نیو یارک میں کم سِن نوجوانوں کے جرائم پیشہ گروہ نے
پولیس اور عوام کا جینا محال کر دیا ہے۔ پولیس، ایف بی آئی اور دوسرے ادارے
آئے دن ان نوجوانوں پر ہاتھ ڈالتے ہیں۔ لیکن وہ بھی کوئی کچی گولیاں کھیلنے
والے نہیں اسی امریکہ اور اس کی سڑکوں اور گلیوں میں پیدا ہوئے ہیں، وہ
پولیس سے ہاتھ کرنا جانتے ہیں۔ پولیس کے مطابق نیویارک میں بدمعاشوں کے تین
سو سے زیادہ ایسے ٹولے ہیں، جن میں شامل افراد کی عمریں 12 سے 20 سال کے
درمیان ہیں۔ انہوں نے اپنے گینگز کے نام بھی ’ ویری کرپسی گینگسٹر، ٹرو منی
گینگ ، کیش باما بلیز رکھے ہوئے ہیں۔ نیویارک پولیس کے مطابق یہ گروہ مخصوص
علاقوں میں گشت کرتے ہیں اور شہر میں ہونے والے فائرنگ کے چالیس فیصد
واقعات کی ذمہ داری بھی انہی پر عائد ہوتی ہے۔ پولیس انسپکٹر کیون کاٹالینا
’ کہتے ہیں ان میں زیادہ تر واقعات انتہائی معمولی سی وجوہات کی بنا پر
رونما ہوتے ہیں، جیسے لڑکی کو چھیڑنا یا ایک دوسرے کو غلط انداز سے
گْھورنا۔ماہرین کہتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے گینگز بنانے کا رجحان شکاگو اور
شمالی مشرقی شہروں میں اْس وقت بڑھا جب پولیس نے بڑے اور منظم جرائم پیشہ
گروہوں کے خلاف کارروائی کرنا شروع کی تھی۔ تفتیش کار اب مخصوص گروپوں کے
حوالے سے تفصیلات جمع کر رہے ہیں۔ تاکہ ان گروہوں اور ان کی سرگرمیوں کو
سمجھا جائے۔ اس دوران پولیس نے مختلف گروپوں کے انتہائی فعال ارکان کو
گرفتار کرنے کا سلسلہ بھی تیز کر دیا ہے۔نیو یارک کے پولیس کے محکمے کے
اعداد و شمار کے مطابق فائرنگ کے واقعات میں گزشتہ برس کے مقابلے میں کوئی
کمی نہیں آئی ہے جبکہ جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری کے واقعات میں اضافہ ہوا
ہے۔ تاہم اس کے باوجود مختلف گروہوں کی جانب سے تشدد کے واقعات پہلے کی طرح
ہی جاری ہیں۔ تفتیش کاروں کے بقول اس سلسلے میں رواں برس مارچ میں پیش آنے
والے واقعہ کو ذرائع ابلاغ نے بہت زیادہ اہمیت دی تھی۔ اس واقعے میں ’ اسٹک
منی گونز‘ نامی گروپ کے ایک 14 سالہ رکن نے 357 ریوالور سے بروکلین کے بھرے
بازار میں مخالف گروہ ’ ٹوان فیمیلی ‘ کے ایک کارندے پر فائرنگ کر دی تھی۔
تاہم گولی سے تارکین وطن گھرانے کا ایک مرد ہلاک ہو گیا، جو اپنے خاندان کا
پیٹ پالنے کے لیے دو مختلف نوکریاں کرتا تھا۔کچھ عرصے قبل امریکی تحقیقاتی
ادارے ایف بی آئی کی طرف سے ان گروہوں کے خلاف وسیع پیمانے پر شروع کئے گئے
کریک ڈاؤن کے نتیجے میں گرفتار کیے گئے مشتبہ افراد کا تعلق منظم جرائم
پیشہ گروہوں سے بتایا گیا ہے۔ امریکہ میں سرگرم عمل مافیا کے خلاف اس
کارروائی کو امریکی تاریخ میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا آپریشن قرار دیا گیا
تھا ۔امریکی اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر کے بقول یہ گرفتاریاں نیو یارک ، نیو
جرسی اور روڈز آئی لینڈ میں عمل میں آئیں تھیں ۔ ہولڈر نے بتایا ہے کہ یہ
کریک ڈاؤن منظم جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف جنگ کا ایک حصہ ہے۔صحافیوں سے
گفتگو کرتے ہوئے ہولڈر نے کہا کہ امریکی حکومت پرعزم ہے کہ منظم طور پر کیے
جانے والے جرائم کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے
مزید گرفتاریاں بھی کی جائیں گی اور مشتبہ افراد کو عدالت کے سامنے پیش کیا
جائے گا تاکہ وہاں وہ اپنا مؤقف بیان کریں۔ انہوں نے بتایا کہ ان چھاپوں کو
کامیاب بنانے کے لئے کل آٹھ سو سے زائد ماہر افراد نے حصہ لیا۔ انہوں نے اس
نئی پیش رفت کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس آپریشن میں ایف بی آئی، پولیس
اور دیگر متعلقہ اداروں نے کامیاب رابطہ کاری کی۔ انہوں نے کہا کہ منظم
جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف ایک دن کے دوران کیا جانے والا یہ آپریشن ،
امریکی تاریخ کی سب سے بڑی کارروائی تھی۔ایرک ہولڈر کے مطابق مافیا کی
کارروائیوں کے نتیجے میں امریکی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے تھے۔
ایف بی آئی گرفتار شدگان سے مختلف حوالوں سے تفتیش جاری رکھے ہوئے ہے۔
بتایا گیا ہے کہ ان مشتبہ افراد میں کئی اہم مافیا سربراہ بھی شامل ہیں اور
ان پر قتل، لوٹ مار، ڈاکے، منشیات کی ناجائز فروخت اور دنگا فساد کرنے کے
الزامات کے تحت مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ ادھر اب عالمی بنک کو بھی خیال
آگیا ہے کہ بے روز گاری نوجوانوں کو حکومت مخالف تحریکوں ،جرائم پیشہ
گروہوں کی جانب مائل کرتی ہے۔ عالمی سرمایہ داری کو تحفظ دینے والا ورلڈ
بینک خود پوری دنیا میں معاشی ناہمواری پیدا کر رہا ہے، دنیا بھر میں
نوجوان اس بات سے شاکی ہیں کہ ان کے لئے روزگار کے مواقع کم ہوتے جارہے
ہیں، ورلڈ بینک نے اپنی ایک رپورٹ میں اب اس بات اکا اعتراف کیا ہے کہ بے
روز گاری کے باعث نوجوان ،جرائم پیشہ گروہوں اور حکومت مخالف تحریکوں میں
شامل ہوتے ہیں،ورلڈ بینک کی جاری ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک
میں رہنے والے تقریباً ڈیڑھ ارب لوگ سیاسی عدم استحکام اور جرائم کے باعث
جنم لینے والے تشدد سے متاثر ہیں، جرائم میں اضافے کی وجوہات میں بے روز
گاری ،مذہبی اور لسانی بنیادوں پر کشیدگی اور پریشانیاں سرفہرست ہیں ،رپورٹ
میں میں بتایا گیا ہے کہ جن ممالک میں سیاسی عدم استحکام اور جرائم کی شرح
زیادہ ہے وہاں نہ صرف معیشت میں ٹھہراو ہے بلکہ انسانی ترقی کی رفتار بھی
جمود کا شکار نظر آتی ہے ۔ گذشتہ سال کرغیر کے علاقے بشکیک میں تین ثانوی
اسکولوں کے طلبا کے مابین بڑے پیمانے پر لڑائی ہوئی جس کے بعد نوجوانوں کے
منظم جرائم کے عام مسئلے سے متعلق بڑے پیمانے پر عوامی خدشات اور تبادلہ
خیال کا آغاز ہوا۔کرغیز وزارت برائے داخلی امور کے مطابق، دو ہزار سے زائد
اسکول کے بچے منظم جرائم پیشہ گروہوں میں شامل ہو گئے ہیں اور ایک ہزار کے
قریب سماجی طور پر خطرناک حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔قانون نافذ کرنے
والے اداروں کے مطابق، جمہوریہ کی اولمپک ریزرو اسپورٹس اکیڈمی کے چوتھی
اور پانچویں جماعت کے پچاس سے زائد طلبا نے ثانوی اسکول 2 اور 38 پر حملہ
کرتے ہوئے ایک اسکول کا داخلی دروازہ گرا دیا اور سنگ باری کے ذریعے دوسرے
کی دو درجن کے قریب کھڑکیوں کے شیشے توڑ دیے۔ حملہ آوروں نے موقع پر پہنچنے
والے پولیس اہلکاروں سے بھی مزاحمت کی۔ انہیں اسکول کے لڑکوں کو قابو کرنے
کے لئے ہوا میں انتباہی گولیاں چلانا پڑیں۔ اس واقعے میں دس بچے زخمی ہوئے
اور ایک اسکول کے سیکورٹی گارڈ کو مار پیٹ کا نشانہ بنایا گیا۔ ریاستی
ادارہ برائے کھیل، امورِ نوجواناں اور تحفظِ بچگاں کے مطابق،ً پچاس
نوجوانوں پر مشتمل نشے میں مدہوش ایک گروہ نے اسپورٹس اکیڈمی کی املاک پر
حملہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس صورتحال کے سبب ماہرین بالغوں کے جرائم پیشہ
گروہوں سے وابستہ نو عمر افراد کی تعداد میں اضافے کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
نوجوان کہیں کے ہوں اگر انھیں منظم جرائم پیشہ عناصر کے اثر و رسوخ کے ساتھ
ساتھ جرائم کی کھلی چھٹی مل جائے تو معاشرہ تہہ بالا ہوجائے گا۔ پاکستان
بھی بدقسمتی سے ان مما لک میں شامل ہے، جہاں نوجواں تیزی سے جرائم کی طرف
بڑھ رہے ہیں، تعلیمی اداروں میں گروہی ، لسانی اور مذہبی سیاست عروج پر ہے،
جس نے جھتہ بندی کی شکل اختیار کر لی ہے، طلبہ یونین پر پابندی اور ضیا
الحق کی جانب سے طلبہ اور نوجوانوں کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی نے بے شمار
مسائل کو جنم دیا۔ ایک طرف حکمران طبقات کے نسل در نسل سیاست پر قبضے کے
عمل کو سہل بنا دیا گیا اور دوسری جانب نوجوان نسل کو حکمرانوں کی عیاشیوں
اور لوٹ مار کے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ اسی عمل نے معاشی
اور سماجی حالات سے تنگ نوجوانوں کی بڑی تعداد کو حکمرانوں کیلئے خام مال
کے طور استعمال ہونے پر مجبور کیا اور ہمیں مختلف حکمران سیاسی جماعتوں اور
لیڈروں کے ساتھ منسلک ایسے گروپ وجود میں آتے ہوئے دکھائی دیئے جن کا کام
جرائم پیشہ سرگرمیوں کے ذریعے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے ساتھ
ملانا اور سیاسی شخصیات اور پارٹیوں کی سرپرستی میں منشیات کے دھندے سمیت
اغوا ، بھتہ خوری، جائیدادوں پر قبضے ، لوٹ مار اور مختلف نوعیت کے فسادات
برپا کرنا ، قتل و غارت گری کرنا ہوتا ہے۔ ایسے گروپ پاکستان کے تمام ہی
شہروں میں موجود ہیں اور اپنی سرگرمیاں کھلے عام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ قانون
نافذ کرنیوالے ادارے انکے خلاف کارروائی کرنے سے کتراتے اور اس لوٹ مار میں
اپنا حصہ وصول کر کے خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہر روز کئی
نوجوان اپنی جان سے ہاتھ دو بیٹھتے ہیں، ہر روز عزتیں لٹتی ہیں، امیدیں
ٹوٹتی ہیں، لوگ جائیدادوں سے محروم ہوتے ہیں اور در در کی ٹھوکریں کھانے پر
مجبور ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ چلتا ہی جا رہا ہے۔جب تک یہ خونی معاشی ڈھانچہ
اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے یہ سلسلہ چلتا ہی رہے گا، حکمران تبدیل ہونگے،
حکمرانوں کی نسلیں تبدیل ہونگی، محرومیاں جب تک موجود ہیں پاکستان کے ہر
شہر، ہر گلی ، ہر کوچے سے محرومیوں سے تنگ نوجوان اس دلدل میں دھنستے رہیں
گے اور حکمران طبقات ان گروپوں میں شریک نوجوانوں کو اپنے مقاصد کیلئے
استعمال کر کے پولیس کی گولیوں کا شکار بننے پر مجبور کرتے رہیں گے۔ پورے
ملک میں جرائم کے جو واقعات پیش آ رہے ہیں ان میں نوجوانوں کی اور وہ بھی
کم عمر کے نوجوانوں کی اکثریت ہے، پولیس اور جیلیں ان نوجوانوں کو سدھارنے
اور اچھا شہری بنانے کے بجائے جرائم سے قریب کر رہی ہیں۔ کراچی کے پوش
علاقوں میں ایسے گینگز کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، گن کلچر کے سبب مختلف گروپ
آپس میں دست و گریباں رہتے ہیں جس کے نتیجے میں یا تو یہ آپسی تصادم کے
دوران ایک دوسرے کی گولیوں کا شکار ہو جاتے ہیں یا سرپرستوں کی ضروریات
پوری کر لینے کے بعد پولیس کارکردگی کے نام پر سرکاری گولیاں انکے سینے چیر
جاتی ہیں۔
راولپنڈ ی اسلام آباد میں بھی سیاسی جماعتوں اور انکی ذیلی تنظیموں کے زیر
سایہ چلنے والے اس طرح کے جرائم پیشہ گروہ خاصی تعداد میں موجود ہیں اور
منشیات فروشی سمیت دیگر جرائم کھلے عام کر رہے ہیں، گزشتہ عرصہ میں
ہونیوالے مختلف واقعات میں کئی نوجوان ان جرائم پیشہ عناصر کے کھلے عام
شکار بنے، کئی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تو کئی موبائل، نقدی اور دیگر قیمتی
اشیا سے محروم ہو گئے، ان جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں سر انجام پانے والا
ہر ایک واقعہ مختلف نوعیت کے سیاسی ، معاشی اور انتظامی عزائم کی تکمیل کا
باعث بنتا ہے۔ کراچی میں اب زیادہ تر نوجوانوں کے ایسے آزاد جرائم پیشہ
گروپ بن گئے ہیں ، جو نہ تو کسی سیاسی جماعت یا سیاسی گروہ سے تعلق رکھتے
ہیں اور نہ ہی ان کے پش پردہ کوئی عوامل ہیں۔ یہ گروپ اپنی کاروائیوں میں
آزاد ہیں، کئی تو ایسے گروپ ہیں جن میں بڑے گھرانوں کے نوجوان شامل ہیں ،
جو صرف تفریح کے لئے جرائم کی ورادات کرتے ہیں اور کبھی کھبی اافسوس ناک
انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔ یہ جرائم پیشہ گروہ نے اپنے سربراہ خود چنتے ہیں۔
بعض اوقات یہ کسی سیاسی شخصیت کے مقاصد کی تکمیل کیلئے غریب عوام کے سروں
پر دہشت اور خوف بھی مسلط کرتے ہیں۔ راولپنڈی میں ایک افسوسناک واقعے میں
جرائم پیشہ عناصر نشے کی حالت میں ہاسٹل کے پانی کے ٹینک میں پیشاب کر رہے
تھے ، اس حرکت سے روکنے پر انہوں نے طالب علم کو قتل کر دیا۔پاکستان جو
پینسٹھ سالوں میں ایک قوم کی شکل میں ابھرنے کی اہلیت وصلاحیت سے عاری رہا
اور پوری ریاست قومیتوں کے ایک جیل خانہ کی صورت میں دنیا کے نقشے پر موجود
ہے۔ اس ملک میں بسنے والے غریب عوام حکمرانوں کے جبر و استبداد، سامراجی
اداروں کی لوٹ مار کا شکار ہوتے ہوئے کسمپرسی کی حالت میں زندگیاں گزار رہے
ہیں اور قومی محرومی سمیت معاشی اور سیاسی محرومیوں کا شکار ایک عبرتناک
صورتحال سے دو چار ہیں۔ان پر مسلط حکمران بلا رنگ ، نسل، قوم، علاقہ، قبیلہ
یکجا ہو کر کشمیر کے پہاڑوں سے لیکر سندھ کے صحراؤں تک بسنے والے تمام عوام
کو قوموں، علاقوں، قبیلوں، نسلوں، فرقوں اور مذاہب میں تقسیم در تقسیم کرتے
ہوئے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں سرگرم دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار کر رہے ہیں۔
اس تقسیم در تقسیم کو مزید تقویت پہنچانے کیلئے حکمران طبقات نے اپنے ہی
گماشتے پال رکھے ہیں جو مظلومیت کا رونا رو کر اپنے مقاصد کے حصول میں مگن
ہیں۔ یہ قبضہ گروپ اور جرائم پیشہ گروہ بھی انہی حکمرانوں اور ان کے نظام
کے پیدا کردہ ہیں جو براہ راست معاشی اور سماجی مسائل سے تنگ نوجوانوں کو
لوٹ مار کے اس ننگے کھیل میں جھونک رہے ہیں۔ دونوں اطراف غریب نوجوانوں کا
قتل عام ہو رہا ہے اور حکمران نسل درنسل اپنی حکمرانی کو جاری رکھے ہوئے
ہیں۔ سندھ کے صحراؤں سے کشمیر کے پہاڑوں تک بسنے والے تمام نوجوانوں اور
محنت بیچنے والے غریب عوام کے دکھ ایک ہیں، تکالیف و مسائل ایک ہیں، بھوک
وہاں بھی ہے اور یہاں بھی، بیروزگاری کی اذیت بھی ایک، قومی محرومی بھی اور
لوٹ مار ، استحصال کرنیوالے ہمارے دشمن بھی ایک ہیں، ان دہشت پھیلانے والے
عناصر کو پیدا کرنیوالے بھی وہی ہیں اور ان کی گولیوں کا شکار ہونیوالے
نوجوان، بڑے ، بوڑھے، عورتیں اور بچے کسی بھی شہر، محلے، گلی، کوچے، علاقے
یا قبیلے کے ہو سکتے ہیں۔ یہ معاشی اور سیاسی ڈھانچہ اسقدر بوسیدہ ہو چکا
ہے کہ ان سب مصائب و اذیتوں کے علاوہ انسانیت کو اورکچھ نہیں دے سکتا اور
اس قتل و غارتگری سے نجات بھی مشترک لڑائی کے بنا ممکن نہیں، اس سلسلے کو
توڑنے کیلئے نوجوانوں اور محنت کشوں کو یکجا ہونا ہوگا، علاقے ، قوم،
قبیلے، رنگ، نسل ، مذہب کی تفریقوں کو پھیلانے والے عناصر کا قلع قمع کرتے
ہوئے اس نظام کیخلاف ایک مشترک جدوجہد ہی محرومیوں کے خاتمے کا باعث ہو
سکتی ہے۔کراچی میں لیاری کبھی کھیلوں ،سیاسی سرگرمیوں کا مرکزتھا اب سفاکیت
کی نئی منزلیں طے کررہا ہے۔اگرچہ، لیاری کے بدنصیب باشندوں کے واسطے گولیاں
چلنے کی آوازیں اور دستی بموں کے دھماکے کوئی اجنبی نہیں ہیں۔ لیکن اب آئے
دن کے واقعات نے عوام کو نڈھال کردیا ہے۔ ماضی میں بھی، جرائم پیشہ گروہوں
کے درمیان یا پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ان کی جھڑپوں میں چلنے
والی گولیوں کی زد میں آکر، بے گناہ شہری اپنی جان سے جاتے رہے ہیں ۔ ان
دنوں لیاری میں ہونے والے واقعات میں جان بوجھ کر خوف و دہشت پھیلانے کے
لیے جرائم پیشہ افراد براہ راست شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان جارئم
پیشہ افراد نے اپنے ایک ساتھی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لئے خریداری میں
مصروف معصوم شہریوں کا قتلِ عام کیا۔ جرائم پیشہ کے اس حملے میں کم از کم
چودہ افراد اپنی جانوں سے گئے، مرنے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے
شامل تھے۔ماضی میں، گروہوں کے مسلح تصادم سے قبل شہریوں کی خبرداری کے لیے
اعلان کیا جاتا تھا لیکن اس مرتبہ قتلِ عام سے پہلے اس طرح کا کوئی اعلان
سامنے نہیں آیا۔ متحرک سیاسی سرگرمیوں کے مرکز لیاری کے اطراف کی محنت کش
بستیاں، ریاست اور سیاسی جماعتوں کی طرح جرائم پیشہ گروہوں کے سامنے ہتھیار
پھینک چکی ہیں۔شہر کے اندر دیگرعلاقوں پر چھائی مافیا کی طرح، لیاری بھی
باہر سے آنے والوں کے واسطے ایسا 'نو گو ایریا' بن چکا، جہاں قانون نافذ
کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی داخل نہیں ہوپاتے۔ یہاں کی سڑکوں پر، بے
تحاشہ ہتھیاروں سے لیس، جرائم پیشہ گروہوں کے بدمعاش نوجوانوں کا راج ہے۔یہ
صورتِ حال برسوں میں اس مقام تک پہنچی ہے، جس کا ذمہ دار سیاسی قیادت اور
حکومت کو ٹھرایا جاتا ہے۔ یہ جرائم پیشہ مسلح گروہ اب اس قدر مضبوط ہوچکے
کہ انتخابات میں ان کی مرضی سے لیاری سے امیدوار 'نامزد' کیے جاتے ہیں۔
مسئلے کی جڑ یہ ہے کہ لیاری کو جرائم پیشہ گروہوں کے چنگل سے چھڑانے کے لیے
سیاسی آمادگی دکھائی نہیں دیتی۔گذشتہ کئی ماہ سے کراچی اور لیاری کے بعض
مخصوص حصوں میں جاری ایک بڑے آپریشن کے باوجود قانون نافذ کرنے والے ادارے
اب تک لیاری کو جرائم پیشہ گروہوں سے مکمل طور پر پاک کرنے میں ناکام رہے
ہیں۔ لیاری میں بھی سب سے زیادہ نوجوان متاثر ہورہے ہیں، ان کے پاس تعلیم
روزگار اور تفریح کے مواقع موجود نہیں ہیں۔ دنیا بھر میں جب تک غربت کا
خاتمہ نہ ہو، نوجوانوں کے لئے تعلیم روزگار، تفریح کے موقع موجود نہ ہوں،
جرائم کرنے والوں کو گرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جائے گا۔
چاہے نیویارک ہو یا لیاری امن ایک خواب ہی رہے گا۔ |