جی ہاں! ہم بھو ل گئے ہر بات،ہر
وعدہ ،ہر قسم،ہر ارادہ۔ہم بھول گئے اس وقت کو جب ہمارے بزرگوں نے اسلامی
طرز زندگی گزارنے کی خاطر الگ وطن کا مطالبہ کیا تھا۔اپنے وطن پاکستان کی
خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیئے۔ ہم بھول گئے کہ ہمارے لیڈر قائد اعظم
محمد علی جناح نے دن رات ایک کر کے ہمارے اور ہماری نسلوں کے لیے یہ ملک
بنایا۔
قیام پاکستان کے مقاصد کیا تھےکہ مسلمان اپنے دین اسلام اور قومی وجود کا
تحفظ کر سکیں۔یہاں پراسلامی معاشرہ اور اسلامی نظام کا قیام عمل میں ٓئے۔معاشی
مسئلہ بہتر طور پر حل ہو سکے۔ہم اپنی تحزیب وثقا فت کی حفاظت کر سکیں۔اتحاد
عالم اسلام کو فروغ حاصل ہو۔ہم اپنے دفاع کو مضبوط بنا سکیں۔اور اپنے ذرائع
ووسائل کو بطریق احسن بروئے کار لا سکیں۔پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا
اللہ کا نعرہ تحریک پا کستان کا حاصل تھا۔
کہ ٓزادی کا اک لمحہ ہے بہتر
غلامی کی حیات جاوداں سے
ٓٓٓٓٓٓآج ہم یوم پاکستان، یوم آزادی ہر سال نہایت شان وشوکت اور جو ش وخروش
سے مناتے ہیں۔ملک بھر میں عید کا سماں نظر آتا ہے۔پورے ملک کو جھنڈ یوں سے
دلہن کی طرح سجایا جاتا ہے۔سرکا ری عمارتو ں اور عام مکا نات پر قو می پر
چم لہرائے جا تے ہیں۔رات کو چراغاں ہوتا ہے۔اخبارات خصوصی ایڈ یشن شائع
کرتے ہیں۔اور ریڈیو ۔ٹی وی پر تحریک پاکستان کے خصوصی پروگرام پیش کئے جاتے
ہیں۔تحریک پاکستان کے موضوع پر تقاریر ہوتی ہیں۔ الغرض یوم پاکستان پورے
جوش وخروش اور جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے۔
بہت مسرت ہوتی ہے۔یہ دیکھ کر کہ ہم اپنے ملک سے کتنی محبت کرتے ہیں لیکن
کیا یہ محبت صرف سجاوٹوں تک محدود ہے۔ کیا ہم بھول نہیں گئے کہ نظریہ
پاکستان کیا تھا؟ اس ملک کو حاصل کرنے کے کیا مقا صد تھے؟جی ہاں بلکل ایسا
ہی ہے ہم آ پس کی جنگ میں سب بھول چکے ہیں۔مال کی حوس نے ہماری آنکھوں پہ
پردہ ڈال دیا ہے۔نفر توں نے اچھے برے کی پہچا ن بھلا دی ہے۔ہم ایک دوسرے کو
نیچا دیکھنے کے لیے اپنے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ اور اس کام
میں ہمارے سیاست دان سب سے آگے ہیں۔ہم علا مہ اقبال کی وہ نصحت بھول چکے
ہیں۔کہ
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
اللہ تعالی نے پاکستان کو بہت سے و سائل سے نوازا ہے۔پاکستانی قوم بہت محب
وطن، محنتی اور جفا کش ہے۔یہ جذبہ ایثار و قر بانی سے سر شار ہے۔مگر جب ا
نسان خدا کے احکا مات پر نہ چلے اور دنیا کی ہوس میں لگ جا ئے تو ایک دوسرے
کے خون کا پیاسا ہو جاتا ہے۔آج کے نو جوان پر بھاری زمہ داری عائد ہوتی
ہے۔صرف رسمی طور پر یوم آزادی منا لینا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔بلکہ اصل چیز
احساس زمے داری ہے۔یاد رکھئے اگر چہ حصول آزادی بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے
لیکن آزادی کا تحفظ اس سے کہیں اہم تر ہے۔آزادی کی حفاظت اور استحکام ہم سب
کا مشتر کہ نصب العین ہونا چاہیے۔ہر فرد کو اپنے ملک کے اندرونی اور بیرونی
تحفظ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔بقول علامہ اقبال
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
آج کل یہ ستا رے میڈیا کے توسط سے سڑکوں پر بکھرے نظر آتے ہیں۔یقینا اقبال
کی روح یہ سب دیکھ کر بے چین ہو گیااور آج پھر قوم کو یہ بھولا ہوا سبق یاد
دلانے کی ضرورت ہے کہ
تو راز کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا رازداں ہو جا،خدا کا تر جماں ہو جا
ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑ ے ٹکڑے نوع انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا
قائد اعظم طلبہ کو قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ سمجھتے تھے۔ اور ان سے بے
پناہ محبت کرتے تھے۔وہ طلبہ کو محنت ،لگن کے ساتھ تعلیم پر توجہ دینے کے
خواں تھے۔تاکہ ملک و قوم کا مستقبل درخشندہ و تابناک ہو
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
قائد اعظم نے دن رات ایک کر کے اور اپنی بیماری کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہمیں
یہ سر زمین عطا کی تا کہ یہاں اسلامی قوانین کے تحت مسلمان زندگی بسر کر
سکیں اگر ہم نے نظریہ پاکستان کو اپنے سامنے رکھا۔ اور اپنے عمل سے اسے سچ
ثابت کرنے کی کوشش کی۔ تو نہ صرف ہم دنیا کی دوسری قوموں میںاپنی حیثیت کو
بلند کریں گے۔بلکہ اگر اللہ نے چاہا۔ تو اسلامی اصولوں پر عمل کر کے اپنے
ملک پاکستان کو مضبوط،شان دار اور شان وشوکت والا بنانے میں پوری طرح
کامیاب ہو جائیں گے۔ قائد اعظم آج بھی پکار پکار کر کہہ رہے ہیں۔۔۔
ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کر
اس دیس کو رکھنا میرے بچو ں سنبھا ل کر |