موت کے معنی کسی چیز کے پرسکون
یا بنا حرکت والا ہو جانا وغیرہ کے آتے ہیں۔اسی لیے جب کوئی چیز پر سکون ہو
جاتی ہے تو کہا جاتا ہے ’مات‘۔جیسے آگ جب بجھ جاتی ہے تو کہتے ہیں :
ماتت النار موتا برد رمادھم فلم یبق من الجمر شئی۔
آگ بجھ گئی اور انگارے میں سے کوئی چیز باقی نہ رہی۔
اس دنیا میں انسان ایک مسافر کی طرح ہوتا ہے جو کچھ دیر آرام کرنے کے لیے
ایک جگہ ٹہرتا ہے اور پھر اپنی حقیقی منزل کی طرف روانہ ہو جاتا ہے ۔یہ
عارضی زندگی اسے اس لیے عطا کی جاتی ہے کہ وہ اپنی دائمی زندگی یعنی آخرت
کی تیاری کر لے۔جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:
و من اراد الاٰخرة و سعیٰ لھا سعیھا و ھو مومن فاولئک کان سعیھم
مشکورا۔(بنی اسرائیل:۹۱)
اور جو آخرت کا خواہش مند ہو اور اس کے لیے سعی کرے جیسی کی سعی اس کے لیے
کرنی چاہیے،اور ہو وہ مومن ،تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور ہوگی۔
آخرت کی تیاری میں تقویٰ کا اہم کردار ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے:
و الاٰخرة عند ربک للمتقین۔(الزخرف:۵۳)
اور یہ آخرت تیرے رب کے وہاں صرف متقین کے لیے ہے۔
یہ دنیوی زندگی بڑی ہی مختصر ہے جو ہمیں آج بہت لمبی دکھائی دے رہی ہے لیکن
جب حشر کے میدان میں کھڑے ہوں گے تو ایسا محسوس ہوگا کہ دنیامیں تو بس ایک
دن یا آدھے دن رہے تھے۔قرآن اسی کو اپنے مخصوص انداز میں کہتا ہے:
ویوم یحشرھم کان لم یلبثوا الا ساعة من النھاریتعارفون بینھم۔(یونس:۵۴)
اور جس روز اللہ ان کو اکٹھا کرے گاتو(یہی دنیا کی زندگی انہیں ایسی محسوس
ہوگی)گویا یہ محض ایک گھڑی بھر آپس میں جان پہچان کرنے کو ٹھیرے تھے۔
ایک اور جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے فرمایا:
کانھم یوم یرونھا لم یلبثوا الا عشیةاو ضحٰھا۔(النٰزعٰت:۶۴)
جس روز یہ لوگ اسے دیکھ لیں گے تو انہیں یوں محسوس ہوگا کہ(دنیا میں یا
حالتِ موت میں)یہ بس ایک دن کے پچھلے پہر یا اگلے پہر تک ٹھیرے ہیں۔
انسان دنیا میں رہنے کے لیے نہیں بلکہ واپس جانے کے لیے آتا ہے اور اس سے
کسی کو نجات نہیں ہے ۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:
این ما تکونوا یدرککم الموت و لو کنتم فی بروج مشیدة۔(النسائ:۸۷)۔
رہی موت،تو جہاں بھی تم ہو وہ بہرحال تمہیں آکر رہے گی،خواہ تم کیسی ہی
مضبوط عمارتوں میںہو۔
ایک اور جگہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
قل ان الموت الذی تفرون منہ فانہ ملاقیکم(الجمعة:۸)
ان سے کہو،جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ تو تمہیں آکر رہے گی۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
کل نفس ذائقة الموت و انما توفون اجورکم یوم القیامة فمن زحزح عن النار و ا
¿دخل الجنة فقد فاز و ما الحیاة الدنیا الا متاع الغرور۔(آل عمران:۵۸۱)
آخر کار ہر شخص کو مرنا ہے اور تم سب اپنے اپنے پورے اجر قیامت کے روز پانے
والے ہو۔کام یاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتشِ دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں
داخل کر دیا جائے۔رہی یہ دنیا،تو یہ محض ایک ظاہر فریب کی چیز ہے۔
حتی کہ موت سے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی نہ بچ سکے اور آپ سے بھی
کہا گیا :
انک میت و انھم میتون(الزمر:۰۳)
(اے نبی)تمہیں بھی مرنا ہے اور ان لوگوں کو بھی مرنا ہے۔
اللہ تعالی نے ایک اور جگہ آپ کو مخاطب کر کے فرمایا:
وما جعلنا لبشر من قبلک الخلد ا ¿فاءن مت فھم الخالدون۔(الانبیائ:۴۳)
اور اے نبی ،ہمیشگی تو ہم نے تم سے پہلے بھی کسی انسان کے لیے نہیں رکھی
ہے،اگر تم مر گئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ جیتے رہیںگے؟
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قدیم و جدید میں سے کسی کی بھی زندگی کو دوام حاصل
نہیں ہو سکتا۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:
کل شئی ھالک الا وجھہ لہ الحکم و الیہ ترجعون۔(القصص:۸۸)
ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اس کی ذات کے۔فرماں روائی اسی کی ہے اور
اسی کی طرف تم سب پلٹائے جانے والے ہو۔
قرآن کریم میں ایک اور جگہ اللہ تعالی نے فرمایا:
کل من علیھا فان و یبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال و الاکرام۔(الرحمٰن:۶۲-۷۲)
ہر چیز جو اس زمین پر ہے فنا ہو جانے والی ہے اور صرف تیرے رب کی جلیل و
کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔
اسی طرح موت کا وقت بھی متعین ہے اور اس میں نہ تو تقدیم ہو گی اور نہ ہی
تاخیر۔قرآن نے اسی کو کہا :
ان اجل اللہ اذا جآءلا یوخر لو کنتم تعلمون(نوح:۴)
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت جب آجاتا ہے تو پھر ٹالا نہیں
جاتا،کاش تمہیں اس کا علم ہوتا۔
و لکل امة اجل فاذا جاءاجلھم لا یستاخرون ساعة و لا یستقدمون(الاعراف:۴۳)
ہر قوم کے لیے مہلت کی ایک مدت مقرر ہے،پھر جب کسی قوم کی مدت آن پوری ہوتی
ہے تو ایک گھڑی بھر کی تاخیر و تقدیم بھی نہیں ہوتی۔
لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ انسان زندگی سے اکتا کرموت کی تمنا
کرنے لگے جیسا کہ عورتیں مصیبت یا پریشانی میںاور مریض اپنی بیماری کرتا ہے
لیکن اس سے منع کیا گیا ہے۔نبی نے فرمایا:
لا یتمنین احد منکم الموت لضر نزل بہ،فان کان لا بد متمنیا
للموت،فلیقل:اللھم احینی ما کانت الحیاة خیرا لی،و توفنی اذا کانت الوفاة
خیرا لی۔(بخاری:۱۵۳۶)
تم میں سے کوئی شخص کسی پریشانی کی وجہ سے موت کی تمنا نہ کرے، اگر وہ ایسا
کرنا ہی چاہے تو یوں کہے :
اے اللہ!مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک زندگی میرے لیے باعثِ خیر ہو
اورمجھے موت دے دے جب موت میرے لیے بہتر ہو۔
آپ نے اس کی وجہ سے بتا دی اور فرمایا :
لا یتمنین احدکم الموت اما محسنا فلعلہ ان یزداد خیرا وامامسیئا فلعلہ ان
یستعتب ۔ (سنن النسائی الصغری:۵۰۸۱)
تم میں سے کوئی موت کی تمنا نہ کرے۔کیوں کہ اگر وہ اچھا ہے تو ممکن ہے کہ
وہ مزید خیر کا کام کرے اور اگر برا ہے تو ممکن ہے کہ توبہ کرے اور اللہ
تعالی سے معافی مانگ لے۔
جب موت برحق ہے تو کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو اس
کا جواب ہمیں نفی میں ملے گا ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ہمارے سامنے موت کا
تذکرہ بھی آجاتا ہے تو ہم گھبرا کر موضوع بدلنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے
ہیں کہ کیا تمہیں اس کے علاوہ کوئی اور موضوع نہیں ملا تھا؟ابھی تو ہم نے
دنیا بھی نہیں دیکھی ہے۔ لیکن عقل مند انسان وہی ہوتا ہے جو اس کے لیے شروع
سے ہی تیاری کرتا ہے۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چند صحابہ کرامؓ نے
سوال کیا:
من اکیس الناس و احذر الناس ؟قال اکثرھم للموت ذکراً،واشدھم استعدادا للموت
قبل نزول الموت ،اولئک ھم الاکیاس ،ذھبوا بشرف الدنیا و کرامة
الآخرة۔(اتحاف الخیرة المھرة بزوائد المسانید العشرة:۷/۰۱)
انسانوں میں سب سے زیادہ عقل مند اور سمجھ دار کون ہے؟آپ نے فرمایا: جو
کثرت سے موت کو یاد کرے۔ اورموت آنے سے قبل اس کی خوب تیاری میں لگا رہے،یہ
ہیں عقل مند لوگ، جو دنیا کی شرافت اور آخرت کی عظمت لے گئے۔
جب کہ ہمارا معیار یہ ہے کہ جس کے پاس بہت مال و دولت ہو اور بڑی بڑی
کمپنیوں اور فیکٹریوں کا مالک ہو یا بہت بینک بیلنس ہو تو وہی شخص اس دنیا
میں عقل مند ہے۔
ہمیں اپنی زندگی کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔آپنے بھی اسی کی تعلیم دی ہے۔ایک
جگہ آپ نے ارشاد فرمایا:
من فتح لہ باب من الخیر فلینتھزہ،فانہ لا یدری متیٰ یغلق عنہ۔(مسند
شہاب:۵۳۴)
جس کے لیے خیر کا کوئی دروازہ کھول دیا جائے وہ اس کو غنیمت سمجھے،اس لیے
کہ اسے نہیں معلوم کہ یہ دروازہ کب بند کر دیا جائے گا۔
تو ہم سے کو جو موقع ملا ہوا ہے اس سے بھرپور فا ئدہ اٹھانا چاہیے۔ایک اور
جگہ آپ نے فرمایا:
اغتنم خمساً قبل خمس:شبابک قبل ھرمک،و صحتک قبل سقمک،غناءک قبل فقرک،فراغک
قبل شغلک و حیاتک قبل موتک۔(المستدرک علی الصحیحین:۴/۲۰۳)
پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو۔بیماری سے پہلے صحت
کو،مشغولیت سے پہلے فرصت کو،تنگ دستی سے پہلے فراخی کو ،بڑھاپے سے پہلے
جوانی کو اور موت سے پہلے زندگی کو۔
ویسے بھی مرنے کے بعد کوئی کسی کے کام نہیں آتا ہے۔بیٹا باپ کو قبر میں دفن
کر تا ہے اور واپس ہو جاتا ہے کہ آگے آپ جانیں اور آپ کے اعمال۔بات کیا
ہوئی؟جن کی خاطر آپ نے جھوٹ بولا،جن کی محبت میں آپ نے ناجائز طریقے سے مال
کمایا،دوسروں کے حقوق ہڑپ کیے۔اس نے تو آپ کی کوئی مدد نہیں کی۔پھر مزید یہ
کہ رفتہ رفتہ لوگ اسے بھول جاتے ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اس کا نام
و تذکرہ بھی اس دنیا سے مٹ جاتا ہے۔
اس لیے ہمیں بذاتِ خودآخرت کی تیاری کرنی چاہیے۔کیوں کہ موت تواپنے مقررہ
وقت پر اچانک آ جائے گی۔ایسا نہیں ہوگا کہ کوئی اعلان کرے گا کہ آج ہماری
موت ہونے والی ہے اور ہم وضو کریں گے، نفل نماز پڑھیں گے اورتوبہ کریں گے
پھر بڑی شان سے مر جائیں گے۔ایسا ممکن نہیں ہے۔
تیاری ایسے کہ آدمی سے جو کچھ گناہ ہو جاتے ہیں اس سے توبہ کرے۔اس میں سب
سے اہم شرک ہے۔ اگر انسان کا عقیدہ ہی خراب ہے اور وہ اللہ تعالی کے ساتھ
کسی کو شریک کر رہا ہو، خواہ وہ خواجہ کے ذریعہ ہو، قبروں اور مزارعوں پر
چڑھاو ے یا یا علی اور یا حسین کے نعرے کی وجہ سے ہو تو اگر اس نے آخری وقت
میں توبہ نہ کی تو اس کا شمار غیر مسلمانوں میں سے ہوگا۔چاہے وہ کتنا ہی
پرہیز گار متقی ہی کیوں نہ ہو اور کتنا ہی نیک کام کیوں نہ کرتا ہو۔
اس میں دوسری اہم چیز انسان کا گناہوں پر اصرار کیے جانے سے بچنا ہے۔انسان
جو کچھ زندگی میں کرتا رہا ہوگا موت کے وقت خود بخود اس کی زبان سے وہی
نکلے گا۔اس لیے گناہوں سے اصرار پر بچنا چاہے۔علامہ ذہبی اپنی کتاب، کتاب
الکبائر میں لکھتے ہیں کہ ہر میت کے سامنے اس کے ہم نشینوں کی تصویر آتی ہے
جس کے ساتھ وہ بیٹھا کرتا تھا۔ ایک شطرنج کھیلنے والے کاآخری وقت آیا تو اس
سے کہا گیا کہ لا الہ الااللہ کہو تو اس نے شاھک کہا اور مر گیا۔ (شاھک
شطرنج کھیلتے وقت بولا جاتا ہے۔)ایک شرابی کا آخری وقت آیا تو اسے جب کلمہ
توحید کی تلقین کی گئی تو اس نے کہا پیو اور پلاؤ اور مر گیا۔(کتاب
الکبائر،علامہ ذہبی:۱۹)۔ان کے علاوہ بھی کئی مثالیں موجود ہیں ۔ایسا بھی
ہوا کہ بعض موت کے وقت گالیاں بک رہے تھے ۔اس میں ان نوجوانوں کے لیے عبرت
ہے جن کی زبانوں پر ہر ایک جملے کے بعد گالیاں رکھی ہوئی ہیں۔
دیگر اہم چیزوں میں ضروری ہے کہ آدمی بندوں کے حقوق کو ادا کرے،اگر کسی کا
حق دبایا ہے تو واپس کرے اور معافی مانگے ۔ہمارے یہاںلوگوں کومعافی مانگنا’
انا‘ کے خلاف لگتا ہے ۔خاص کر لڑکوں کا اپنے والدین سے یا شوہر کا اپنی
بیوی سے معافی مانگنا مردانگی کے خلاف سمجھا جاتا ہے جو غلط ہے۔
اسی طرح لین دین کے معاملات کو صاف رکھے، وراثت کی تقسیم کا خاص خیال رکھے
کیوں کہ اکثر بہنوں کو بعد میں بھائیوں کی طرف سے حصہ میں محروم کر دیا
جاتا ہے ۔وراثت کی تقسیم کے لیے علماءکرام کی طرف رجوع کرے کہ میرے مرنے کے
بعد کتنا کس کو دیا جائے گا۔ورنہ اس نے کتنی ہی نیکیاں کی ہوں اور پاک بازی
کے ساتھ زندگی گزاری ہو ،لیکن اس کی وجہ سے اس کے سارے اعمال غارت ہو جائیں
گے ۔جیسا کہ حدیث نبوی ہے :
ان الرجل لیعمل او المراة بطاعة اللہ ستّین سنة،ثم یحضرھما الموت فیضارّان
فی الوصیة فتجب لھما النار۔(ابوداﺅد:۷۶۸۲)
”ایک انسان مرد اور عورت ساٹھ سال تک اللہ تعالی کی اطاعت کے عمل کرتے رہتے
ہیں پھرجب ان کی موت کا وقت آتا ہے تووصیت میں(وارثوں کو) نقصان پہنچا جاتے
ہیں تو ان کے لیے آگ واجب ہو جاتی ہے“
اسی طرح آدمی وصیت کی سنت پر عمل کرے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:
ما حق امری مسلم یبیت لیلتین و لہ شئی یوصی فیہ الا ووصیة مکتوبة عندہ۔ (تر
مذی : ۳۶۹)
کسی مسلمان کو یہ حق نہیں کہ وہ دوراتیں بھی اس طرح سے گزارے کہ اس کے پاس
کوئی ایسی چیز ہو جس کی وصیت کرنی چاہیے لیکن وہ وصیت کتابت کی صورت میں اس
کے پاس موجود نہ ہو۔
یعنی جس شخص کے پاس امانت ہو یا اس کے ذمہ کوئی قرض ہو یا حقِ واجب ہو خواہ
حقوق اللہ میں سے ہو یا حقوق العباد میں سے ہو،وارث کا حق ہو یا غیر وارث
کاتو اس کے لیے وصیت کرنا واجب ہوگا لیکن اگر کسی کا حق اس کے ذمہ نہ ہو
تواس کے لیے وصیت کرنا واجب نہیں۔
ایک بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے اگر کسی کو سنگین بیماری ہو اور اس کا
آخری وقت ہو تو اس سے جھوٹ نہیں بولنا چاہیے کہ تم ٹھیک ہو جاؤ گے ۔ڈاکٹر
نے کہہ دیا ہے کہ اب بچنے کی امید نہیں ہے لیکن مریض سے کہا جا رہا ہے کہ
آپ اچھے ہو جائیں گے۔اس سے نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی حیات کے حوالے سے
کش مکش کا شکار ہوجاتا ہے اور اسی میں اس کی موت واقع ہوجاتی ہے ۔اسے اللہ
تعالی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کا موقع بھی نہیں ملتا اور نہ ہی
اپنے لین دین ، قرض اور دیگر معاملات کو حل کر پاتا ہے اور غفلت کی حالت
میں ہی اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔
دوسری غلطی لوگ یہ کرتے ہیں کہ مرنے والے کے آخری وقت میں اس کی توجہ بجائے
کلمہ پڑھانے اور اس کی تلقین کرنے کے دوسرے باتوں میں لگانے کی کوشش کرتے
ہیںجیسے کہ چھوٹے بچوں کو آگے بڑھا دیتے ہیں کہ آپ نے اس کو پہچانا؟یا کوئی
پانی پلا رہا یا کوئی کچھ پوچھ رہا ہے۔اس طرح سے اس کو اتناتنگ کر دیا جاتا
ہے کہ وہ یکسوئی سے کلمہ پڑھنا چاہتا ہے تو اس میں اس کی توجہ بھٹکتی ہے
اور شیطان اس وقت اپنا پورا زور لگا رہا ہوتا ہے کہ کسی بھی طرح سے اس کو
آخری وقت میںایمان سے بھٹکا دے۔اس لیے ان سب باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے
اور مرنے والے کے سامنے کلمہ پڑھنا چاہیے کہ وہ سن کر پڑھ لے اور اس کی
زبان سے آخری الفاظ کلمہ ہی ہوں۔
بہت سے لوگ موت کے وقت بے ہوشی کا ٹیکہ لگادیتے ہیں اور یہ کسی بھی صورت
میں صحیح نہیں ہے۔اس سے آدمی کلمہ پڑھنے سے محروم رہ جاتا ہے۔عموماًسکرت
الموت یعنی موت کی شدت اور سختی سب کے لیے ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے بھی اس کو محسوس کیا تھا۔جیسا کہ روایتوں میں آتا ہے:
عن عائشة انھا قالت رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و ھو بالموت و عندہ
قدح فیہ ماءو ھو یدخل یدہ فی القدح ثم یمسح وجھہ بالماءثم یقول اللھم اعنی
علی غمرٰت الموت و سکرات الموت۔(ترمذی:۷۶۹)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کے وصال کا وقت قریب ہوا تو آپ کے پاس ایک پیالہ تھا جس میں پانی بھرا
ہوا تھا۔ آپ اس میں ہاتھ ڈال کر پانی منہ پر ملتے جاتے تھے اور فرماتے تھے
کہ اے اللہ!موت کی بے ہوشیوں یا سختیوں پر میری مدد فرما۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی
سختیاں دیکھیں تب سے میں کسی کی آسان موت پر رشک نہیں کرتی۔پہلے میری خواہش
تھی کہ موت آسان ہو اور جاں کنی کی سختی نہ ہو کہ شاید بری علامت ہے لیکن
جب میں نے یہ دیکھا کہ حضور کو بھی اتنی ہی سختی اور جان کنی میں مبتلا
ہونا پڑا تو میں نے یہ سمجھ لیا کہ یہ کوئی بری علامت نہیں ہے کہ صر ف
بدکردار ہی اس میں مبتلا ہوں بلکہ یہ چیز سب کے لیے عام ہے۔ |