زنا کے بڑھتے واقعات اور ان کاسد باب

دنیا کی تہذیبی تاریخ کا مطا لعہ بتا تا ہے کہ یو نا نیوں کے بعدجس قوم کو دنیا میں تہذیبی عروج حاصل ہواوہ اہل روم تھے، رومی جب وحشت کی تاریکیوں سے نکل کر تاریخ کے روشن منظر نا مے پر ابھرے تو انہوں نے تہذیب و تمدن کی ترقی کے ساتھ عورت کے بارے میں اپنے نظریات میں تبدیلی لا نا شروع کردی، انہوں نے نکاح کو محض ایک قانونی معاہدہ قرار دیا،یو نانی معاشرے میں عورتوں کا تصرف واختیار اس قدر بڑھا کہ وہ اپنے شوہروں کو بھاری شرح سود پر قرض دینے لگیں اور مال دار عورتوں کے شوہر عملا ان کے غلام بن کر رہ گئے۔ اخلاق معاشرت کے بند جب اس قدر ڈھیلے ہو گئے تو روم میں شہوانیت اور فواحش کا سیلا ب پھوٹ پڑا، عریا ں اور فحش تصویریں ڈرائنگ روم کی زینت سمجھی جانے لگیں، عورتوں اور مردوں کے اجتماعی بر ہنہ غسل کا عام رواج ہو گیا۔ بہیمانہ خواہشات سے اس قدر مغلوب ہو جانے کے بعد روم کا قصر عظمت ایسا پیوند خاک ہوا کہ پھر اس کی ایک اینٹ بھی اپنی جگہ قائم نہیں رہ سکی۔ آج روم کی تہذیبی عظمت قصہ پارینہ بن چکی ہے۔

وطن عزیز جنت نشان ہندوستان تاریخ کے تمام ادوار میں عظیم الشان تہذیبوں کا گہوارا رہا ہے، ہردور میں یہاں کی گنگا جمنی تہذیب اقوام عالم کے لیے حیر ت اور دل چسپی کی چیز رہی ہے۔ لیکن آج مغرب کی تقلید اور اباحیت پسندی کے سیلاب نے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے تقدس کو پو ری طرح پامال کر ڈالا ہے، جدیدیت اور فیشن کے نام پر فحاشیت کا فروغ عام ہو تا جا رہا ہے، زنا کا ری اور عصمت دری کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ہندوستاں میں بے حیائی اور جنسی آوار گی کے سیلاب پر قابو نہیں پا یا گیا تو ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا حال بھی یو نان و روم سے کچھ مختلف نہیں ہوگا۔

زنا کا ری اور عصمت دری کے بڑھتے واقعات کے روک تھام پر گفتگو سے پہلے ان کے بنیادی اسباب و عوامل کے مضمرات پر گفتگو ضروری ہے۔ اس مختصر تحریر میں ان عوامل کا تفصیلی تجزیہ ممکن نہیں اس لیے یہاں چند اہم امور کی طرف اشارہ کر نے پر اکتفا کیا جا تا ہے۔ اس بات میں کو ئی شک نہیں کہ عصمت دری کے واقعات کا سب سے بنیا دی محرک فحا شیت اور عریانیت ہے، آ ج زندگی کے مختلف شعبوں میں شعوری اور غیر شعوری طور پر مختلف جہتوں سے جس طرح فحا شیت کا فروغ ہو رہا ہے، وہ تباہ کن نتائج کا پیش خیمہ ہے۔

مر دو زن کا آزدانہ اختلاط:زندگی کے مختلف شعبوں میں مردوں اور عورتوں کے آزادانہ اختلاط نے عورتوں میں حسن کی نمائش، عریا نیت اور فحاشی کو غیر معمولی ترقی دی ہے۔ مخلوط سو سائٹی میں فطری طور دو نوں صنفوں کے اندر یہ جذبہ پیدا ہو تا ہے کہ صنف مقابل کے لیے زیادہ سے زیادہ جاذب نظر بنیں، پھر حسن و جمال کی نمایش کا جنون رفتہ رفتہ تمام حدوں کو توڑ دیتا ہے،جب صنف نازک کے جذبہ نمائش کی تسکین شوخ وشنگ لباس سے بھی نہیں ہوتی تو حواس با ختہ بنت حوا اپنے کپڑوں سے باہر آنے کے لیے تڑپتی ہے۔ پھر فحاشیت کا ایسا شعلہ بھڑکتا ہے کہ قدیم یونا ن و روم کی شہوانی تہذیب بھی شرمشار نظر آتی ہے۔ ان بیہو دگیوں کے مشاہدے کے لیے اب آپ کو ممبی اور گُوا کے کی تفریح گا ہوں اور نائٹ کلبوں میں جا نے کی ضرورت نہیں، بلکہ آپ اپنے ملک کے ہر چھو ٹے بڑے شہر و قصبات کی شاہراہوں پر کھلے عام ان کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔آفس کے اندر،کالج کے باہر،پارک کے کنارے، دریا کے ساحل اورشاپنگ مال کی سیڑھیوں پرآزادانہ مر دوزن کا اختلاط ایک دوسرے کے ہیجان کوبر انگیختہ کر نے کے لیے کا فی ہے۔ظاہر ہے جس سما ج ومعا شرے میں اس طرح کا ہیجان انگیز ماحول پو ری طرح چھا گیا ہو جہان جنسی جذبات کو بھڑکانے کے سارے سامان مہیا ہوں، ایسے معاشرے میں صنف نازک کے عصمت و عفت کی گارنٹی کون دے سکتا ہے؟۔

جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعہ فحاشیت کا فروغ:موجو دہ دور میں فحاشیت کے فروغ میں جدید ذرائع ابلا غ(ٹی، وی، انٹر نیٹ، موبائل، وغیرہ آلات)بنیادی کر دار ادا کر رہے ہیں، فحش فلمیں، جنسی تعلقات پر مبنی سیر یل، ڈرامے اس انداز میں پیش کیے جاتے ہیں، گو یا یہ ہندوستان کی تہذیبی، ثقافتی اور تاریخی ورثہ ہوں اور ان فلموں کے ذریعہ ہندوستا نی سماج کی عکاسی کی جا رہی ہو۔ ان فحش فلموں اور سیر یلو ں کی حمایت اور ان کے فروغ میں ہندوستانی میڈیا ایڑی چو ٹی کا زور لگارہی اوراسے آرٹ کا نام دے کرمعاشرے میں اس کے رواج کا جواز فراہم کر رہی ہے۔

درا صل فلموں میں پیش کیے جانے والے نظریات اور تہذیب وثقافت نئی نسل کے ذہن و دماغ میں بڑی آسانی سے جگہ بنا لیتے ہیں، جدیدیت کے نشے میں فلموں میں پیش کیے جا نے والے ہر فیش کی تقلید ہما رے معاشرے کے نوجوان لڑ کے لڑکیوں کے باعث صد افتخار ہو تی ہے، دوسری جانب آج کی فلموں کا حال یہ ہے کہ تجارت کے فروغ اور حصول زر کے لیے فلمی ادا کارائیں کسی بھی حد تک جا نے میں دریغ نہیں کرتیں،فلمی اداکاراؤں کی تقلید میں ہندوستانی سماج کی بیٹیاں برہنہ ہو تی جا رہی ہیں، فیشن کے نام ان کے جسم پر دن بہ دن لباس مختصر ہو تا جا رہا ہے، فحاشی اور بر ہنگی کے اس ماحو ل میں عزت و عصمت کی تحفظ کی بات فضول ہے۔

ٹی، وی آج ہمار ے معاشرے کے ہر گھر کالازمی حصہ بن چکی ہے، جس گھر میں ٹی،وی نہ ہو وہ سماج کا پچھڑا گھر سمجھا جاتا ہے، آج ٹی وی کے ذریعہ بھی بڑی آسانی کے ساتھ فحاشیت کا فروغ ہو رہا ہے جو عصمت دری کے واقعات میں اضافے کا یک اہم سبب ہے، فحش فلمیں اور جنسی تعلقات پر مبنی سیریلز ٹی، وی پر دکھانے کی حمایت میں ایک چینل کے مالک کی الٹی دلیل ملاحظہ فر مائیں، موصوف کہتے ہیں کہ ہم سیکس سے لطف اندوز ہو نے والی فلمیں دکھاتے ہیں، آخر اس میں غلط کیا ہے؟ اس طرح کی ننگی تصویریں دیکھ کر لوگ تھک جائیں گے تو زنا بالجبر کے واقعات خود بخود کم ہو جائیں گے۔

وحشت میں ہر نقشہ الٹا نظر آتا ہے مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے
پرنٹ میڈیا اور فحا شیت کا فروغ: الیکٹرانک میڈیا کی طرح پرنٹ میڈیا بھی فحا شیت کے فروغ میں پیچھے نہیں ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت ہندوستان میں ڈیرھ سو ایسے رسائل نکل رہے ہیں جو عورت کے تقدس اور ان سے وابستہ اخلاقی اقدار کے لیے لمحہ فکر ہیں، ان رسائل میں فحش مواد کے ساتھ عریا ں اور نیم عریاں تصاویر کی اشاعت عام ہے، یہ رسائل اپنی تمام تر فحاشیت کے با وجود نام نہاد ترقی پسند حلقوں میں نہایت مقبول ہیں اور ماڈرن طبقہ ایسے رسائل کو اپنے ٹیبل پر سجانا جدیدیت کی علامت سمجھتے ہیں۔ اردو سمیت ملک کی مختلف زبانوں میں شائع ہو نے والے ان رسائل کی آمدنی عام رسائل سے کئی گنا ہے۔تعجب کی بات یہ ہے کہ ہندوستانی معاشرے میں جنسی انارکی کو فروغ دینے والے ان رسا ئل کو رجسٹرار نیوز پیپر کی طرف سے رجسٹریشن حاصل ہے۔ اب تو عام اخبارات میں جنسی ادویا ت کے ایسے بر ہنہ اشتہارات شائع ہو نے لگے ہیں جومختلف زاویوں سے قارئیں کے جذبات کو بھڑ کا نے کا کام کرتے ہیں۔

زنا کا ری اور عصمت دری کے اسبا ب و محر کات کا اجمالی جا ئزہ پیش کیا جا ئے تو وہ حسب ذیل ہو ں گے۔

فحش اور عریاں فلمیں، ٹی وی سیریل،گندی اور مخرب اخلا ق کتب اور رسائل،نائٹ کلبوں اور ہو ٹلوں میں نیم عریاں رقص، شہوت انگیز سنیما پوسٹراور تصاویر،جنسی اشتعال پیدا کر نے والے اشتہارات، جسم کی ساخت کو نما یاں اور عریاں کر نے والے مختصر اور تنگ زنانہ لباس، مخلوط تعلیم،بازاروں، کلبوں، کالجوں، اسکولوں اور تفریح گا ہوں میں مردوں اور عورتوں کا آزادانہ میل ملاپ، نیز شراب اور دیگر منشیات کا بے دریغ استعمال۔

عصمت دری اور زنا کاری کے بڑھتے واقعات پر قا بو پانے کے لیے ان امور پر کنٹرول کی سخت ضروت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم اور ضروری اقدام یہ بھی ہونا چاہیے کہ معاشرے میں شادی کو آسان اور سہل بنا یا جا ئے، تاکہ جنسی تسکین کا جائز ذریعہ مہیا ہو۔لیکن آج ہمارے معاشرے میں شادیاں کس قدر مہنگی ہوتی جا رہی ہیں اس کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں۔

حال ہی میں دہلی میں اجتماعی آبرو ریزی کا معا ملہ سامنے آنے کے بعدزانیوں کو سخت سے سخت سزا دیے جانے کی باتیں بھی میڈیا میں گردش کرتی رہیں، مختلف پارٹیوں کے لیڈروں اور سماجی رہنماؤں نے اس سلسلے میں اسلامی سزا کے نفاذ کی باتیں کیں، یہ سچ ہے کہ زنا کے بڑھتے وقعات پر قا بو پا نے کے لیے سخت ترین سزاؤں کا انتخاب ہو نا چا ہیے، اسلام ایسی سزاؤں کا صدیوں پہلے ہی سے حامی ہے، لیکن صرف زانی کے لیے پھانسی یا اس قسم کی دوسری سخت سزا کا نفاذ سماج سے زنا اور عصمت دری کے واقعات پر قابو پا نے کے لیے کا فی ہو گا، میں اس کی تا ئید نہیں کر سکتا۔ اسلام نے جہاں زانی اور زانیہ کے لیے سخت ترین سزا کا انتخاب کیا وہیں زنا کے تما م محرکات پر بھی پابندی عا ئد کر دی ہے، عورتوں کے لیے پردے کو ضروری قرار دیا، غیر محرم مردوعورت کا اختلاط ناجائز قرار دیا،اور اسلامی سماج میں ہر طرح کی فحاشی اور بے حیا ئی کو غیر شرعی گر دانا۔

دہلی اجتماعی عصمت دری واقعے کے بعد احتجا جات میں اس طرح کی سزاؤں کی حمایت میں سڑکوں پر ایک سیلاب تو امنڈآیا لیکن کسی نے زنا کے محرکات پر قابو پانے کی مانگ نہیں کی اور اگر کسی بیچارے نے اس قسم کی باتیں کی بھی تو انہیں فرسودہ خیال اور دقیانوسیت کا حامی کہہ کر خاموش ہو نے پر مجبور کیا گیا۔حالاں کہ صحیح بات یہی ہے کہ جب تک سماج کے ماحول کو پاکیزہ نہیں بنایا جا تا اس طرح کے واقعات میں کمی لا نا ممکن نہیں۔ اندین میڈیکل ایشوسی ایشن کے ایک سروے کے مطابق عصمت دری کے وارداتوں کو انجام دینے والوں میں 60 فیصد نشہ خور اور 35 فیصد غلط ماحول میں پلے بڑھے لوگ ہو تے ہیں۔جب کہ پانچ فیصدعمومی واقعات ہوتے ہیں لہذا زنا کے واقعات پر قابو پانے کے لیے زانیوں کے لیے سخت قوانین کے ساتھ پاکیزہ سماج ومعاشرے کی تشکیل کی بھی سخت ضرورت ہے۔
محمد ساجد رضا مصباحی
About the Author: محمد ساجد رضا مصباحی Read More Articles by محمد ساجد رضا مصباحی: 56 Articles with 106246 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.