Migingo ایک چھوٹا جزیرہ ہے جس کا رقبہ آدھے ایکڑ سے بھی
کم ہے یا پھر دوسرے معنوں میں تقریباً فٹبال کے آدھے گراؤنڈ کے برابر ہے-
یہ جزیرہ افریقہ کی سب سے بڑی جھیل وکٹوریہ پر واقع ہے-
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس چھوٹے سے جزیرے پر 131 افراد آباد ہیں جن کے گھر لہر
دار شیٹوں اور لکڑی کی مدد سے تعمیر کیے گئے ہیں-
|
|
انتہائی بدحال طرز زندگی کے باوجود اس جزیرے پر 5 بار٬ ایک بیوٹی سیلون٬
ایک فارمیسی اور کئی ہوٹل واقع ہیں-
اس جزیرے کے زیادہ تر رہائشی ماہی گیر یا پھر مچھلیوں کی تجارت کے پیشے سے
وابستہ ہیں- اس جزیرے سب سے پہلے آنے والے دو افراد بھی ماہی گیر ہی تھے جن
کا تعلق کینیا سے تھا- Dalmas Tembo اور George Kibebe جب 1991 میں یہاں
آئے تو وہ یہی مستقل طور پر آباد ہوگئے-
اس وقت یہ جزیرہ پرندوں اور سانپوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا-
اس جزیرے پر پہلے آنے والے دونوں افراد کے ساتھ اس وقت مزید 60 افراد شامل
ہوگئے جب انہیں معلوم ہوا کہ اس مقام پر Nile Perch نامی قیمتی مچھلی کثیر
تعداد موجود ہے- ان 60 افراد کا تعلق بھی ماہی گیری کے پیشے سے تھا-
|
|
آنے والے دیگر ماہی گیروں کا تعلق کینیا٬ یوگنڈا اور تنزانیہ سے تھا اور ان
ماہی گیروں نے اس جزیرے کو تجارتی مرکز میں تبدیل کردیا اور ماہی گیری کی
صنعت کو فروغ دیا-
جزیرے پر 100 سے زائد کشتیاں موجود ہیں جو روزانہ صبح سویرے مچھلیوں کا
شکار کرتی ہیں اور انہیں خریداروں کو فروخت کردیتی ہیں-
یہ مچھلی خریدنے کے بعد کینیا منتقل کردی جاتی ہے جہاں سے اسے یورپی یونین
اور دیگر ممالک میں ایکسپورٹ کیا جاتا ہے-
یہ مچھلی یوگنڈا٬ کینیا اور تنزانیہ کی معیشت کو مضبوط بنانے کا ایک اہم
ذریعہ ہے کیونکہ اس کے ذریعے ماہی گیری کی صنعت میں لاکھوں ڈالر کمانے کا
ایک اہم ذریعہ ہے-
|
|
دوسری جانب یہی خاص مچھلی یوگنڈا اور کینیا کے درمیان علاقائی تنازعے کا
سبب بھی ہے اور یہ دونوں ممالک اس جزیرے کے دعوے دار ہیں- کیونکہ یہ مچھلی
اس جزیرے کے اردگرد موجود پانی میں کثیر تعداد میں پائی جاتی ہے-
تکنیکی لحاظ سے اس Migingo نامی جزیرے کا تعلق کینیا سے ہے اور یہ جزیرہ
کینیا کے نقشے اور سرکاری کاغذات میں بھی موجود ہے- لیکن 2009 میں یوگنڈا
کی حکومت نے اسے اپنی ملکیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ جزیرہ یوگنڈا کی
سمندری حدود میں واقع ہے اس لیے اس کا مالک وہ ہے-
یہاں کے ماہی گیروں کو ایک اور مشکل اس وقت پیش آئی جب قزاقوں نے سنا کہ
جزیرے پر موجود ماہی گیر ایک دن میں 300 ڈالر سے زیادہ کماتے ہیں اور یہ
کمائی مشرقی افریقہ میں موجود افراد کی پورے مہینے کی کمائی سے 3 سے 4 گنا
زائد تھی- تب یہ قزاق اس جزیرے پر آتے اور یہاں سے نقدی٬ مچھلیاں اور انجن
چرا لے جاتے -
2009 میں ماہی گیروں نے ان قزاقوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے یوگنڈا کی
حکومت سے مدد مانگی اور اس وقت پہلی مرتبہ یوگنڈا کی حکومت نے سمندری پولیس
کو جزیرے کی جانب روانہ کیا-
اس طرح یوگنڈا نے اپنا جھنڈا اس جزیرے پر لہرا دیا اور اس چھوٹے سے جزیرے
پر جن ماہی گیروں نے اپنے گھر بنا رکھے تھے٬ ان کا استحصال شروع کردیا- اور
یوگنڈا کی حکومت نے ان ماہی گیروں پر انٹری پرمٹ اور ٹیکس لاگو کر دیے-
یوگنڈا کی فورسز تقریبا ً روازانہ کینیا سے تعلق رکھنے والے ماہی گیروں کی
کشتیاں اور ان کے جال ضبط کرلیتی ہیں اور انہیں مچھلی کے شکار سے روک دیا
جاتا ہے-
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک بہت بڑا جزیرہ Usingo اس چھوٹے سے جزیرے کے مشرق کے
جانب صرف 200 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے لیکن وہ اب تک غیر آباد ہے- |