والدین کی ذمہ داری ہے

وہ پیدائشی امریکی شہری تھا میں نے اس سے کئی بار کہا کہ تم امریکا چلے جاؤ وہاں بہت سے قریبی رشتہ دار ہیں ،جو تمھاری تعلیم اور رہائش میں معاونت کر سکتے ہیں ۔لیکن وہ پاکستان چھوڑ کر جانے کے لیے تیار ہی نہیں ہوا ۔و ہ 1999میں امریکا میں پیدا ہوا 2002میں جب وہ ساڑھے تین سال کا تھا تو ہم پاکستان آگئے ،اگر دو چار سال اور وہاں پر گزار لیتے اور یہ اسکول جانے لگتا تو پھر اس کا دل وہاں لگ جاتا یہ بات ہمارے دوست افتخار نے بتایا جب میں ان کے اکلوتے بیٹے بلکہ اکلوتی اولا د اریج افتخار کی رحلت پر ان سے تعزیت کے لیے ان کے گھر گیا چودہ پندرہ سال کا یہ بچہ اپنے دوستوں کے ساتھ موٹر سائیکل پر اپنے کسی کام سے یہ اپنے دوستوں میں سے کسی کے کام سے گھر سے گیا، کئی بائیکوں پر دوست سوار تھے کہ ناظم آباد بورڈ آفس کے نزدیک رات کے وقت کسی گڑھے میں گاڑی اس طرح گری کہ بائیک پر سوار دونوں بچے زخمی ہو گئے اریج افتخار کے سر میں شدید چوٹیں آئیں اور بے ہوشی کی حالت میں اسے ڈاکٹر ضیاء الدین اسپتال لایا گیا جہاں اسے ICUمیں ventilatorپر رکھا گیا تقریباَایک ہفتہ بعد اس کا انتقال ہو گیا حادثہ کے بعد سے وہ ہوش میں ہی نہ آسکا تھا ۔ ڈاکخانہ لیاقت آبادکی نایاب مسجد بعد نماز ظہر اس کی نماز جنازہ رشتہ دار دوست احباب اور اہل محلہ کی بڑی تعداد کے علاوہ سابق ممبر صوبائی اسمبلی اور نائب امیر جماعت اسلامی کراچی جناب نصراﷲ شجیع،قیم جماعت اسلامی ضلع وسطی محمد یوسف امیر جماعت اسلامی زون لیاقت آباد اسحاق تیموری ،سابق نائب ناظم لیاقت آباد ٹاؤن شہاب الدین موجود تھے ۔آپ کے ارد گرد جاننے والوں رشتہ داروں ایسے کئی واقعات ہوں گے جس کا ذکر ہم ایسے موقعوں پر کرتے رہتے ہیں لیکن اس طرح کے حادثات کے تدارک یا اس میں کمی کے لیے ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر کوئی لائحہ عمل پر گفتگو نہیں کرتے ،شہر کراچی میں ٹریفک کی صورتحال تشویشناک حد تک خطرناک ہوتی جارہی ہے ،گو کہ بڑی بسوں کی تعداد چنچی رکشاؤں کی وجہ سے پہلے سے بہت کم ہو گئی ہے ،لیکن ان رکشاؤں نے بڑے بے ہنگم طریقے سے بہت ساری سڑکوں کو اس طرح اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے کہ کسی اور سواری کے گزرنے کا راستہ ہی نہیں مل پاتا پھر مختلف مقامات پر اس کا نظام ایک سیاسی تنظیم کے پا س ہونے کی وجہ سے ٹریفک پولیس بھی ان کو کنٹرول کرنے سے معذور نظر آتی ہے دوسری طرف آپ نے دیکھا ہوگا کہ چھوٹی عمر کے بچے جو دس سے پندرہ سال کے درمیان کے ہوتے ہیں سڑکوں پر بہت تیز بائیک چلاتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ہفتہ کی رات یا کسی عام تعطیل سے پہلے والی رات میں مختلف محلوں سے غول در غول نوجوانوں کے گروہ اپنی اپنی موٹر سائیکلیں لے کر نکلتے ہیں اور روڈ پر آکر ایک دوسرے سے ریس لگاتے ہیں اگر آپ کو یہ نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھنا ہے تو کسی ہفتہ کی رات کو لیاقت آباد کے پل پر کھڑے ہوجائیں وقفہ وقفہ سے مختلف نوجوانوں کے گروپس تیز رفتار ڈرائیونگ کرتے ہوئے نظر آئیں گے ۔آپ خود اگر بائیک پر ہوں اور آپ کے ساتھ کوئی اور گاڑی کار یا فور ویل ہوتو اکثر آپ کے بہت قریب سے یعنی آپ کی اور دوسری گاڑی کے درمیان سے ذن سے کوئی بائیک یا بائیک والے گزرجاتے ہیں اور آپ ڈگمگا کر رہ جاتے ہیں غصہ میں کچھ بڑبڑانا چاہتے ہیں لیکن اچانک سکتے کی کیفیت کی وجہ سے کچھ بول نہیں پاتے وہ بائیکرز نوجوان آپ کو مشتعل کرکے اتنی تیزی سے نکلتے ہیں کہ آپ کی نظریں بھی ان کا تعاقب نہیں کرپاتیں اس لیے کہ وہ بائیک لہراتے ہوئے مختلف گاڑیوں کے درمیان سے بائیک نکالتے ہیں تاکہ ان کے دوسرے ساتھی انھیں کراس نہ کرسکیں کبھی کبھی ان کے خطرناک ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں جس میں بچنے کے بہت کم امکانات ہوتے ہیں۔اس قسم کے سانحات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ قانون کو حرکت میں لایا جائے تیز رفتار اور ریس لگانے والے موٹرسائیکل سواروں کو ٹریفک پولیس اس طرح گرفتار کرے کہ وہ سادہ لباس اور پرائیویٹ کاروں میں ہوں ان کا اس طرح تعاقب کریں کہ انھیں یہ احساس نہ ہونے پائے کہ کوئی ان کا پیچھا کررہا ہے ورنہ وہ اور تیز گاڑی بھگائیں گے جس سے ان کے علاوہ اور لوگوں کے زخمی ہوجانے کا اندیشہ رہے گا کسی بھی ایک بائیک سوار کو پکڑلیں تو اس سے بقیہ ساتھیوں کا پتا بھی چل جائے گا ۔پھر ان تمام نوجوانوں کو کم از کم ایک ماہ کے لیے جیل بھیجا جائے تاکہ آئندہ کے لیے وہ تیز رفتاری سے توبہ کرلیں ،لیکن اس کے باوجود میں یہ سمجھتا ہوں کہ بنیادی ذمہ داری والدین کی ہے جو چھوٹی عمروں میں اپنے بچوں کو ان کی ضد اور فرمائش پر موٹر سائیکلیں دلا دیتے ہیں پھر یہ والدین کے کنٹرول میں نہیں رہتے ان پر تو ان کے دوستوں کا کنٹرول ہو جاتا ہے پھر یہ عمریں اچھلتے ہوئے خون کی عمریں ہوتی ہیں جس میں فطری طور سے تیز اور مختلف کرتب دکھاتے ہوئے بائیک چلانے کا دل چاہتا ہے ہماری آبادی کی اندرونی سڑکوں پر جہاں ٹھیلوں اور پتھاروں کی وجہ سے پیدل چلنے والوں کے لیے راستہ نہیں ملتا ان سڑکوں پر یہ شوخ و چنچل نوجوان دندناتے ہوئے گاڑی چلاتے ہیں اسی وجہ سے اکثر جھگڑے ہو جاتے ہیں ۔ویسے تو موٹر سائیکل کی سواری جتنی خطرناک Riskiہے اتنی کوئی اور سواری نہیں لیکن دوسری طرف یہ بات بھی ہے کہ اس سے وقت اور پیسوں کی بچت ہوتی ہے اس لیے بائیک چلانے والوں کے لیے یہ مشورہ ہے کہ وہ بائیک چلاتے وقت یہ بات ذہن میں رکھیں کہ وہ زندگی سے دور اور موت سے نزدیک ہیں سواری کی دعا یا آیت الکرسی پڑھ کر گاڑی اسٹارٹ کریں اور راستے میں بھی قرآن کی جو سورتیں یا آیات یاد ہوں یا درود شریف پڑھتے رہا کریں ،اﷲ ہم سب کی حفاظت کرنے والا ہے۔

Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 60 Articles with 43791 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.