انگریزی سال میں کل 365دن ہوتے ہیں ان 365دنوں میں سے
162دن کسی نہ کسی واقعے ،شخصیت یا کسی جذبے کے تحت منائے جاتے ہیں ۔یکم مئی
کو لیبر ڈے کے حوالے سے منایا جاتا ہے 1866 میں اس دن کا آغاز ہواتھا .جب
اسٹارک ہار ویسٹر کے 80 ہزار مزدوروں نے اپنے مطالبات حکومت تک پہچانے کے
لئے احتجاج شروع کیا تھا یکم مئ 1866 کو امریکی شہر شکاگو کے تمام کارخانوں
میں ہڑتال رہی 3 مئ کو ہڑتالی مزدوروں نے بہت بڑا جلسہ کیا جس کو انتظامیہ
نے سرمایہ داروں کے کہنے پر روکنے کی بھر پورکوشش کی اس جلسے میں پولس نے
بلاوجہ فائرنگ بھی کی جس میں پانچ مزدور ہلاک ہوگئے اس کے رد عمل میں
مزدوروں نے 4 مئی کو شکا گوشہر میں ایک اور بڑی ریلی منعقد کرکے 3 مئی کو
ہونے والی المناک ہلاکت پر احتجاجی تقاریر کیں. پولس نے اس ریلی میں بھی
گولیاں چلائی اورگیارہ مزدوروں کو موت کی نیندسلادیا. اس دردناک حادثہ کے
بعد نے مزدوروں نے اپنی قمیص خون میں ڈبو کر اس کا جھنڈا بنایا . پھر یہیں
سے سرخ رنگ کاپرچم اور بذات خود یہ رنگ مزدوروں کا خاص نشان بن گیا. اور
یکم مئ کو عالمی یوم مزدور منانے کاسلسلہ شروع کردیا گیا.
اب اس دن دنیا بھر میں مزدوروں کے حق میں کانفرنسیں اور سیمینارز منعقد
کیئے جاتے ہیں ،ہندوستان میں بھی یکم مئی کو چھٹی کی جاتی ہے اور مزدوروں
کے حق میں ریلیاں نکالی جاتی ہیں لیکن کیا یکم مئی کے بعد مزدور کو حقوق
ملنا شروع ہو جاتے ہیں ،ہرگز نہیں یکم مئی کے بعد دو مئی کا سورج اپنی
پرانی آب و تاب کے ساتھ طلوع ہو تا ہے اور ظلم کا دریا پہلے سے ذیادہ تیزی
سے بہنا شروع ہو جاتا ہے ۔ہمار ا جاگیر دار کبھی مزدور کے ساتھ مخلص نہیں
ہوا اور نہ ہو گا کیوں کہ ظلم کے بغیراس کا کارو با رنہیں چلتا ،اگر جاگیر
دار مزدور کے ساتھ اتنا ہی مخلص ہے تو پارلیمنٹ کے باہرکوئی سائیکل کھڑی
کیوں نظر نہیں آتی ،مزدور کو قانون سازی کا حق کیوں نہیں دیا جاتا ،ٹھنڈے
کمروں میں بیٹھ کر قانون سازی کرنے والوں کو کیا معلوم مزدور کے مسائل کیا
ہیں ؟اوریکم مئی کو بڑے بڑے ہوٹلوں میں سیمینار منعقد کرنے والوں کو کیا
معلوم ایک دیہاڑی دار مزدور کا گھر کیسے چلتا ہے ۔ یہ حقیقت ہے ہمارا جاگیر
داراورہمارے پرائیویٹ مالکا ن ظالم بھیڑیے ہیں جو اپنے ملازم کی چھوٹی سی
غلطی بھی برداشت نہیں کرتے اور اس کی دس سالہ خدمات کو بھول کر فورا اسے
فارغ کر دیتے ہیں ،وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ بھی ہماری طرح کا انسان ہے
اور کچھ حق اور کچھ مجبوریاں یہ بھی رکھتا ہے ۔کا ش ایسا ہوجاتاکہ یکم مئی
کو نمائشی جلسے اور ریلیاں منعقد کرنے کی بجائے یہ دن کسی گامے ،نورے اور
فضلو کے ساتھ منایا جاتا اور اس کے دکھ درد کا احساس کیاجاتا ۔یہ حقیقت ہے
جب تک ہم یکم مئی کو کسی مزدور کی آنکھ ،کان ،ہاتھ اور پاؤں بن کر نہیں
دیکھیں گے اس وقت تک یکم مئی سے کسی قسم کا سبق حاصل نہیں ہو گا اور اس وقت
تک یہ مزدور طبقہ اسی طرح ظلم کی چکی میں پستا رہے گا۔ |