وائے نا کامی۔۔۔۔!ــ ٰ

’’بے ایمانی و بد عنوانی کا بازار گرم ہے ‘‘ اس اصطلاح کے اصل معانی جو بھی ہوں مگر میری لغت میں ا س کے معانی، مطالب اور تشریح کچھ یوں ہے کہ ہر طرف معصوم شہریوں ( عوام ) پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں ۔ انصاف کی جنس بازار پاکستان سے نا پید ہو چکی ہے ۔ انصاف کے حصول کے لیے وکیل کیے جاتے ہیں ۔ جنہیں بھاری فیسیں ادا کر کے امیدیں رکھی جاتی ہیں کہ انصاف حاصل ہوگا ۔ مریض بھی در ندہ صفت ڈاکٹروں ( طبیوں اور مسیحاؤں ) کو ان کی منہ مانگی یعنی جو دو گز کی زبان نکال کر مانگی بلکہ چھینی جاتی ہے ۔ فیس باامر مجبوری دے کر تندرستی و صحت خرید کرتا ہے ۔ حصول انصاف کے یہ دو طریقے ( اسی طرح کے ان گنت طریقہ ہائے کا ربھی ہیں )کیا انصاف کا تقا ضا پورا کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ یہ وہ سوال ہے جو اپنے اندر بے شمار سوالات و جوابات رکھتے ہیں جن پر پہنچنے کیلئے وسیع نظر اور اعلیٰ فکر کی طاقت چاہیے کیا اس ملک کا معاشرہ ( مذکورہ بازار ) اپنے اندر خود اصلاحی کی طاقت نہیں رکھتا ۔۔۔۔۔؟ بھلا ۔۔۔۔۔وہ معاشرہ ( سماج) جو دانستہ طور پر اندھیرے ( ظلمت ) میں ہو ۔۔۔۔۔کیا وہ روشنی کی کرن سے منور ہو سکے گا ۔۔۔۔۔؟ ’’ جیسی روح ویسے فرشتے ‘‘ جو حقیقت کا عکاس مقولہ ہے ۔۔۔ ہر دور میں صرف اس طبقے کو ووٹ دیئے جاتے ہیں جو عوام ( بے زبان حیوانوں ) کے حقوق کا براہ راست قاتل ہے ۔ اس طبقے نے اپنی پسندو نا پسند کو سامنے رکھتے ہوئے قانون سا زیاں کیں اور کر رہا ہے یہ قوانین محض اس طبقے کے انفرادی مفادات کے گرد گھومتے ہیں نا کہ عوام کے حقوق کی باز یابی کو ممکن بنا رہے ہیں ۔ بے شمار مرتبہ عرض کر چکا ہوں کہ وطن عزیز کی بقاء استحکام اور دوام فطری انقلاب سے ممکن ہے ۔ دیگر انقلابی نظریات ( تحر یکیں ) محض شور شرابا اور خون خرابا کا باعث ہیں جن سے اجتناب ضروری ہے ۔ وقت کی ضرورت بھی یہی فطری انقلاب ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ فطری انقلاب ہے کیا۔۔۔ ۔؟ کسی بھی منطقہ کیلئے یہی فطری انقلاب ہی موزوں ترین عمل ہے ۔ کیونکہ اس سے نہ ہی بے گناہوں کا خون ہوتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی افرا تفری وجود میں آتی ہے ۔ افرا تفری ہوش و خرد کا نام نہیں بلکہ انصاف کا قتل عام ہے ۔ افرا تفری کے ذریعے انقلاب کی کوششوں سے معاشرہ مستقل طور پر بے سکونی کا شکار رہتا ہے ۔ اس وقت یہ معاشرہ جہاں ہم رہ رہے ہیں ( ہم پاکستانی) لا قانونیت کا شکار ہے ۔ افرا تفری کے باعث سماجی انصاف نایاب ہے ۔ معیشت کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے ۔ معاشی و اقتصادی تر قیاں فقط امراء کو میسر ہیں ۔ غریبوں کو ذرائع نقل و حمل کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان حالات میں اس بے راہرو معاشرے میں تبدیلی کے آثار کا پیدا ہونا شاید نا ممکن ہو چکا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ دو ، تین فیصد لوگ جو خواص کہلانے پر مصرومتکبر ہیں زمینی و افرادی وسائل پر قابض ہیں در اصل یہی طبقہ ء خواص معاشرے میں ظلمت و جاہلیت کے رواج و نفاد کا ذمہ دار ہے ۔ یہی طبقہ ہے جو منابع شعور و علم ’’ تعلیمی اداروں ‘‘ کے قیام کا صریح مخالف ہے ۔ اسے خدشہ ہے کہ ایک عام شخص شعور ، عقل اور خرد کی منازل طے کر کے آگہی کے مقام پر فائز ہوگا تو فطری انقلاب بپا ہوگا ۔ جس سے خواص کی زمینی وسائل پر عمل داری اور قبضے کا قصہ تمام ہو جائیگا ۔ اس طرح خواص عوام کہلانے لگ جائیں گے۔ جو خواص کی لغت کے مطابق ’’فحش گالی ‘‘ ہے ۔ اس طبقے کو قبول نہ ہے ۔ خواص کے ان نا پاک عزائم کہ عوام کو منا بع علم وآگہی کے اسباب ’’ تعلیمی اداروں کی سہو لیات ‘‘ سے محروم رکھا جائے جب ایک عام آدمی یہ عیاری بھانپ لے گا ۔ یقینا ’’فطری انقلاب ‘‘کا نظریہ تہہ تیغ ہو کر خونیں انقلاب کی اصطلاح میں تبدیلی ہو جائے گا ۔ جس میں امن کا نظریہ ایک ایسا خواب ہوگا جس کی تعبیر ممکن ہی نہ رہے گی ۔ انتشار و اشتعال معاشرتی امن کو چاٹ لیں گے ۔ یہ انتشار و اشتعال جب انتقام میں تبدیل ہوں گے توزمین پر ( سماج میں) مستقل جنگ چل پڑے گی ۔ جس کا خاتمہ نا ممکن ہوتا ہے ۔ اس لئے ارباب بست و کشاد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ معاشرے میں شعور کی دولت کی تقسیم میں پہل کریں کیونکہ اب بھی وقت ہے ۔ دوسری صورت میں بندوق سے چلی گولی اور کمان سے نکلے تیر کی واپسی نا ممکن ہوتی ہے ۔ اگر اسی طرح فطری انقلاب کے راستے میں نا جائز تجا وزات کا سلسلہ جاری رہا تو کر پشن کا بازار گرم ہی رہے گا ۔ عوام پر ظلم و ستم کی حد ہوتی رہے گی ۔ انصاف کا خون قانون کی شکل اختیار کر تا رہے گا ۔ دساتیر زمانہ جو فی الوقت رائج ہیں آکاس بیل کی مانند پاکستانی معاشرے سے اپنے لئے وسائل حیات چھین لیں گے ۔ اس صورت میں ساودہ عوام عیار ( طبقہ خواص ) لومڑی کی عیاری میں آکر اپنی نسلیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑ و ا دیں گے ۔ اس تاریخی غلطی کا احساس سوائے پچھتاوے کے کچھ اور نہ ہوگا ۔ ہماری اولین ترجیح وطن عزیز اور اس کے اداروں اور خاص طور پر عوام کے تحفظ کی ہونی چاہیے ۔ یہ ایک فرض ہے جس سے پہلو تہی ممکن ہی نہیں ۔۔۔۔ اس حقیقت سے انکار اپنی ماں دھرتی کے وجود سے انکار کے زمرے میں آئے گا ۔
وائے نا کامی متا ع کارواں جاتا رہا
کا رواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

Mansha Fareedi
About the Author: Mansha Fareedi Read More Articles by Mansha Fareedi: 66 Articles with 47015 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.