بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ سماجی
برائیوں کی آماجگاہ بن چکا ہے، دھوکہ دہی، فراڈ،ناپ تول میں کمی،مختلف
ذرائع (جائز ناجائز) سے مال اکھٹا کرنا ، معمولی بات سمجھی جاتی ہے۔اب تو
معاملہ افراد سے آگے نکل چکا ہے اور قومی ادارے بھی بحیثیت ادارہ ان
برائیوں میں ملوث ہیں۔میں یہاں چند ایک اداروں کی خیانتوں کو بتانا چاہتا
ہوں تاکہ ارباب اختیار ان خرابیوں کو دور کریں،یا کم از کم لوگوں کو تو
معلوم ہوجائے کہ ہمارے قومی ادارے کس کس طرح عوام کو لوٹتے ہیں؟
پی ٹی سی ایل
آپ سب کے علم میں یہ بات ہے کہ ایک روز قبل 23اپریل کو اسلام آباد کے ایک
ہوٹل میں ’’تھری جی‘‘ اور ’’فور جی‘‘ کے لائسنس کی نیلامی ہوئی، چنانچہ چار
کمپنیوں ’’زونگ،یوفون،موبی لنک،اور ٹیلی نار‘‘ نے یہ لائسنس حاصل کیے، جبکہ
پی ٹی سی ایل یہ لائسنس حاصل کرہی نہیں سکا۔ لیکن آپ کو حیرانگی ہوگی کہ
تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی کے لائسنس کل تقسیم ہوئے ہیں اور ابھی یہ
ٹیکنالوجی شروع نہیں ہوئی لیکن ’’پی ٹی سی ایل‘‘ پچھلے کئی سالوں سے
پاکستانی عوام کو بیوقوف بنا کر 3G سروس فراہم کرنے کا دعویدار رہا ہے،
حالانکہ پی ٹی سی ایل کی حیثیت آپ نے دیکھ لی کہ وہ بولی دے ہی نہیں سکا۔
پی ٹی سی ایل نے دھوکہ دہی کی انتہا ء کرتے ہوئے اپنی تمام ڈیوائسز مثلا
’’ونگل یوایس بی‘‘ وغیرہ پر 3G پرنٹ کروا کر فروخت کیں حتی کہ ان ڈیوائسز
کے لئے جو سافٹ ویئر بنائے گے ان میں بھی 3G ہی شو کیا، میرا تو دل کرتا ہے
پی ٹی سی ایل کی یوایس بی کو توڑ کر پھینک دیا جائے ۔
پاکستان پوسٹ آفس
پاکستان پوسٹ آفس بھی پی ٹی سی ایل کی طرح ایک قومی ادارہ ہے، اس ادارے میں
بھی ملازمین کسٹمر کے ساتھ دھوکہ دہی،اور فراڈ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہاں کس
کس طرح عوام کو لوٹا جاتا ہے مجھے زیادہ تو نہیں معلوم البتہ ایک طریقہ جسے
میں نے خود پکڑا اور کئی مرتبہ میرے ساتھ ایسا ہوا وہ یہ ہے کہ مجھے اکثر
کوئی کتاب وغیرہ پوسٹ کرنی ہوتی ہے جس کے لئے میں میلوڈی پوسٹ آفس جاتا ہوں،
جب کتاب لفافے میں بند کرکے دیتا ہوں تو ملازم پوچھتا ہے کیا کرنا ہے میں
کہتا ہوں پوسٹ ، چنانچہ وہ اس کا وزن کرتا ہے اور پھر وزن کے اعتبار سے تیس،
چالیس یا پچاس روپے طلب کرتا ہے، میں اتنی رقم دے کر واپس آجاتا ہوں، دو دن
قبل رقم دینے کے بعد میں تھوڑی دیر وہیں رک گیا تاکہ دیکھوں ملازم ٹکٹ بھی
لگاتا ہے یا نہیں، چنانچہ ملازم نے مجھے کہا ٹھیک ہے آپ جائیں ، لیکن میں
رکا رہا ، اس نے دوبارہ کہا ٹھیک ہے پوسٹ ہوگئی آپ جائیں، چنانچہ میں باہر
آگیا اور دو تین منٹ کے بعد دوبارہ اندر گیا تو دیکھا کہ ملازم ٹکٹ لگانے
کے لئے فائل کھول رہا ہے ، مجھے دیکھ کر اس نے دوبارہ فائل بند کردی اور
کسی کام میں مصروف ہوگیا، میں نے کہا میری کتاب ذرا مجھے دیں اس پر موبائل
نمبر لکھنا ہے، جب اس نے کتاب مجھے دی تو میں دیکھا کہ ملازم نے کتاب پر
Book post لکھ دیا ہے اور لفافے کو بھی ایک سائیڈ سے تھوڑا سا پھاڑ دیا
ہے(دراصل Book post میں کافی رعایت ہوتی ہے پہلے تو ایک روپے کا ٹکٹ لگتا
تھا اب شاید چار یا آٹھ روپے کا ٹکٹ لگتا ہے البتہ اس کے لئے شرط یہ ہے کہ
لفافہ مکمل بند نہ ہو کتاب نظر آنی چاہیے)یعنی ملازم نے مجھ سے تیس روپے
لیے اور اب اس پر چار پانچ روپے کے ٹکٹ لگا کر بک پوسٹ کردے گا۔
پٹرول پمپ
جس شخص نے گاڑی یا کم از کم موٹر سائیکل رکھی ہوئی ہے اسے لازما پٹرول پمپ
پر جانا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں پٹرول پمپوں پر روزانہ ہزاروں لوگوں کو لاکھوں
روپے کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔ پٹرول پمپوں پرلوگوں کو لوٹنے کے کئی طریقے
ہیں جن میں سے دو طریقے ایسے ہیں جن کے ذریعہ مجھے لوٹا گیا ہے آپ کی
معلومات کے لئے شیئر کردیتا ہوں۔فیض آباد اوجڑی کیمپ کے قریب شیل کے پٹرول
پمپ پر میں پہنچا، وہاں اس وقت زیادہ رش نہیں تھی، چنانچہ دو ملازم اکھٹے
کھڑے تھے، میں نے کہا دو سو روپے کا پٹرول موٹر سائیکل میں ڈال دیں، چنانچہ
پٹرول ڈالنے والا میٹر کے آگے اس طرح کھڑا ہو گیا کہ مجھے میٹر نہیں نظر
آرہا تھا جبکہ دوسرا میری دوسری طرف کھڑا ہوگیا، جب پٹرول ڈالنا شروع کیا
تو میں نے ذرا آگے ہو کر میٹر کو دیکھنے کی کوشش کی تو دوسری طرف والے نے
ایک دم مجھے اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا: ٹینکی کے ڈھکن کو آئل لگا لیا
کریں ورنہ اسے زنگ لگ جاتا ہے پھر اس نے جلد سے آئل میں انگلی ڈبو کر ٹینکی
کے ڈھکن پر لگائی اور ڈھکن مجھے پکڑا دیا،اتنی دیر میں پٹرول ڈالنے والا
پٹرول ڈال کر فارغ چکا تھا۔ مجھے کچھ شک ہوا کہ میں تو روزانہ دو سو کا
پٹرول ڈلواتا ہوں آج ٹائم کم لگا ہے، چنانچہ میں نے ان سے کہا کہ آپ نے ایک
سو کا ڈالا ہے لیکن وہ اصرار کرتے رہے ہم ایسا کام نہیں کرتے، چنانچہ میں
وہاں سے چل پڑا ، چونکہ میں نے میٹر چیک کیا ہوا تھا اور مجھے اندازہ تھا
کہ ایک سو اور دو سو کے پٹرول سے کتنے کلو میٹر موٹر سائیکل چلتا ہے۔تقریبا
پچاس ساٹھ کلو میٹر چلنے کے بعد پٹرول ختم ہوگیا یعنی انہوں نے تقریبا ایک
سو دس روپے کا پٹرول ڈالا تھا۔اسی طرح ایک مرتبہ ایک اور پٹرول پمپ پر میں
نے دو سو کا پٹرول ڈالنے کا کہا،مجھے سے پہلے ایک شخص نے ایک سو کا پٹرول
ڈلوایا تھا، جب میری باری آئی تو ملازم نے مجھے کہا : ریزرف بند کردیں ورنہ
اس میں گند وغیرہ چلا جائے گا، چنانچہ میں ریزرف بند کرنے کے لئے نیچے کی
طرف جھکا تو ملازم نے میٹر کو زیرو کیے بغیر وہیں سے آگے پٹرول ڈالنا شروع
کردیا اور دوسو پر روک دیا، اس وقت بھی مجھے شک تو ہوا لیکن میرے پاس کوئی
ثبوت نہیں تھا، چنانچہ اس مرتبہ بھی موٹر سائیکل پچاس کلو میٹر ہی چلی ،
یعنی صرف ایک سو کا پٹرول ڈالا تھا۔
ان واقعات کے بعدمیں نے حرام کھانے اور دھوکہ دہی کے حوالے سے چند احادیث
جمع کرکے پرنٹ کیں اور چند ایک پٹرول پمپ کے ملازمین کو دے دیں۔ دراصل
حقیقت میں یہ ہماری ہی کوتاہی ہے کہ ہم نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر
ترک کردیا جس کی سزا بھی ہمیں ہی مل رہی ہے۔ |