وفاق المدارس…… تاریخی پس منظر

مذہب، سیاست اور علم ومعرفت کا طالب علم اگر بیسویں صدی عیسوی کی مذہبی، سیاسی اور علمی تاریخ کا بغور جائزہ لے تو اسے دارالعلوم دیوبند اس میدان کا مینارۂ نور اور اس آسمان کا آفتاب عالم تاب نظر آئے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ 1830ء کی تحریک جہاد اور اس کے بعد 1857ء کی جنگ آزادی میں یکے بعد دیگرے شکستوں سے مسلمانوں کے حوصلے پست ہونے چاہیے تھے، مگر وہ پختہ کار مجاہدین اور راسخ علماء جو حضرت شاہ ولی اﷲ اور ان کے خانوادے کے سیاسی ومذہبی علوم وافکار کے امین تھے، حوادث زمانہ کی تلاطم خیز موجوں کے سامنے سد سکندری ثابت ہوئے۔ چنانچہ ان ہی علماء کے ایک گروہ نے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کی سرپرستی میں 1867 ء کو ہندوستان کے ایک قصبے دیوبند میں ایک مدرسہ قائم کیا اور اسے علم ومعرفت کے ساتھ ساتھ اپنے مذہبی وسیاسی خیالات وعزائم کی اشاعت کا مرکز بھی بنایا۔ اﷲ رب العزت نے ان پاکیزہ نفوس اولو العزم نائبین رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی مساعی جمیلہ کو ایسا بار آور فرمایا کہ ان کے لگائے ہوئے شجر نے عباقر ونوابغ، فلاسفہ ومشایخ، صوفیاء ومحدثین، علماء ومجاہدین کی صورت میں ایسا پھل دیا، جو اپنے مبارک ہاتھوں میں ایک طرف دینی قیادت کی مشعل اور دوسری طرف اسلامی سیاست کا پرچم تھامے ہوئے تھے۔ جنہوں نے تن، من، دھن کی بازی لگا کر دعوت وتبلیغ اور سیف وقلم کے وہ کارہائے نمایاں انجام دئیے، جن کی مثال پیش کرنے سے رہتی دنیا کی کوئی اور درسگاہ قاصر ہے۔

ان مجاہدین نے اپنی شمعِ فکر کی ضیا پاشیوں سے نہ صرف ہندوپاک کو منور کیا، بلکہ پوری دنیا اور خاص کر عالمِ اسلام کے کونے کونے کو وہ تابانی بخشی کہ آج اس کی وجہ سے دنیا کا ایک عظیم حصہ بقعۂ نور بنا ہوا ہے۔ ان علماء نے علوم کے چراغ روشن کئے، مذہب کی اشاعت کی، بدعات وخرافات کا قلع قمع کرکے معاشرے کی اصلاح کی۔ اسی لئے اس دارالعلوم کے قیام کے کچھ ہی عرصے بعد اس کے طرز پر ایک مدرسہ سہارنپور میں اور ایک مراد آباد میں بنا، جو فی الحقیقت دارالعلوم کی شاخیں تھیں، برصغیر میں ان شاخوں کی تعداد بڑھتے برھتے سینکڑوں کیا ہزاروں کی تعداد تک پہنچ گئی ہیں۔

اب یہ مدارسِ دینیہ مذہبِ اسلام کے وہ قلعے ہیں، جہاں اسلامی فوجوں کی تشکیل و تنظیم ہوتی ہے اور جہاں سے اسلام دشمن طاقتوں کے چیلنج قبول کئے جاتے ہیں، قرآن، حدیث اور فقہ کی تعلیمات سے لیس ہوکر یہاں کی فوجیں میدانِ مبارزت میں نکلتی ہیں، ان علوم کے حاملین ایک طرف تو حق وصداقت اور عدل وانصاف پر مبنی افکار وخیالات کی اشاعت کرتے ہیں ور دوسری طرف ملحدانہ خیالات اور باطل نظریات کی بیخ کنی بھی، ان مدارس میں قال اﷲ اور قال الرسول کی صدائیں گونجتی ہیں، اﷲ ورسول کے احکام کے مطابق سیرتوں کی تعمیر کا جذبہ بیدار ہوتا ہے، معاشرے میں رائج واہیات وخرافات قسم کے تمام رسوم ورواج کو نیست ونابود کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ’’أشداء علی الکفار رحماء بینھم‘‘ کے قیمتی درس دئیے جاتے ہیں اور اﷲ کی زمین پر اﷲ ہی کی حکومت کا خیال دلوں پر نقش کرایا جاتا ہے، یہ تمام کوششیں مدارس کی چاردیواری ہی میں ممکن ہیں۔

تأسیس وفاق
یہ مدارس جہاں جہاں قائم ہوئے تھے، اپنی بساط و استطاعت کے مطابق دینی فرائض انجام دے رہے تھے، ہماری اس خداداد مملکت میں بھی ایسے بے شمار ادارے معرض وجود میں آئے، جو غیر منظم اور منتشر انداز میں خدمتِ دین بجالارہے تھے، کہ اﷲ تعالیٰ نے ہمارے بزرگوں کے قلوب میں ان کی تنظٰم وترتیب، شیرازہ بندی وہم آہنگی القاء فرمائی، ان اکابر نے ایک ایسے ادارے کی تشکیل کے لئے مساعی کا آغاز کیا، جو ملک بھر کے مدارس کی نمائندگی کرے۔

چنانچہ بالآخر جن کوششوں کا آغاز ہوا تھا، وہ ثمرآور ہوئیں،20شعبان المعظم 1373ھ مطابق 22مارچ 1957کو جامعہ خیر المدارس ملتان کی مجلس شوریٰ کا اجلاس ہورہا تھا، (جامعہ خیر المدارس کی مجلس شوریٰ ملک کے عظیم علماء کرام پر مشتمل تھی) اجلاس کے دوران اپنی اہمیت کے پیشِ نظر یہ مسئلہ بھی زیرِ بحث لایا گیا اور پہلی مرتبہ اس معاملہ کو ایک اہم مسئلہ تسلیم کرتے ہوئے مناسب لائحہ عمل طے کرنے کے لئے مولانا شمس الحق افغانیؒ کی تحریک وتجویز پر پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی، مولانا خیر محمد جالندھریؒ، مولانا شمس الحق افغانیؒ، مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ اور مولانا مفتی محمد عبداﷲ ملتانیؒ اس کمیٹی کے رکن اور مولانا احتشام الحق تھانویؒ اس کمیٹی کے کنونیر مقرر ہوئے اس کمیٹی کا ہدف مدارس عربیہ کی بقاء وتحفظ ، تنظیم وترقی، نصاب تعلیم کی ترتیب، معیارِ تعلیم کی بہتری اور ملت کے اتحاد میں دینی مدارس کے کردار کو مؤثر اور فعال بنانا تھا اور یہی کمیٹی وفاق المدارس العربیہ کے قیام کے لئے پیش خیمہ ثابت ہوئی۔

اس کنوینسنگ کمیٹی نے دائرہ عمل کو وسعت دینے اور مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرنے کے لئے ملک بھر کے جیّد علماء کرام اور اکابرین کی ایک سہ روزہ کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا، چنانچہ یہ کانفرنس ۲۴، ۲۳، ۲۲ شوال ۱۳۷۸ھ کو دارالعلوم الاسلامیہ اشرف آباد (ٹنڈوالہ یار) میں منعقد ہوئی، اس میں تعلیمی وتنظیمی معاملات نہایت تفصیل سے زیرِ بحث لائے گئے، مدارسِ دینیہ کی شیرازہ بندی، نظم ونسق، درس وتدریس اور نصاب وترتیب کے لئے آغازِ کار کے طورپر باتفاق آراء جید علمائے کرام پر مشتمل ایک تنظیمی کمیٹی تشکیل دی گئی۔

اس کمیٹی کے صدر جناب مولاناخیر محمد صاحب جالندھریؒ منتخب ہوئے، جب کہ دیگر ارکان میں حضرت مولانا شمس الحق صاحب افغانیؒ، حضرت مولانا احمد علی صاحب لاہوریؒ، حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ اور حضرت مولانا محمد صادق صاحب بہاولپوریؒ کے اسماء شامل تھے، کانفرنس نے صدرِ مجلس کو کمیٹی کے ارکان کی تعداد میں مناسب اضافہ کا اختیار بھی دیا، چنانچہ صدرِ مجلس حضرت مولانا جالندھریؒ نے مندرجہ ذیل علمائے کرام کو بطورِ رکن کمیٹی نامزد فرمایا:
۱-حضرت مولانا فضل احمد صاحب کراچی، ۲-حضرت مولانا مفتی محمد عثمان صاحب کراچی، ۳-حضرت مولانا عرض محمد صاحب کوئٹہ، ۴-حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کراچی، ۵-حضرت مولانا محمد علی صاحب جالندھریؒ ملتان، ۶-حضرت مولانا مفتی محمد عبداﷲ صاحب ملتان، ۷-حضرت مولانا عبداﷲ صاحب جالندھری ساہیوال۔

انتخاب وآغاز
حضرت مولانا خیر محمد جالندھری کی زیرِ صدارت اس کمیٹی کے بعد میں دو اجلاس منعقد ہوئے، پہلا اجلاس ۱۶، ۱۷ ذی قعدہ اور دوسر اجلاس ۲۷، ۲۶ ذی الحجہ ۱۳۷۸ھ ، دوسرے اجلاس میں تنظیمی کمیٹی کے ارکان کے علاوہ چند سرکردہ علماء کرام بھی خصوصی دعوت پرشریک ہوئے، جن میں حضرت مولانا مفتی محمود صاحبؒ، مولانا محمد عمر صاحب، مولانا محمد شفیع صاحب سرگودھا، مولاناعبدالحق صاحب اکوڑہ خٹک، مولانا عبدالخالق صاحب کبیروالا، علامہ خالد محمود صاحب سیالکوٹ، مولانا حافظ عبدالمجید صاحب فیصل آباد، مولانامحمد شفیع صاحب ملتان اور مولانا عبدالکریم صاحب کلاچی کے اسماء خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

اجلاس میں مدارس کے تعلیمی امور، تعلیمی معاملات اور اصلاح نصاب کے لئے اقدامات پر غور کیا گیا، اور بالآخر متفقہ طور پر ایک وفاقی بورڈ قائم کرنے کا فیصلہ ہو۔ اس بورڈ کانام ’’وفاق المدارس العربیہ پاکستان‘‘ رکھا گیا۔ اس کے اغراض ومقاصد اور دستوری خاکہ مرتب ہوا۔ نیز اس اجلاس نے طے کیا کہ ماہ ربیع الثانی ۱۳۷۹ھ میں جملہ مدارس عربیہ کے نمائندوں کا ایک اجلاس رکھا جائے، جس میں مرتبہ دستور کی منظوری حاصل کیجائے اور تین سال کے لئے ’’وفاق‘‘ کے عہدیداران کا انتخاب بھی کیا جائے، اس انتخاب کے بعد تنظیمی کمیٹی اپنے فرائض سے سبکدوش ہوکر خودبخود ختم ہوجائے گی۔

’’تنظیمی کمیٹی‘‘ کے اجلاس منعقدہ ۱۷، ۱۶، ۱۳۷۸ھ ، ۲۵، ۲۴ جون ۱۹۵۹ء میں طے شدہ پروگرام کے تحت ۱۵، ۱۴ ربیع الثانی ۱۳۷۹ھ بمطابق ۱۹، ۱۸ اکتوبر۱۹۵۹ء کو مجوزہ ’’وفاق المدارس العربیہ پاکستان‘‘ کا پہلا اجلاس حضرت مولانا خیر محمد صاحب جالندھریؒ کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس کی تین نشستیں ہوئیں، ان میں تنظیمی کمیٹی کا مرتب کردہ ’’وفاق المدارس العربیہ پاکستان‘‘ کادستور بعض ضروری ترامیم کے ساتھ منظور کیا گیا اور آئندہ تین سال کے لئے وفاق کے عہدیداروں کا انتخاب عمل میں لایا گیا، حسبِ ذیل عہدیدار منتخب ہوئے:
صدر: حضرت مولانا شمس الحق صاحب افغانیؒ، نائب صدر نمبر۱: حضرت مولانا خیر محمد صاحب جالندھریؒ ، نائب صدر نمبر۲: حضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوریؒ، ناظم اعلیٰ: حضرت مولانا مفتی محمود صاحبؒ، ناظم: حضرت مولانا محمد ادریس میرٹھی، خازن: حضرت مولانا مفتی محمد عبداﷲ صاحبؒ۔

صدر وفاق حضرت مولانا شمس الحق صاحب نے دیگر عہدیداران کے مشورے سے درج ذیل حضرات کو وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی پہلی مجلس عاملہ کے لئے بطور ارکان نامزد فرمایا۔

پہلی مجلس عاملہ
۱- حضرت مولانا احتشام الحق صاحب تھانوی، مہتمم دارالعلوم الاسلامیہ اشرف آباد (ٹنڈو الہ یار)۔ ۲-حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب، مہتمم دارالعلوم کراچی۔ ۳- حضرت مولانا فضل احمد صاحب، مہتمم مدرسہ مظہر العلوم کھڈہ، کراچی۔ ۴-حضرت مولانا عرض محمد صاحب، مہتمم مدرسہ مطلع العلوم کوئٹہ (بلوچستان)۔ ۵-حضرت مولانا مفتی محمد صادق صاحبؒ، سابق ناظم محکمہ امور مذہبیہ ریاست بہاولپور۔ ۶-حضرت مولانا عبیداﷲ صاحب، نائب مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور۔ ۷-حضرت مولانا احمد علی صاحب لاہوریؒ، مہتمم مدرسہ قاسم العلوم شیرانوالہ گیٹ لاہور۔ ۸-مولانا پروفیسر یوسف علی سلیم صاحب چشتی ایڈیٹر ’’ندائے حق‘‘ لاہور۔ ۹-حضرت مولانا محمد عبداﷲ صاحبؒ رائے پوری صدر مدرس جامعہ رشیدیہ ساہیوال۔ ۱۰-حضرت مولانا محمد شفیع صاحبؒ، مہتمم سراج العلوم، سرگودھا۔ ۱۱-حضرت مولانا عبدالحنان صاحب، مہتمم دارالعلوم حنفیہ عثمانیہ راولپنڈی۔ ۱۲-حضرت مولانا سید گل بادشاہ صاحبؒ، امیر نظام العلماء صوبہ سرحد۔ ۱۳-حضرت مولانا عبدالحق صاحب، مہتمم دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک (پشاور)۔ ۱۴-حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مہتمم مدرسہ تجوید القرآن ضلع ہزارہ۔ ۱۵-حضرت مولانا محمد علی صاحب جالندھریؒ، مہتمم مدرسہ منور الاسلام، چک ۴۴۹/ گ ب ضلع فیصل آباد۔ ۱۶-حضرت مولانا قاضی عبدالکریم صاحب، مہتمم مدرسہ نجم المدارس کلاچی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان۔

دوسری مجلس عاملہ
مجلس عاملہ کا دوسرا جلاس منعقدہ ۱۳۸۲ھ میں صدارت کے لئے مولانا خیر محمد صاحبؒ، نائب صدر اول: مولانا محمد یوسف بنوریؒ، نائب صدر دوم: مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ، سرگودھا، ناظم اعلیٰ کے لئے مفتی محمودؒ صاحب اور ناظم کے منصب کے لئے مولانا محمد ادریس صاحب میرٹھی کا انتخاب عمل میں آیا۔

تیسری مجلس عاملہ
مطابق ۳۰ مئی ۱۹۷۳ء میں صدر مولانا محمد یوسف بنوریؒ اور نائب صدر اول مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک، نائب صدر دوم مولانا عبداﷲ صاحب ساہیوال مقرر ہوئے۔

مولانا مفتی محمودؒ ناظم اعلیٰ، مولانا محمد ادریس صاحب میرٹھی نائب ناظم اول، اور مولانا محمد عبداﷲ صاحب ملتان نائب ناظم دوم مقرر ہوئے۔

چوتھی مجلس عاملہ
۱۳۹۸ھ کے اجلاس میں مولانا مفتی محمودؒ صاحب کو صدر اور مولانامحمد ادریس صاحب میرٹھی کو ناظمِ اعلیٰ منتخب کیا گیا۔

پانچویں مجلس عاملہ
۲۱ محرم ۱۴۰۱ھ مطابق ۳۰ نومبر ۱۹۸۰ء کے اجلاس میں حضرت مولانا عبدالحقؒ کو سرپرست اور مولانا محمد ادریس صاحب میرٹھی وفاق کے صدر مولانا عبیداﷲ صاحب مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور، نائب صدر: مولانا سلیم اﷲ خان صاحب، مہتمم وشیخ الحدیث جامعہ فاروقیہ کراچی،ناظم اعلیٰ اور مفتی محمد انور شاہ صاحب، مفتی جامعہ قاسم العلوم ملتان ناظم منتخب ہوئے اور صدر نے درج ذیل حضرات کو مجلس عاملہ کے لئے رکن نامزد فرمایا۔

۱-مولانا مفتی احمد الرحمن صاحب کراچی، ۲-مولانا محمد رفیع صاحب کراچی، ۳-مولانا قاضی عبدالکریم صاحب کلاچی، ۴-مولانامحمد ایوب جان صاحب بنوری پشاور، ۵-مولانا مفتی زین العابدین صاحب فیصل آباد، ۶-مولانا محمد حنیف صاحب جالندھری ملتان، ۷-مولانا احمد اﷲ صاحب ٹیڑھی، ۸-مولانا غلام محمد صاحب کولاب جیل، ۹-مولانا سمیع الحق صاحب اکوڑہ خٹک، ۱۰-مولانا محمد عبداﷲ صاحب اسلام آباد، ۱۱-مولانا عبدالمجید صاحب کہروڑ پکا، ۱۲-مولانا محمد امین صاحب کوہاٹ، ۱۳-مولانا عبدالواحد صاحب کوئٹہ، ۱۴-مولانا مفتی غلام قادر صاحب خیرپورٹامیوالی، ۱۵-مولانا محمد حسن جان صاحب پشاور، ۱۶-مولانا محمد یوسف صاحب آزاد کشمیر۔

چھٹی مجلس عاملہ
اجلاسِ عاملہ منعقدہ ۸ جمادی الاخری ۱۴۰۴ھ مطابق ۱۲ مارچ ۱۹۸۴ء میں موجودہ قیادت پر مکمل اعتماد کرتے ہوئے پانچویں مجلس عاملہ کے منتخب عاملہ کو برقرار رکھا اور مجلسِ شوریٰ کے اجلاس منعقدہ ۹ جمادی الاخری ۱۴۰۴ھ مطابق ۱۳ مارچ ۱۹۸۴ء میں مجلس عاملہ کے اس فیصلے کی توثیق کی گئی۔

وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مذکورہ بالا تنظیم کے بعد سے اب تک بالترتیب مندرجہ ذیل علماء مختلف سیشنوں میں عہدیدار منتخب ہوتے رہے:

وفاق المدارس کے ابتداء سے اب تک عہدیداران کی تفصیل
(از ۱۹۵۷ء تا ۲۰۰۷ء)
 

image

مجلسِ عاملہ
وفا ق المدارس العربیہ پاکستان کی پہلی مجلس عاملہ میں شامل حضرات کے علاوہ اب تک جو علمائے کرام مجلسِ عاملہ کے ارکان نامزد ہوتے آئے ہیں، ان کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:
مولانا محمد احمد صاحب تھانوی، علامہ علاؤ الدین صدیقی (وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی) ، مولانا عبدالرحمن صاحب چارسدہ، مولانا عبیداﷲ صاحب انور لاہور، مولانا حامد میاں صاحب لاہور، مولانا ظفر احمد صاحب ٹنڈوالہ یار، مولانامحمد ایوب جان صاحب بنوری پشاور، مولانا عبیداﷲ صاحب لاہور، مولانا فضل احمد صاحب فقیر والی، مولاناقاری عبدالسمیع صاحب سرگودھا، مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ملتان، مولانامفتی غلام قادر صاحب خیرپور ٹامیوالی، مولانا قاری سعید الرحمن صاحب راولپنڈی، مولانا منظور الحق صاحب کبیروالا، مولانا عبدالغنی صاحب فیصل آباد، مولانا عبدالرؤف صاحب پشاور، مولانا محمد شریف صاحب جالندھری ملتان، مولانا محمد علی صاحب کبیروالا، مولانا عبدالواحد صاحب کوئٹہ، مولانا مفتی احمد الرحمن صاحب کراچی، مولانا مفتی محمد انور شاہ صاحب بنوں، مولانا محمد یوسف صاحب پلندری (آزاد کشمیر)، مولانا سمیع الحق صاحب اکوڑہ خٹک، مولانامحمد امین صاحب کوہاٹ، مولانا عبدالمجید صاحب کہروڑ پکا، مولانا قاری محمد حنیف صاحب جالندھری ملتان، مولانا مفتی زین العابدین صاحب فیصل آباد، مولانا محمد عبداﷲ صاحب اسلام آباد، مولانا غلام محمد صاحب کولاب جیل، مولانا محمد اسعد صاحب تھانوی کراچی، مولانا محمد رفیع صاحب عثمانی کراچی، مولانا محمد اسماعیل صاحب کراچی، مولانا حبیب اﷲ صاحب ساہیوال، مولانا فیض احمد صاحب ملتان، مولانا محمد حسن جان صاحب پشاور، مولانا حمد اﷲ صاحب ٹھیڑی، مولانا امین الحق صاحب باغ آزاد کشمیر، مولانا مفتی کفایت اﷲ صاحب مانسہرہ، مولانا محمد انور صاحب کبیروالا، مولانا عبدالغفور قاسمی صاحب ٹھٹھہ، مولانا عبدالحق کوثر صاحب، مولانا قاری مہر اﷲ صاحب کوئٹہ، مولانا فضل الرحمن درخواستی صاحب رحیم یار خان، مولانا نذیر احمد صاحب فیصل آباد، مولانا فضل الرحیم صاحب لاہور، مولانا مشرف علی تھانوی صاحب لاہور، مولانا انوارالحق صاحب اکوڑہ خٹک، مولانا نصیب علی شاہ صاحب بنوں، مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر کراچی، مولانا مفتی محمد خالد صاحب ھالا (حیدرآباد)، مولانا عطاء اﷲ صاحب گلگت، مولانا عبدالحیٔ صاحب کوئٹہ، مولانا محسن شاہ صاحب ڈی آئی خان، مولانا عبداﷲ جان کوئٹہ، مولانا قاضی عبدالرشید صاحب اسلام آباد، مولانا قاری عبدالرحمن صاحب خضدار، مولانا حافظ حسین احمد مردان، حضرت مولانا ادریس صاحب کنڈیارو، مولانا ڈاکٹر سیف رحمن حیدر آباد، مولانا محمد اکمل جتوئی نواب شاہ، مولانا میر حسن صاھب لاڑکانہ اور مولانا قاضی محمود الحسن صاحب مظفر آباد۔

اجمالی کارکردگی
جن امور کے پیش نظر تنظیم وجود میں آئی تھی، اور جن اہداف ومقاصد کے لئے اس کی بنیاد ڈالی گئی تھی، ان کے حصول کے لئے مسلسل کوشش مؤثر اور بے داغ کردار ادا کرنے کی وجہ سے ’’وفاق المدارس‘‘ کو ملک بھر میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی، جامع نصاب کی ترتیب، شہادات کا اجراء جدید علوم وفنون اور عصری تقاضوں کے پیشِ نظر مروجہ نصاب میں ترمیم وتصرف، فکری ہم آہنگی، نظامِ تعلیم، امتحانات کی یک جہتی، مدارس کے بقاء واستحکام کی خاطر مؤثر اقدامات اور دیگر لامحدود فوائد اور مصالح کا مشاہدہ کیا گیا تو اہل علم اور مدارس عربیہ کے ارباب بسط وکشاد کو ’’وفاق المدارس‘‘ کی ضرورت کا احساس ہوا، اور جوں جوں مدارس عربیہ پر اس کا کردار واضح ہوتا گیا، اور دینی حلقوں کو اس کی افادیت کااحساس ہونے لگا، وفاق سے وابستگی اور اس کے ساتھ الحاق کی اہمیت اور بھی نکھر کر عیاں ہوتی گئی، یوں اس سلسلۃ الذہب کی کڑیاں اب سات ہزار کے لگ بھگ ہیں۔
(سہ ماہی وفاق، رجب ، شعبان، رمضان ۱۴۲۱ھ)
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 818374 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More