پکاسو سے کسی نے پوچھا کہ فن کار
کب مرتا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ جب اس کے کینوس پر اسکی تخلیق پر چھرا
گھونپ دیا جائے تویہی اس کی موت ہے کیونکہ فن کار صرف اور صرف پذیرائی کا
بھوکا ہوتا ہے اسے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔پاکستان کا المیہ ہے کہ
اس مملکت خداداد میں نہ جانے کتنے ہی فن کار اور شاہکار سینئر وجونیئر
حکومتی سطح پر پذیرائی نہ ملنے اور معاونت نہ ہونے کی بنا پر اپنی موت آپ
مرجاتے ہیں اور انکا فن جسے وہ دنیا سے روشناس کرانا چاہتا ہے بے حس اور بے
ادبی کی دبیز تہہ میں کھو جاتا ہے آج کی کہانی بھی ایسے ہی ایک فنکار کے
حوالے سے ہے جو کہ دریائے ستلج کے پہلو میں واقع ایک پسماند ہ موضع منگوانی
کا رہائشی ہے جو کہ گلزار ندیم سے اپنی شناخت اور پہچان بنانے کی تگ ودو
میں عرصہ دراز سے مصروف عمل ہے اس نے نامساعد حالات اور وسائل کی شدید کمی
کے باوجود عربی کیلی گرافی پر پر تحقیق کام کیا اس کا م کی خاصیت بسم اﷲ
الرحمن الرحیم کو تین ہزار مختلف طغروں میں لکھنے کا شرف ہے
2004-2007-2010میں لاہور الحمرا آرٹس کونسل،پنڈی آرٹس کونسل اسلام آباد ،ملتان
آرٹس کونسل ،اولمپیا ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام بھی فن پاروں کی نمائش
ہوچکی ہے جس میں اہل ذوق نے اس کے فن اور فنکار کو سراہا۔
غربت کی چکی میں پسے گلزار ندیم نے خطاطی کی تاریخ کے حوالے سے ریڈیو
پاکستان کے پروگرام صبح پاکستان میں اپنی خدمات بھی سرانجام دیں۔انہوں نے
متروک اور قدیم خطوط کو زندہ کیا جس میں خط بہار ،خط ماہی ،خط توقیع،خط
ریحان ودیگر شامل ہیں ۔کچے مکان کا یہ رہائشی خطاط اور مصور اپنے فن کو آج
نامساعد حالات کی بنا پر بیچنے پر مجبور ہے اسے اس کے علاوہ کوئی چارہ
دکھائی نہیں دیتا اپنے گھر والوں اور بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے صرف پذیرائی
اور واہ واہ سے تو کام نہیں چلتا ہے ۔آج وہ ایک چھوٹی سے دکان سجائے پینٹر
کے طور پر کام کررہا ہے اس کے باوجود اس کا عزم ہمت اور حوصلہ ان تمام
مسائل کو پس پشت ڈال دیتا ہے ۔’’ہر ان پڑھ خوش نویس پینٹر ہوتا ہے ‘‘کہ اس
مقولے کو جھٹلاتے ہوئے گلزار ندیم اپنے گھر پر رات گئے تک فن پارے تخلیق
کرتا ہے اورپھر ان کو بڑی بڑی آرٹ گیلریز میں نہایت ازاں قیمت پر خرید لیا
جاتا ہے اسکی قیمت اور اہمیت کے مطابق کئی گنا قیمتوں پر فروخت کردیا جاتا
ہے لیکن وہ ابھی قانع ہے کہ چلو کم از کم با عزت طور پر پیٹ کا دوزخ تو
بھراجارہا ہے ۔کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی نوبت تو نہیں آتی اور کہیں نہ
کہیں کسی سٹیج پر اس کا فن بھی زند ہ ہے ۔
نہ میرے بس میں نظام عالم ،نہ دل پہ ہے اختیار آقا
اسی کشاکش میں کرلیا ہے ضمیر کو تار تار آقا
نہ جانے کس وقت دست تقدیر چھین لے مجھ سے میرا سب کچھ
یہ فن جہان میں زندہ رہے فقیر کی یاد گار آقا
پاکستان میں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ڈرامہ بازی اوردو نمبر ی کا مظاہر ہ کر
کے آج کا ہر شخص اپنے اپنے کام سنوارنے میں جتاہوا ہے ۔اصلی سچے اور کھرے
لوگوں کی قدر سے معاشرہ نا بلد ہوتا جارہا ہے ۔جی حضور ی اور جوتے اٹھانے
والوں کی چاند ی ہے مگر سچے اور خوددار لو گ پس منظر میں چلے جاتے ہیں اسی
بات کو لے لیجئے کہ عبدالرحمن چغتائی ،استاد اﷲ بخش ،صادقین ،گل جی جیسے
مشہور ومعروف خطاط ومصور گزرے ہیں جنہوں نے ہزار ہا شاہکار اور فن پارے
تخلیق کیے اور دنیا بھر سے پذیرائی حاصل کی لیکن حکومتی سطح پر ان کی
پذیرائی کا یہ عالم ہے کہ کسی آرٹ کونسل کسی سٹرک کسی چوک کسیعمارت یا کسی
شے کوان میں سے کسی کے نام منصوب نہ کیا جاسکا بے حسی اور بے ادبی کی انتہا
ہے ۔حکومت کو اس خطاطی اور مصوری کی میراث کو محفوظ کر نے والے ایسے
فنکاروں اور کلاکاروں کی سنجیدگی کے ساتھ سرپرستی کرنی چاہیے تاکہ مصوری
اور خطاطی کا فن زندہ رہ سکے ۔
|