دیکھا جائے تودنیا کے تمام بازار میں ،ہر شعبہ ہائے جات
میں لوگ جن کاموں میں جٹے ہیں بلاآخر اسکی تان خود حضرت انسان کی ذاتی
تسکین اور خودنمائی پر ٹوٹتی ہے۔لوگ اپنے کاموں پر داد،تحسین،واہ واہ اور
سہرائے جانے کی خواہش کے طلبگار ہوتے ہیں،سلف پروجیکشن پر لوگ ماہانہ اربوں
ڈالر لگا دیتے ہیں،اس کام کے لیے دنیا بھر کی ہزاروں ایڈورٹاہزنگ
ایجنسیاں،پروڈیکشن ہاوس،پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا مسلسل نت نئے
آئیڈیے پرسوچ بچار میں لگے ہیں،ڈنکے کی چوٹ پر کسی گمنام کو راتوں رات
مشہور کردینا،شہرت کے ساتوں آسمان تک پہنچا دینا ماس میڈیا کا داہیں ہاتھ
کا کھیل ہے،ایک صحافی سے لیکر ایک ایکٹر اور ایکٹر سے ایک سیاست دان کون
ہوگا جو"کمپنی کی مشہوری "نہیں چاہے گا،بھلے وقتوں میں یہ وباء چند ممالک
تک محدود تھی اب تمام عالم اقوام میں یہ وباء سے ایک مہلک مرض بن چکا
ہے۔کسی کے اچھے کاموں کی تعریف کرنا خود انسان کا بڑاپن ثابت ہوتا ہے،لیکن
کسی کی بے جا تعریف کرنا یا کسی سے ڈر،خوف،عہدے،طاقت سے مرغوب ہوکے تعریف
کرنا انسان کا گھٹیا پن ظاہر کرتا ہے،تمام تر تعریف کے قابل خالق کاہنات
ہے،جس سے چاہے کوئی ڈر،خوف کے بھی تعریف کرئے گا۔۔اس نے جہاں پالیا،نیکی کے
کاموں پر کسی کی تعریف کرناجائز ہے لیکن خود نیکی کر کے اسکی تشہیر
کرنا،لوگوں سے دادتحسین کی توقع کرنا کچھ اچھا فعل نہیں ہے،ایک بے توقیر
شہرت یافتہ انسان سے ایک گمنام صاحب کردار شخص بہتر ہے،ہوس بری بلا
ہے،چاہئے دولت کی ہو یا شہرت کی،لیکن کہتے ہیں ہوس صرف علم کی ہونے
چاہئے،اور علم بھی وہ جس پر خود عمل کیا جائے اور وہ مخلوق خدا کے لئے مفید
ہو،ایک پڑھے لکھے انسان یا عالم کو قطعی زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے علم کی
بڑائی اور افادیت کے زعم میں مبتلا ہوکہ جگہ جگہ دوسروں کو جہالت کا طعنہ
دیتا پھرئے، عالم کے ساتھ ساتھ ایک حکمران ایسا طبقہ ہے جس سے عوام الناس
کا واسطہ رہتا ہے۔ایک بات یاد رہئے کہ ہمارے ہاں لیڈر اور حکمران کو ایک ہی
معنی میں سمجھا جاتا ہے،یہ غلط ہے،یہ دونوں الگ الگ طبقے سے تعلق رکھتے
ہیں،لیڈر وہ ہوتا ہے جو قوم کو خواب غفلت سے بیدار کرئے اسے ساتھ لیکر چلئے
،اور حکمران وہ جوخود تو جاگے مگر اسکی عوام سکون کی نیند سوئے، ایک لیڈر
کسی حکمران کا محتاج نہیں ہوتا لیکن ایک حکمران بہت سے لیڈروں کا محتاج
ہوتا ہے، مگر ہمارے ہاں معاملہ اسکے برعکس ہے،ہماری سیاسی جماعتیں کے
سربراہ خود کو لیڈر گردانتے ہیں،اور حکمران وہ جو اقتدار کے حصول کے لیے
اپنی باری کا انتظار کرتے نظر آتے ہیں،یہ ہماری بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ ہم
اچھے لیڈر اوراچھے حکمرانوں سے محروم قوم ہیں،جناب قائد اعظم کے بعدہمیں آج
تک کوئی دوسرا قائدانہ صلاحیتوں کا لیڈر نہ مل سکا،حکمران بے شمار ملے،کوئی
اقتدار کے لئے آیا،کوئی امریکہ کی اجازت سے اسکا ایجنڈا پورا کرنے آیا ،
کوئی چالیس اونٹوں پر خزانے کی چابیاں لادنے کا خواب سجائے وارد ہوا اورمن
کی مراد پا کے چلتا بنا،کوئی فضاؤں میں خاکستر ہوکے گیا،کوئی سرمقتل سر
کٹوا کے امر ہوا۔لیکن عوام کی حالت پھر بھی نہ بدلی،کوئی زلزلہ سے عمارت
تلے دب کے مرا،کوئی سیلاب میں غرق ہوا،کوئی آج بھی تھر میں بھوک اور پیاس
سے جاں سے گزرگیا،کوئی دہشت گردی یا مذہبی منافرت کی بھینٹ چڑھا،کوئی میٹرو
بس میں روانہ ہوا اورایمبولینس پر بے جان واپس آیا،جسکی کہیں نہ چلی رات ٹی
وی پر اسکی پٹی چلی،مطلب یہ کہ امیر امیر تر۔۔۔کل کا غریب آج بھی غریب
تر،ہم خود کو بدلنے پر ہرگز تیار نہیں،مگر آس لگاتے ہیں حکومت ہماری حالت
بدلے،ہم اپنے کاموں سے جی چراتے ہیں،چوری کرتے ہیں،اور چور چور کا شور بھی
مچاتے ہیں،ہم تاک میں رہتے ہیں اور اپنے گناہوں کی گٹھڑی دوسروں کے سر پر
ڈال دیتے ہیں،ہم انواع و اقسام کے کھانے کھا کھا کے جسم پر چربی کے پہاڑ
بنا لیتے ہیں لیکن کسی روروہی تھل دمان اورتھر کو دیکھنا گوارہ نہیں
کرتے،لاکھوں ٹن بچی غذا ہمارے ہوٹلوں کے ڈسٹ بنوں میں پھینک دی جاتی
ہے،گندم گوداموں میں پڑی پڑی گل سڑ جاتی ہے،کسی غریب کو نہیں دی جا سکتی کہ
اوپر والوں کو آرڈر دینے کی فرصت نہیں کہ یوتھ فیسٹیول اور سندھ فیسٹیول جو
چل رہا ہے،غرض سب اپنے اپنے لچ تلنے میں مصروف ہیں اور بھوکے ننگے لوگ
اشتہاانگیز خوشبووئں کی لپیٹے میں اپنے ہی ہاتھوں اپنے آپ کو ذلیل و رسوا
کیے جاتے ہیں،اب ان کو کون سمجھائے کہ ان لاچاروں اور بدبختوں کی ذمہ داری
ریاست کی ہے،بے شک حکمرانوں کے کرنے کے کوئی کام نہیں،سوئی سے جہاز تک سب
باہر سے آجاتے ہیں،ڈالر پونڈ ریال تک باہر سے آجاتے ہیں اب کون دماغ سوزی
کی مشقت کرئے اور پیسہ کمانے کا تردد کرئے، او ر ملک خوشحال ہو، ملک تو
ویسے بھی حکمرانوں کے لئے ایک سسرال کا درجہ رکھتا ہے،جہاں آیا، کھایا پیا
خدمت کروائی ،منجھے توڑے اور پھر ملیں گے کا نعرہ لگایا اور چلتے بنئے،پھر
کیونکہ ان کے چہروں پر خوشی،فخروانبسا ط اور گال لال ٹماٹر جیسے نہ
ہوں،انجمن ستائش باہمی،خود ستائی و خود نمائی کی ریشمی پوشاکیں پہننا ان کا
پسندیدہ فعل اور کاز ہے،گورے راکٹ بنا کے فخر کرتے ہیں،ہم عوام کو الو بنا
کے خوش ہوتے ہیں،گورے چاند پر اپنے قبضے کا اعلان کرتے ہیں ہم پلاٹوں،لاٹوں
اور دوسروں کی زمینوں پر قبضہ کر کے خوش ہوتے ہیں،اور پھر ان پر خیراتی
ادارے،ہسپتال اور یونیورسٹیاں بنا کے بڑی سی اپنے نام کی طلائی تختیاں سجا
کے علاج اور پڑھنے کے ریٹس مقرر کر دیتے ہیں،وی وی آئی پی کلچر کے ہاتھوں
مارے یہ لوگ عیاشی میں مغل حکمرانوں،فرانس کے بادشاہوں،روس کے حاکموں،نیرو
غرض سب کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں،اپنے آپ کو منوانے،گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کو
توڑنے کے لئے ایسے بیسوں تھر،تھل روہی چولستان کو قربان کر سکتے ہیں کہ رقص
و سرود کا فیسٹیول بہرحال موت کے فیسٹیول سے کہیں بہتر سمجھا جاتا ہے۔اور
اسکا الزام صرف حاکم وقت کو نہیں جاتا،اسکی پروموشن میں ہم عوام بھی برابر
کے شریک ہیں،جو اپنے حکمرانوں اور مغربی تقلید میں ان جیسی پوشاکوں کے حصول
میں اپنی اپنی خودنمائی اور خود ستائی کے لنڈے بازار سے چھانٹ چھانٹ کے
اطلس وکمخواب ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور پہن کے سمجھتے ہیں کہ رنگ لائی گی اک
روز فاقہ مستی ہماری۔۔۔!!! |