا رہی تھی
کہ کس کس کے جوان بیٹے کو لاپتہ ہوئے کتنی کتنی دیر ہو چکی ہے، وہ جس ہمت
سے میرے سامنے کھڑی تھی مجھے نہیں حوصلہ تھا کہ ان کا سامنا کرسکوں ۔مجھے
میرا اپنا وجود اس کا مجرم لگ رہا تھا کیونکہ میں اس معاشرہ کا فرد ہوں
جہاں آمنہ مسعود اور ڈاکٹر عافیہ جیسی خواتین ہمارے سامنے انصاف کی طلب گار
ہیں مگر ہم ان کے لئے کچھ بھی نہیں کر رہے مگرآفرین ہے اس پر جو اپنے سر کا
تاج گنوا کر بھی وہ ناامید نہیں اسے یقین ہے کہ اگر اسے انصاف نہیں ملا مگر
وہ باقی دکھیاروں کو انصاف کے حصول میں مدد گار ضرور بنے گی۔
آمنہ مسعودجنجوعہ کا خاوند جب آمر پرویز مشرف کے دور میں لا پتہ ہوا تو
کبھی نہ گھر سے نکلنے والی اس باپردہ خاتون نے اپنے خاوند کی تلاش کا بیڑا
اٹھایا اورسالوں سے اپنے گمشدہ خاوند کی تلاش میں ماری ماری بھٹکتی رہی مگر
کسی کو اس پررحم نہ آیا۔نام نہاد این جی اوز کا لبادہ اوڑھ کر مال پانی
بنانے والی مغرب زدہ خواتین کو بھی اس کی مدد کی توفیق نہ ہوئی اور جب اس
کو اس کے خاوند کے قتل کی اطلاع مل گئی تو اس نے تھک ہار کر بیٹھنے کی
بجائے ان سینکڑوں بے سہارا خواتین کا سہارا بننے کا فیصلہ کر لیا جن کے
پیارے لاپتہ ہیں اور اس سلسلہ میں کبھی وہ سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکا رہی
ہوتی ہیں کبھی پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا اورکبھی شہر شہر امن واک مگر
آج اسلام آباد کی فضاؤں نے جو منظر دیکھا اور ناقابل بیان ہے ،اس آمنہ کو
پارلیمنٹ کے سامنے سڑکو ں پر گھسیٹا گیا۔ گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی،وردی
پوش اخلاقیات تمیز احترام کے معنی بھول گئے،بنیادی انسانی حقوق کی دھجیاں
اڑادیں،خواتین اہل کاروں نے آمنہ مسعود پر مکوں کی بارش کردی اور اسی ہلڑ
بازی میں گھسیٹتے ہوئے آمنہ مسعود کو گاڑی میں ڈالا گیا اور مظاہرین پر تاک
تاک کر لاٹھیاں برسائی گئیں اور یہ سب ہوا بھی نواز شریف کے دور میں ، لگتا
ہے نواز شریف کو ان مظلوموں کو لے ڈوبیں گی،ظلم آخر ظلم ہے اور پھر مظلوم
کی آہ تو عرش ہلا دیتی ہے ،مجھے یاد ہے پرویز مشرف کی طرف سے نواز شریف کی
حکومت کے خاتمہ سے صرف چند ماہ پہلے لاہور میں جماعت اسلامی کے بوڑھے
کارکنوں کو انہیں میاں صاحبان کے حکم پر لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹا
گیا،سیاسی کارکنوں پر اس تشدد کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی تب
ایک بوڑھے کو میں نے بددعا دیتے دیکھا تھا،اس نے دونوں ہاتھ پھیلاکر چہرہ
آسمان کی طرف کیا ہوا تھا، پتہ نہیں وہ زیر لب کیا بڑبڑا رہا مگر مجھے ایسا
لگا کہ وہ اپنے رب سے ہم کلام ہورہا ،جیسے اللہ تبارک تعالی کے کانوں میں
کوئی بات کہہ رہا ہے اور پھر چشم فلک نے وہ منظر دیکھا کہ چند ماہ بعد ہی
میاں صاحب جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے اورپھر انہیں جہاز کی کرسی سے باندھ
کر جدہ پہنچایا گیا ۔مجھے آج پھر وہ منظر یاد آرہا ہے ،
میاں صاحب خدا کے لئے بچ جاؤ ان مظلوموں کی بددعاؤں سے ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |