خاص طورسندھ بلعموم کراچی وحیدر
آباد میں جب لسانی سازشوں کا سلسلہ چل نکلتا ہے تو وہی مقامی ،ان لوگوں کی
نظروں میں غیر مقامی بن جاتے ہیں جنھوں نے اپنے خون کی آبیاری سے خاص طور
شہر کراچی کو مملکت کا معاشی شہہ رگ بنا دیا تھا۔جبکہ یہی شہر تو اس وقت
بھی موجود تھا، جب تقسیم ہند نہیں ہوئی تھی۔ معاشی حب ممبئی اور کلکتہ تھے
جہاں سندھی اور بنگالی موجود تھے لیکن سندھ میں ہزاروں سال سے رہنے والوں
کے دعوؤں کو اس وقت کیا ہوا تھا جب کراچی ساحلی بندرگاہ ہونے کے باوجود محض
چند لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی تھی اور اس وقت کوئی اردو اور پشتو بولنے
والا ان کے درمیاں اکثریت میں نہیں تھا۔
جب رب کائنات کا ابدی قانون موجود ہے کہ خدا اس قوم کی حالت نہیں بدلتا
جیسے خود خیال نہ ہو اپنی حالت بدلنے کا ۔تو پھر دنیا کی تمام قوتیں بھی
یکجا ہوجائیں ناممکن ہے کہ وہ نشوونما دینے والے رب کے قانون ربوبیت کو
اپنی جگہ سے سرکا بھی سکیں۔سلطنت ایران نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ ان کی
ہزاروں سال کا آتش کدہ ان بدوں عربوں کے ہاتھ سے بجھے جائے گا جن سے یہ
لڑنا تک گواراہ نہیں کرتے تھے۔سندھ کے ان سپوتوں نے بھی کبھی یہ نہیں سوچا
تھا کہ عرب کے ریگستانوں سے ایک سترہ سالہ نوجوان آئے گا اور ان کے راجہ
داہر کو شکست دیکر ایک نئے مذہب کا جھنڈا بھی لہرا دیگا، جھانسی کی رانی نے
بھی کوشش کی کہ کسی طرح غیر ملکیوں سے آزادی کرلی جائے لیکن جب عرب صوفیا
نے دلوں کو فتح کرنا شروع کیا تو انھیں کوئی عجمی یا عربی نہیں بلکہ سندھ
کا عظیم صوفی بزرگ کہہ کر اپنا سر فخر سے بلند کرلیتا ہے۔ تقسیم ہند سے
پہلے پنجاب تھا تو کسی نے تصور نہیں کیا تھا کہ پنجاب میں سرحدیں حائل
ہوجائیں گی، افغانستان میں ڈیورنڈ لائن کے بعد پختون علاقوں کو افغانستان،
پاکستان،میں تقسیم کردیا جائے گا،پاکستان بننے سے قبل سو سال تک جب مسلم
حکمران ہندوستان میں ہندو اقلیت پر حکمرانی کر رہے تھے تو کسی نے سوچا نہیں
تھا کہ سات سمندر پار سے غیر ملکی آئیں گے اور ان پر حکومت کریں گے۔
کراچی کو اندرون ملک سے یہاں مستقل یا عارضی بسنے والوں نے اپنی جانوں کا
نذرانہ دیکر اور دن رات محنت اور تمام تر تعصب اور نا انصافیوں کے باوجود
پوری مملکت خدادا پاکستان کی معاشی سانس چلانے کیلئے اپنی محنت اور
جانقشانی سے شہر کا نقشہ بدل دیا اور کروڑوں لوگوں کو روزگار فراہم کیا
لیکن اب ان کا قصور یہ بن گیا ہے کہ ان کے جائز حقوق اس لئے نہیں دئیے جا
رہے کیونکہ قصور صرف اتنا ہے کہ سندھ کی زمین پرسندھی زبان نہیں بولتا
کیونکہ اکثریتی علاقوں میں سندھی بولنے آباد یاں نہیں ورنہ جہاں ہیں وہاں
اپنی مادری زبان کے ساتھ سندھی بھی اچھی طرح بول سکتاہے۔میں پوچھتا ہوں کہ
جس نے سندھ کی زمین پر جنم لیا لیکن قوت گویائی سے محروم ہے تو اس کی کوئی
پہچان نہیں ہوگی ؟؟۔بدلنا ہے تو اپنے گلی کوچوں میں ہونے والی قارونی نظام
کو بدلنے کے لئے کوشش کرو ، کیا ہم نہیں جانتے کہ ہم جنہیں اپنے ووٹوں سے
منتخب کرتے ہیں تو ان سے اپنے مسائل کے حل کیلئے بھکاریوں کی طرح ان کے
شاہی محلات کے باہرگھنٹوں گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں اور صرف چندسیکنڈ کی
ملاقات کیلئے سفارشیں،رشوتیں اور منت سماجتیں کرتے رہتے ہیں،ایک چھوٹی سی
ملاقات کیلئے پولیس ، اور سیکورٹی گارڈز کے ڈنڈے اور ان نام نہاد لیڈروں کے
چمچوں کی گالیاں تک سنتے ہیں، کیا آپ کے قیمتی ووٹ سے منتخب ہونے والوں کا
غریب ووٹر کے ساتھ ایسے سلوک کا متقاضی ہے۔جبکہ پختون کسی کی بات کا بھی
کیونکر اعتبار کرسکتے ہیں ،جس کا مقصد لسانی بنیادوں پر قومیتوں کے درمیاں
خون آشام تصادم مقصود ہو ایسی منافقت اور جھوٹ کی تمام تر عمارتیں سچائی کی
بلندی کے سامنے ہیچ ہیں اور کوئی ایسا نظریہ جو کسی قوم کو دیوار سے لگانا
چاہتا ہو کبھی دیرپا اور مستقل کامیابی نہیں پا سکتا۔
خاص طورسندھ سمیت ملک بھر میں رہنے والے پختونوں کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ
ان کے کندھے پر بندوق رکھ کر وہ نام نہاد لیڈر اپنے ذاتی مفادات کو حاصل کر
رہے ہیں۔جن کا کراچی ، حیدرآباد، سندھ سمیت پورے پاکستان میں ذاتی سرمایہ
موجود نہیں ہے، ان کے کاروبار ، سعودیہ،امارات،ملائشیا،لندن ، امریکہ اور
دیگر ممالک میں ہیں،جن کے بچے اور اہل خانہ بیرون ملک محفوظ اور پر آسائش
زندگی گذار رہے ہیں۔
پختون قوم کو ٹھنڈے دل سے یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ جب ان کی کئی نسلیں سندھ
میں آباد ہیں تو ان کے مفاد بھی اسی دھرتی سے وابستہ ہیں۔کراچی میں روزگار
کیلئے آنے والوں کی حیثیت صرف رزق کے متلاشی اور مہمان کی ہے جو اس دھرتی
پر حق ملکیت کا دعویدار نہیں۔اگر اس دھرتی پر حق ملکیت کا حق نہیں رکھتا
اور یہی حق ہ اپنی دھرتی پر کسی اور کو بھی نہیں دینا چاہتا تو اسٹیپلشمنٹ
کی جانب سے تنخواہ دار ایسے نام نہاد قوم پرستوں کے آلہ کار کیوں بنتے ہیں
جنہیں کسی قوم سے تو کیا اپنی ہم زبان ونسل سے بھی کوئی واسطہ نہیں بلکہ
بیگناہ انسانوں کو جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں انسانیت سوز ظلم کا شکار بنا
کر اپنے مفادات کو تحفظ دیتے ہیں۔
پختونوں سمیت تمام قومیتوں کو یہ فیصلہ کرنا ناگزیر ہے کہ ہمیں استحصالی
گروہ سے نجات حاصل کرنی ہے ، ہمیں حقیقت پسندی سے دیکھنے کی ضرورت ہے ،
ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ لاکھوں انسان جس کے گرویدہ ہوں اور اس کے
ایک اشارے پر جان نچھاورکرنے کیلئے تیار رہتے ہوں، جن کے فکری نظریاتی
ساتھیوں کو سالوں سال کی استعماری اور ریاستی طاقت دبانے میں ناکام رہی ہو،
جس کا صبر و تحمل مثالی ہو اور جو خد ایک عام انسان اور کارکن سے بڑھ کر شب
وروز غریب عوام کے حقوق کیلئے مصروف ہو، جس کے نزدیک دن اور رات کا تصور
ختم ہوچکا ہو اسے کیا ضرورت ہے کہ وہ ایک ایسی قوم کے خلاف سرگرم ہو جنہیں
صرف اپنے روزگار اور اولاد کے مستقبل کی فکر ہے۔ہمیں اسی بات کو سوچنا ہوگا
اور اپنی صفوں میں ایسے لوگوں کو تلاش کرنا ہوگا جو اپنی قوم کا درد اپنے
دل میں رکھتے ہوں۔
کراچی وحیدرآباد سمیت پورے سندھ میں آباد اگر ہم پختون خود کو یہاں کا
مقامی سمجھتے ہیں تو پھر اپنا سرمایہ اپنے وسائل سب کچھ اس ہی دھرتی پر ہی
خرچ کرنا ہونگے اور یہی سندھ کے علاوہ باقی صوبوں کیلئے بھی معیار اپنانا
ہوگا۔اگر ہماری یہ سوچ رہی کہ ہمیں واپس اپنے آبائی علاقوں میں جانا ہے تو
پھر ہمیں ان نام نہاد قوم پرستوں کا آلہ کار بننے سے گریز کرنا چاہیے جن کا
مفاد کراچی سے تو کیا پاکستان کے ساتھ نہیں ، ہم اسی دھرتی کے باسی ہیں ،
ہم یہاں کے مقاامی ہیں، زبانیں سمجھ اور اظہار کیلئے ہوتی ہیں، لاکھوں کی
تعداد میں ایسے پختون بھی ہیں جو اپنے ماحول کی جہ سے پشتو نہیں بول پاتے ،
تو کیا وہ پختون نہیں کہلائے جائیں گے ؟ ۔۔ اس لئے اگر ہمیں سندھی نہیں آتی
تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم سندھ کے رہنے والے سندھی نہیں، سندھ کے مقامی
سندھی تھے اور سندھی ہی رہیں گے۔اب چاہے سندھی آتی ہو یا نہ آتی ہو ۔ یہ
مسلمہ اصول ہے جو مستقل بس گیا وہ مقامی بن گیا۔ |