(کتاب مطالعہ)
ہر محب وطن مسلمان اُس وقت خوش ہوتا ہے جب سنتا ہے کہ اس کے کسی ہم وطن نے
باہر ملک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے اب وہ دنیا میں پاکستان کا نام روشن
کرے گا وہ اپنے ملک کی ترقی میں شامل ہو کر اس ملک کو دنیا کی ایک عظیم قوم
بنائے گا وہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے تگ ودو کرے گا اُس شخص کے دل میں
قائد اعظم ؒاور علامہ اقبال ؒ کا نقشہ بھی ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی باہر سے
تعلیم حاصل کی مغرب کی تہذیب تمدن کو سمجھا مگر اُس میں گم نہیں ہوئے اُن
کی اچھی باتوں کو اپنایا اور کمزوریوں پر گرفت کی ۔ مگر جب وہ محب وطن
مسلمان ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد کو اس بات پر جانچتا ہے تو اسے معلوم
پڑتا ہے کہ وہ ا ن دونوں عظیم شخصیتوں کی فکر کے قریب بھی نہیں ہے بلکہ وہ
اس ملک کو ویسے ہی جوں کا توں چلانا چاہتا ہے جیسے باہر کے ملکوں کو پرکھ
کر آیا وہ باہر کے ملکوں سے اپنے ساتھ ان کی تہذیب، تمدن،سوچ اور کو ہی
اپنے ملک کے لیے مثالی سمجھتا ہے ۔ صاحبو!اسلام اپنی ایک سنہری تاریخ رکھتا
ہے اس نے اس دنیا میں رسولؐ کے بعثت کے ۹۹ سال کے اندرکُرۂ اَرض پر اسلامی
حکومت قائم کر دی تھی جو ہزار سال سے زائد عرصہ تک اس دنیا پر کامیابی سے
چلتی رہی اب بھی دنیا میں ۶۶ اسلامی ملک ہیں دنیا کاہر تیسرا انسان مسلمان
ہے دنیا کے قابل ذکر خطے مسلمانوں کے پاس ہیں مسلمان معدنی دولت سے مالامال
ہیں مسلمانوں میں آگے بڑھنے کی اب بھی امنگ ہے صرف لیڈر شپ کی کمی ہے ۔ یاد
رہے کہ فتوحات کے دور میں پیشتر علاقے مسلمانوں نے عیسائیوں(مغرب) سے چھینے
تھے۱۹۲۴ ء میں اسلامی خلافت کو عیسائیوں نے بدلہ لیتے ہوئے ختم کیا تھا اور
تاریخی طور پر کہا تھا کہ آیندہ دنیا میں کہیں بھی اسلامی حکومت قائم نہیں
ہونے دی جائے گی جس پر وہ اب تک عمل کر رہے ہیں۔ اﷲ کا کرنا،پاکستان دنیا
میں مذہب کے نام سے وجود میں آیا جو اس کی طاقت کا مظہر ہے جو دنیا کی
ساتویں ایٹمی طاقت بھی ہے باقی دنیا کے سارے ملک لا دین ہیں یعنی سیکولر
ہیں۔اسلام غلامی کے بعد دنیا میں دورباہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے جدو جہد
کر رہا ہے اور عیسائی اس میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں اس تناظر میں جب کوئی
اسلامی دنیا کا فرد باہر سے اعلیٰ تعلیم کر کے اپنے ملک میں آتا ہے تو لوگ
اس سے اسلام کے نشاۃ ثانیہ کی امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں ایسی ہی امید ہم
نے ڈاکٹر عائشہ صدیقہ سے باندھ کر ان کی کتاب ’’خاکی کمپنی‘‘(پاکستان میں
فوجی معیشت کا جائزہ) جو ان کی انگریزی کتاب militry ins. کا اردو ترجمہ ہے
با زار سے خریدی، اس کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ڈاکٹر عائشہ صدیقہ صاحبہ
اُمور ِفواج کی ماہر اور تجزیہ کار ہیں انہوں نے کنگ کالج لندن سے جنگ کے
موضوع پر پی ایچ ڈی کی ہے وہ دنیا کے مختلف ڈیفنس اداروں سے وابستہ رہی ہیں
ڈیفنس کے متعلق پاکستان کے انگریزی اخبارات اور دنیا کے اخبارات میں تواتر
سے لکھتی ہیں ۔ روشن خیال مغربی جمہوریت کی دلدا ہیں پاکستان میں فوجی
حکومتوں کاتجزیہ کرتی ہیں ملک میں حقیقی جمہوریت کی لیے کوشاں ہیں۔یہ ایک
حقیقت ہے کہ فوج نے پاکستان پر بڑے عرصے تک حکومت کی ہے اب بھی اقتدار کا
نشہ نہیں اُترا۔لہٰذا جب کوئی کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح پاکستان میں فوجی
گرفت کم کی جائے بلکہ ختم کی جائے یہ اچھی سوچ ہے ہر پاکستانی ایسی کسی بھی
کوشش پر خوش ہوتاہے عائشہ صدیقہ صاحبہ نے بھی تمام تر حوصلہ شکن رکاوٹوں کے
باوجود اس کتاب میں فوجی بالا دستی کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے اس کتاب میں
فوج کی کاروباری سر گرمیاں، فوج میں افسر شاہی ،فوج میں نئے زمیدار،فوجیوں
کی فلاح و بہبوداور فوج کی سرگرمیوں کا خمیازہ پر سیر حاصل بحث کی ہے۔لیکن
ہمارے نزدیک تجزیہ نگار اپنے تجزیوں میں پاکستان میں فوج کی ایک علیحدہ
پوزیشن کو بُھول جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم نے ہندوستان پر ایک ہزار سال
حکومت کی ہے اب ہندو کہتے ہیں وہ ہم پر حکومت کریں انہوں نے اب تک پاکستان
کو دل سے تسلیم نہیں کیا انہوں نے مشرقی پاکستان پر فوجی چڑھائی کر کہ اسے
پاکستان سے علیحدہ کیا اب وہ کراچی بلوچستان بلکہ پورے پاکستان میں اپنی
ناجائز مداخلت سے باقی ماندہ پاکستان کو توڑنے کی کوششوں میں امریکا اور
اسرائیل کی آشیر باد سے لگا ہوا ہے۔ امریکا کی مسلط کردہ گوریلہ جنگ ہو رہی
ہے ان حالات میں فوج پر ایسے تجزیے جوخاص کر بیرونی تناظر کو سامنے رکھ کئے
جائیں پاکستان کی کوئی خدمت نظر نہیں آتے اس وقت فوج سے یکجہتی کی ضرورت ہے
فوج پوری پاکستانی قوم کی پشت پناہی چاہتی ہے۔ کوئی مانے نہ مانے فوج
پاکستان کے اسلامی نظریاتی تحفظ کی امین ہے جسے دشمن کمزور کرنا چاہتا ہے۔
کاش کہ اس کتاب میں اسلامی نکتہ نظر سے بحث کی جاتی کتاب میں کہیں بھی
اسلامی کے سنہری دور کا ذکر نہیں جس سے ذہنی غلامی کا تاثر سامنے آتا ہے جس
میں اکثر مغربی تعلیم یافتہ مسلمان غرق ہیں۔ اس کتاب میں فوج کے اقتدار سے
نجات کا اسلامی نکتہ نظر سے کوئی بھی تجزیہ پیش نہیں کیا جا سکا کہ کیسے
اتنی بڑی اسلامی سلطنت میں فوجی اپنے جمہوری طریقے سے منتخب خلیفہ کے سامنے
مطیع اور فرمانبردار ہوتے تھے! کیسے رسولؐ اور خلفاء راشدین کے دور میں
فوجی کمانڈوں کی اصلاح گئی تھی۔ کیسے فوجی مال غنیمت کو اپنے چیف کمانڈر کے
سامنے لا کر رکھ دیتے تھے اور کمانڈر ایک طے شدہ طریقے سے فوج میں تقسیم
کرتا تھاکیااس وقت جمہوری حکومت پر قبضہ اور اقتدار کا نشہ فوج میں تھا؟
کیا اس وقت فوجی اقتدار، فوجی معیشت، فوجی سیاست،فوجی ویلفئر کا پروگرام
فوجیوں کے سامنے نہیں ہوتے تھے؟ کیا وہ فوجی اِس وقت کے فوجیوں سے کوئی
مختلف مخلوق تھے؟ نہیں ہر گز نہیں! انسان اپنی پیدائش سے ایک ہی قسم کے ر
جحان رکھتا ہے چائے وہ حاکم ہو یا محکوم ہو یا فوجی ہو۔ صرف اس کی صحیح
تربیت کی ضرورت ہوتی ہے جو اس وقت کی گئی تھی جو حقوق و فرائض اور آخرت کی
جواب دہی پر مبنی تھی جو نظریاتی تربیت تھی جس نے جمہوری حکومت اور فوج کو
اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر انجام دینے پر گامزن کیا تھا کیا اب بھی
ایسے نظریاتی سوچ کی ضرورت نہیں؟ جب خلیفہؓ نے کمانڈر خالد بن ولید کو فوجی
کمانڈ سے ہٹایا تھاکیا اس وقت فوجی بغاوت کا کوئی سوچ بھی سکتا تھا؟ فوجی
ہو یا عام شہری سب انسان ہیں خرابی سب میں پیدا ہوتی ہے لہٰذا سب کی اصلاح
کی ضرورت ہے ہمارے باہر سے پڑھے ہوئے لوگوں جن میں ڈاکٹر عائشہ صدیقہ صاحبہ
بھی شامل ہیں کو اس طرف توجہ دینا چاہیے تھی نہ کہ بہتے دریا کے پانی کے
ساتھ بہہ کر مروّجہ مادی دور کے طریقوں سے فوج کی اصلاح کی کوشش کی جائے
جیسے ڈاکٹر صاحبہ نے کی ہے جو اسلامی دنیا میں شاید کامیاب نہ ہو سکے اور
ساری محنت ضائع ہو جانے کاخطرہ ہو۔موجودہ دور میں بھی اصلاح کا وہی طریقہ
کامیاب ہو سکتا ہے جو اسلام کے پہلے دور میں کیا گیا تھا اُس وقت کا فوجی
بھی ایسا ہی انسان ہے جیسے آج ہے ۔ اﷲ ہمارے ملک کو محفوظ رکھے آمین۔ |