اﷲ تعالٰی نے انسان کو اس دنیا
میں اک وقت کے لئے بھیجا،اشرف المخلوقات بنایا اور اسے دنیا میں زندگی
گزارنے کا رستہ بتا دیا ایک صراط مستقیم اور دوسرا گمراہی کا،انسان دنیا
میں زندگی گزارتا ہے،اس زندگی کے بعد اسے اخروری زندگی کی طرف جانا پڑتا ہے
اور اس میں کسی کو کوئی شک نہیں کہ موت اٹل ہے اور ہر کسی کو آنی ہے کوئی
بھی موت سے مبرا نہیں ،ہر کسی کو قبر میں جانا ہے اور دنیا میں گزاری ہوئی
زندگی کا حساب دینا ہے اگر دنیا میں اسکے اعمال نیک ہوں گے تو اسکا ٹھکانہ
جنت ہو گا ۔اﷲ نے دو جہاں بنائے ہیں ایک عالمِ غیب ہے اور دوسرا عالمِ دنیا
ہے۔ ان دونوں جہانوں کے درمیان ایک رکاوٹ ہے جسے برزخ کہا جاتاہے۔جب اﷲ کسی
انسان کو پیدا کرنے کا فیصلہ فرماتے ہیں تو عالمِ دنیا میں جسم اور جان کے
تعلق کو قائم فرماتے ہیں اور پھر عالمِ غیب سے ایک روح بھیجتے ہیں جو اس
زندہ جسم میں شامل کردی جاتی ہے۔پھر جب چاہتے ہیں انسان کے جسم سے روح نکال
کر واپس برزخ کے اس پار عالمِ غیب میں لے جاتے ہیں اس طرح انسان کی موت
واقع ہوجاتی ہے ۔ہر شخص کی زندگی مقرر ہے ، اس میں نہ کمی ہو سکتی ہے نہ
زیادتی ، جب وقت پورا ہو جاتا ہے تو ملک الموت (موت کا فرشتہ ) یعنی
عزرائیل علیہ السلام قبض رْوح کے لئے آتے اور اس کی جان نکال لیتے ہیں اسی
کا نام موت ہے۔روحوں کے رہنے کے لئے مقامات مقرر ہیں ، نیکوں کے لئے علیحدہ
، بدوں کے لئے علیحدہ،جب مرْدہ کو قبر میں دفن کرتے ہیں اس وقت اس کو قبر
دباتی ہے ، اگر وہ مسلمان ہے تو اس کا دبانا ایسا ہوتا ہے جیسے ماں پیار
میں اپنے بچے کو زور سے چپٹا لیتی ہے اور اگر کافر ہے توا س کو اس زور سے
دباتی ہے کہ ادھر کی پسلیاں اْدھر اور اْدھر کی اِ دھر ہو جاتی ہیں۔ اس وقت
اس کے پاس دو فرشتے اپنے بڑے بڑے دانتوں سے زمین کو چیرتے ہوئے آتے ہیں، ان
کی شکلیں ڈراؤنی ،آنکھیں دیگ کے برابر ، سیاہ اور نیلی ، بدن کا رنگ سیاہ
اور بال سر سے پاؤں تک ، غرض ہیبت ناک صورت کا سامنا ہوتا ہے ، وہ مردے کو
جھڑک کر اٹھاتے ہیں، اور نہایت سختی کے ساتھ اس سے تین سوال کرتے ہیں، تیرا
رب کون ہے2، تیرا دین کیا ہے۔3، اور حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
کی طرف اشارہ کر کے پوچھتے ہیں کہ ان کے بارے میں تو کیا کہتا ہے۔مْردہ
مسلمان ہو تو جواب دیتا ہے -1 میرا رب اﷲ تعا لٰی ہے ،2، میرا دین اسلام ہے
،3، اور وہ تو میرے آقا و مولٰی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہیں ، فرشتے
کہتے ہیں کہ ہم جانتے تھے تو یہی جواب دے گا۔پھر اس کی قبر جہاں تک نگاہ
پہنچے گی ، کشادہ کر دی جائے گی۔ جنت کی خوشبو اس کے پاس آتی رہے گی اور
جنت کا بستر ، جنت کا لباس اسے مہیا کیا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ
تو سو جا جیسے دولھا سوتا ہے۔اورمردہ کافر یا منافق ہے تو کسی سوال کا جواب
نہ دے سکے گا ، بلکہ ہر بار یہی کہے گا کہ مجھے تو کچھ نہیں معلوم۔۔۔ میں
لوگوں کو کہتے سنتا تھا ، خود بھی کہتا تھا۔۔اس وقت ایک پکارنے والا آسمان
سے ندا کرتا ہے کہ ،، یہ جھوٹا ہے ،، اس کے لئے آگ کا بچھونا بچھا دو۔۔ آگ
کا لباس پہنادو اور جہنم کی طرف دروازہ کھول دو۔ دوزخ کی گرمی اور تپش اس
کو پہنچے گی اور اس پر عذاب دینے کے لئے دو فرشتے مقرر ہوں گے ، جو اندھے
اور بہرے ہوں گے وہ لوہے کے بڑے بڑے گرزوں سے اسے مارتے رہیں گے ، نیز سانپ
اور بچھو وغیرہ اسے عذاب پہنچاتے رہیں گے اور اس کے بْرے اعمال کتے ،
بھیڑئیے وغیرہ موزی جانورں کی شکل بن کر اسے ایذاء پہنچاتے رہیں گے ، جبکہ
نیکوں کے نیک اعمال ، مقبول ، پسندیدہ اور محبوب صورت وشکل میں اسے سکون و
انس دیں گے۔حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہر
مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق ہیں ۔’’ جب تم کسی مسلمان سے ملو تو اس کو
سلام کرو ، جب وہ تم کو دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرو،جب وہ تم سے نصیحت
طلب کرے تو اس کواچھی نصیحت کرو، جب وہ چھینک کے بعد الحمد ﷲ کہے تو اس کی
چھینک کا جواب میں یرحمک اﷲ کہو،جب وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کرو ،اور
جب وہ فوت ہو جائے تو اس کی نماز جنازہ میں جاؤ۔اس نفسا نفسی کے عالم میں
جب ہر کوئی اپنی ذات میں مگن ہے کسی کو کسی کا کوئی خیال نہیں ہو تا ۔محلے
میں ،ساتھ والے گھر میں فوتگی ہو جاتی ہے لیکن پڑوسیوں کو خبر تک نہیں
ہوتی،جب گلی میں ٹینٹ لگائے جاتے ہیں اور لوگ جمع ہوتے ہیں تو پتہ چلتا ہے
کہ فوتگی ہوئی ہے یا اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی جنازہ جا رہا ہوتا ہے تو
اسکے ساتھ دس،پندرہ یا زیادہ سے زیادہ بیس لوگ ہوتے ہیں جو میت کے اپنے
عزیز و اقارب ہوتے ہیں ،نبی کریم ﷺ نے تو جنازے میں جانے کو ’’حق‘‘ قرار
دیا مگر آج دنیا کی مصروفیات میں ہم اتنے مگن ہو جاتے ہیں کہ کسی کے پاس
وقت نہیں ہوتا ۔جنازے میں جانا نیکی اور ثواب کا کام ہے لیکن ہم اس سے
محروم رہتے ہیں ۔لاہور میں ایک ایسا ادارہ ہے جو پورے شہر میں فی سبیل اﷲ
قبر بھی کھودتے ہیں اور نماز جنازہ میں بھی شریک ہوتے ہیں۔فلاح انسانیت
فاؤنڈیشن لاہور کے ناظم محمد زبیر سے میری ملاقات ہوئی وہ بتانے لگے کہ
پورے لاہور میں ہمیں جہاں سے بھی اطلاع ملتی ہے کہ فلاں علاقے میں فوتگی
ہوئی ہے ہمارے رضاکار اس علاقے میں پہنچتے ہیں ۔گھر میں جا کر سب سے پہلے
لواحقین سے تعزیت کرتے ہیں ،انہیں صبر کی تلقین کرتے ہیں اور پھر قبرستان
کا معلوم کر کے قبر بھی کھودتے ہیں ،جنازے کے ٹائم پر اگر قبرستان دور ہو
تو فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی ایمبولینس میں میت کو قبرستان لے کر جاتے ہیں
اور نماز جنازہ میں بھی ہمارے رضاکار شریک ہوتے ہیں اگر کوئی مولانا صاحب
موجود نہ ہوں تو نماز جنازہ پڑھاتے بھی ہیں اور میت کی تدفین تک فلاح
انسانیت فاؤنڈیشن کے کارکنان لواحقین کے ساتھ برابر کے شریک رہتے ہیں۔وہ
بتا رہے تھے کہ جب کوئی فوتگی ہوتی ہے تو لواحقین غم سے نڈھال ہوتے ہیں ،انہیں
صدمے کی وجہ سے ہوش نہیں ہوتا ایسے وقت میں جب انسان پریشان ہوتا ہے انہیں
’’لٹیرے ‘‘ آکر لوٹ لیتے ہیں کوئیقبر بنانے کے لئے دس ہزار مانگتا ہے تو
کوئی جنازہ پڑھانے کے لئے،کوئی تدفین کے لئے غرضیکہ ایک میت کی تدفین کے
لئے کم از کم پچاس ہزار روپے خرچ ہو جاتے ہیں لیکن اس مہنگائی کے دور میں
غریب عوام کے لئے انتہائی مشکل ہو جا تا ہے اسی سوچ کو سامنے رکھ کر لاہور
شہر میں صرف اﷲ کی رضا کی خاطر ہم یہ کام کر رہے ہیں۔شہر کے مختلف علاقوں
میں روزانہ کی بنیاد پر ہمارے رضا کار میت کی تدفین کا کام کرتے ہیں اس سے
لواحقین پر کم بوجھ پڑتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی ہمارے غم میں برابر
کا شریک ہے ۔جب ایک علاقے میں فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے رضا کار ایک میت کی
تدفین کرتے ہیں تو سارے محلے والے اسکے بعد فون نمبر لے لیتے ہیں اور جب
بھی اس محلے میں کوئی فوتگی ہو وہ ہمیں کال کرتے ہیں ۔اس کام کے لئے فلاح
انسانیت فاؤنڈیشن کے رضاکاروں کی باقاعدہ ایک ٹیم موجود ہے جو برقت پہنچتی
ہے اور شرعی طریقت سے میت کو غسل،کفن،دفن کا کام سرانجام دیتی ہے ۔محمد
زبیر کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ لاہور شہر کے مختلف سرکاری ہسپتالوں میں
دسترخوان بھی لگائے گئے ہیں جہاں مفت کھانا مہیا کیا جا تا ہے،ایمبولینس
سروسز مفت فراہم کی جا رہی ہے اور ہم یہ سارا کام مخیر حضرات کے تعاون سے
کر رہے ہیں۔ لاہور شہر میں قارئین فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے اس نیک کام کو
آگے بڑھانے میں معاون بنیں ،محمد زبیر کا کہنا تھا کہ لاہور شہر کے کسی بھی
علاقے میں کوئی فوتگی ہو تو انکے موبائل نمبر03324606800پر رابطہ کر سکتے
ہیں ۔فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی ٹیم پہنچے گی اور فی سبیل اﷲ تمام امور کو
احسن طریقے سے سرانجام دے گی۔ |