ہندوستان کی سرزمین پر خدائے
وحدہ لا شریک کے آخری اور پسندیدہ دین کی جوخوشبو پھیلی ہے اور اس کے گوشے
گوشے میں آج اسلامی تہذیب و تمدن اور مذہبی ثقافت و کلچر کی جو بوقلمونیاں
نظر آرہی ہیں اس کے پیچھے صرف اور صرف والی ہند خواجہ غریب نواز اور ان کے
مخلص خلفاء کی جانفشانیاں کار فرما نظر آتی ہیں ۔مشائخ چشت نے جس طرح پوری
تن دہی ، لگن ،اور دل چسپی سے اسلام کا پیغام پہنچانے کی کوشش کی اس کی
نظیر ملنا دشوار ہے اور اس راہ میں جس چیز نے مشائخ چشت کوہر محاذ اور ہر
علاقہ میں کامیاب بنایاوہ مخلوق خدا کے تئیں ان کی نرمی ، ملنساری اور خدمت
کے جذبات تھے جو بلا تفریق مذہب و نسل سب کے لیے یکساں تھے ، خدمت خلق کا
جو تصور چشتی بزرگوں نے دیا اور خود اپنے اپنے دور میں اس کا جوعملی نمونہ
پیش کیا اس نے باشندگان ہند کو ان سے قریب سے قریب کر دیا اور ان کی
خانقاہیں مختلف مذاہب و نسل کے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئیں اس کے بعد
یکے بعد دیگرے اہالیان ہند کے سینوں میں ان پزرگوں کے تقدس سے اسلام کی شمع
روشن ہوتی چلی گئی ۔
مشائخ چشت کے یہاں مخلوق کی خدمت، ان کی حاجت روائی اور پریشانیوں میں ان
کی غم گساری کا سلسلہ عبادت سے جڑا ہوا ہے بلکہ خدمت خلق کو وہ بعض عبادتوں
سے کئی جہت سے بہتر اور افضل جانتے ہیں مخدوم شیخ شرف الدین یحییٰ منیری
چشتی فرماتے ہیں :
,, خدمت کرنے میں بڑے بڑے فوائد ہیں اور کچھ ایسی خاصیتیں ہیں جو اور کسی
عبادت میں نہیں ایک تو یہ کہ نفس سر کشی مر جاتا ہے اور بڑائی کا گھمنڈ
دماغ سے نکل جاتا ہے ۔۔آدمی کا ظاہر و باطن صاف اور روشن ہو جاتا ہے یہ سب
فائدے خدم ت خلق ہی کے لیے مخصوص ہیں ،، (مکتوبات صدی ،مکتوب نمبر۷۱)
خدمت خلق کو عبادت کے درجہ میں رکھنے اور تصور کرنے کی وجہ ہی سے مشائخ چشت
نے ہر دور میں خدمت خلق کو سر فہرست رکھا اور اسے اولیں ترجیحات میں جگہ دی
اور یہیں سے بیعت و ارادت کے باب میں سلسلہء چشت کی تاریخ میں یہ روایت
پوری آب وتاب کے ساتھ ملتی ہے کہ جب بھی وہ کسی کو اپنی خلافت سے نوازتے
اور خرقہ ارادت پہناتے اس وقت سب سے پہلے یہ وصیت کی جاتی کہ مخلوق خدا کی
ہر طرح خدمت کرنا ان پر لازم و واجب ہے اور اس سلسلہ میں اگر انہیں خود
پریشان و سر گرداں ہونا پڑے یا ان کے آرام میں دقت پیدا ہو تو اس کی پرواہ
نہ کی جایے اور خدا کی مخلوق کی خد مت برابر جاری رکھی جایے حضرت شاہ کلیم
اﷲ جہان آبادی اپنے ایک خلیفہ کو خط لکھ کر فرماتے ہیں :
فیض دینی و دنیوی بہ عالم رسانید و ہمہ حلاوت و عیش خود فداے آں بندگاں
باید کرد ،،یعنی دینی اور دنیوی فیض دینا کو پہنچاؤ اپنا عیش و آرام اور
راحت انسانوں پر فدا کر دو ،، ( مکتوبات کلیمی ص:۶۰)
خدمت خلق کے اس جذبہ کے ساتھ چشتی خلفاء نے جن علاقوں کی طرف رخ کیا وہاں
بھائی چارگی ، رواداری ، ملنساریااور باہمی تعاون کی بہاریں اپنے شباب پر
پہنچ گئیں اور ہندو ، مسلم ، سکھ اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے دلوں
میں ان کے یے احترام اور عقیدت کے جذبات پیدا ہو گیے جو اسلام کو پھیلانے
میں زبردست تعاون کرتے تھے ۔
مشائخ چشت نے خدمت خلق کا جو تصور دیا اور محسوس دنیا میں اس کے عملی نمونے
پیش کرکے دکھائے وہ صرف اسلام کو پھیلانے یا اپنی ذاتی آؤ بھگت اور عظمت کو
بڑھانے کے جذبہ کے تحت نہیں تھا بلکہ ان سب سے اوپر اٹھ کر محض انسانیت کے
ناطے ان کے یہاں مخلوق کے ساتھ ہمدردی اور انہیں فیض رسانی کی سوچ اور فکر
پائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ مشائخ چشت نے دوسروں کے غموں کو اپنے اندر
محسوس کیا اور دوسروں کی تکالیف دیکھ کر خود مضطرب اور بے چین ہو گئے قطب
الاقطاب خواجہ نظام الدین اولیاء فرماتے ہیں :
,,ایں قدر غم و اندوہ کہ مرا ہست ہیچ کس رادر ایں جہاں نبود ، زیرا کہ
چندیں خلق می آیندوغم و اندوہ خویش می گویند آں ہمہ بر دل و جان من می
نشیند،، یعنی جس قدر غم مجھے ہے اس دینا میں کسی کو نہیں اس لئے کہ اتنی
مخلوق میرے پاس آتی ہے اور اپنے رنج بیان کرتی ہے اس سب کا بوجھ میرے دل و
جان پر پڑتا ہے،، (خیر المجالس :مجلس ۳۱)
ایک دن آپ کی بارگاہ میں آنے والوں کی تعداد اس قدر بڑھ گئی کہ بعض لوگوں
کو شامیانے سے ہٹ کر دھوپ میں بیٹھنے پر مجبور پر ہونا پڑا خواجہ نظام
الدین اولیاء رضی اﷲ عنہ نے جب ان لوگوں کو دیکھا تو طبیعت بے چین ہو گئی
فرمایا :
,,ذرا پاس پاس ہو بیٹھو تاکہ وہ بھی سائے میں بیٹھیں کیونکہ دھوپ میں بیٹھے
تو وہ ہیں اور جلتا میں ہوں ،، (فوائد الفوائد ص:۹۱)
تصوف کی تاریخ میں اکثر ان بزرگان دین کا تذکرہ ملتا ہے جنہوں نے گوشہ
نشینی کو اختیار کیا اور مخلوق سے کٹ کر خدا کی عبادت و ریاضت میں ساری
زندگی گزاردی ان کا ماننا یہ تھا کہ مخلوق کی وجہ سے عبادت و ریاضت کا
زیادہ موقعہ نہیں مل پاتا ہے اور بعض اوقات راہ سلوک میں مخلوق رکاوٹ بھی
بن جاتی ہے، مگر مشائخ چشت کانظریہ ان سے مختلف نظر آتا ہے ان کے یہاں
مخلوق سے کٹ کر عبادت و ریاضت میں لگ جانا بہت زیادہ پسندیدہ کام نہیں ہے
بلکہ انہوں نے مخلوق میں رہ کر عبادت کرنے پر زور دیا تاکہ خدمت خلق کی جو
روایت ان کے یہاں چلی آرہی ہے اس کا سلسلہ منقطع نہ ہونے پائے یہی وجہ ہے
کہ جب خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی نے اپے مرشد خواجہ نظام الدین اولیاء سے
کسی تنہائی کے مقام پر جا کرخدا کی عبادت میں مشغول ہونے کی اجازت مانگی تو
وہاں سے جواب یہ موصول ہوا کہ :
,,او را بگو ترا درمیان خلق می باید بود و جفا و قفاے خلق می باید کشیدو
مکافات آں ببذل و ایثار عطا می باید کرد ،، یعنی ان سے کہہ دو کہ تمھیں خلق
میں رہنا اور لوگوں کے جور و ظلم کے مصائب جھیلنے چاہیے اور ان کے عو ض میں
سخاوت و ایثار اور بخشش کرنا چاہئے ،، (اخبار الاخبار ص : ۸۰)
بادشاہان وقت اور ان کے عہدے داران سے کسی قسم کا ربط رکھنا مشائخ چشت کے
یہاں شروع ہی سے معیوب سمجھا جاتا رہا ہے نہ صرف حکومت بلکہ ا صحاب ثروت
لوگوں سے میل جو ل سلسلہ چشتیہ میں سختی سے ممنوع رہا ہے ، مشائخ چشت کا
ماننا تھا کہ جو لوگ بادشاہوں یا اصحاب ثروت لوگوں سے تعلق رکھیں وہ خلافت
و اجازت کے مستحق نہیں ہیں جب تک کہ وہ ان سے قطع تعلق نہ کرلیں اس روایت
کو ہمیشہ مشائخ چشت نے بر قرار رکھا اور شاہان وقت کی غایت عقیدت کے باوجود
ان کی طرف التفات نہ کیا مگر جب مخلوق خدا کی مادی حاجت روائی کا مسئلہ آتا
ہے تو مشائخ چشت اپنے اس روات میں کچھ نرمی برتے ہویے نظر آتے ہیں حضرت
خواجہ نظام اورنگ آبادی کے بارے میں آتا ہے کہ ان کی خانقاہ کے دس دروازہ
تھے ہردروازہ پر ایک کاتب بیٹھا رہتا تھا جو حاجت مند آتا اس کی حاجت کو
لکھ کر دے دیتا اس پر حضرت کی مہر لگا دی جاتی جس پر یہ عبارت کندہ تھی :
ذکر مولیٰ از ہمہ اولیٰ
در رعایت دلہا بکوش
نظام دین بدنیا مفروش
حاجت مند یہ پرچہ امیر کے پاس لے جاتا وہ اسے اپنی سعادت سمجھ کر اس کی
ضرورت کو پوری کر دیتے تھے (فخر الطالبین ص:۸۸)
جس طرح مسائخ چشت کے یہاں خدمت خلق کا تصور گہرا اور مضبوط ہے اسی قدر
لوگوں کو کسی قسم کی ایذا پہنچانے کا خیال بھی ان کے یہاں نا روا ہے کوئی
انہیں کتنی ہی تکلیف دے ،اس لئے کہ دوسرو ں کی تکلیف پر صبر اور مخلوق کی
ایذا رسانی پر انہیں معاف کرنا بھی مشائخ چشت کے یہاں خدمت خلق کی ایک قسم
ہی ہے خواجہ نظام الدین اولیاء کا یہ شعر مشائخ چشت کے اسی نظریہ کی بھر
پور نمائندگی کر رہا ہے
ہر کہ مارا رنج دارد راحتش بسیار با د
ہر کہ مارا یار نبود ایزد او را یار باد
ہر کہ خارے افگند د ر راہ ما ا ز دشمنی
ہر گل کزباغ عمرش بشگفد ے بے خار باد
(فوائد الفوائد ص:۸۶ )
مذکورہ بالا ساری گفتگو سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ مشائخ چشت
نے خدمت خلق پر کتنا زور دیا اور اسے کس قدر اہمیت دی جبکہ اسی کے ضمن میں
یہ بات بھی سمجھی جا سکتی ہے کہ آج ہندوستا ن میں اسلام کے ماننے والوں کی
جو یہ بھاری تعدا د نظرآرہی ہے اس میں مشائخ چشت کی محنت ، جانفشانی اور
تگو ودو کے ساتھ ساتھ خدمت خلق کے تصور نے انہیں کا فی سپورت کیا جس کے
ذریعہ وہ لوگوں کے دلوں میں جگہ بناتے چلے گئے آج پھر اس تصور کے احیاء کی
ضرورت ہے خاص کر اس خود غرض اور گہما گہمی کے دور میں اس پیغام کی معنویت
مزید بڑھ جاتی ہے کہ ہم خدمت خلق کے چشتی تصور کو فروغ دیں- |