جیوئل کاکس ، ریمنڈ ڈیوس ، ایف بی آئی وغیرہ

پچھلے دنوں خبر آئی کہ کراچی پولیس نے ایک امریکی شہری کو کراچی ائیر پورٹ سے گرفتار کیا ۔ یہ شخص اسلام آباد جا رہا تھا ۔ اس شخص کے بیگ سے اس وقت نائن ایم ایم پستول کی پندرہ گولیاں اور ایک میگزین بر آمد ہوا ۔ پاکستان کی فیڈرل انوسٹگیشن ایجنسی (ایف ۔ آئی ۔ اے ) نے ایئر پورٹ پولیس اسٹیشن میں اس شخص پر سندھ آرمز ایکٹ کے سیکشن 23 اے تحت مقدمہ درج کر دیا ۔ عدالت میں پیش کیے جانے پر مبینہ شخص کو دس مئی تک پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا ۔

اس شخص کے گرفتار ہوتے ہی امریکی حکام حرکت میں آگئے ۔ بی بی سی اردو کے مطابق امریکی سرکاری ذرائع ابلاغ نے سرکاری ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ کراچی ایئر پورٹ سے گرفتار ہونے والے امریکی شہری ایف بی آئی کے ایجنٹ ہیں ۔ جو عارضی طور پر پاکستان میں تعینات تھے ۔

جیوئل کاکس نامی یہ شخص منگل کے روز گرفتار ہوا ۔ اس سے اگلے دن ہی امریکی حکام نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ مبینہ شخص ایف بی آئی کا ایجنٹ ہے ۔ امریکی محکمہ ِ خارجہ نے بھی اس شخص کے ایف بی آئی کے ایجنٹ ہونے کی تصدیق کر دی ۔ امریکی حکام نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کی تعیناتی امریکی ریاست میامی کے فیلڈ آفس سے کی گئی تھی ۔ اسے پاکستانی پولیس کی تربیت کے لیے 3 ماہ کے لیے پاکستان بھیجا گیا تھا۔

یہ بڑی عجیب بات ہے کہ مبینہ شخص اگر چہ پاکستانی پولیس کے تربیت کے لیے آیا تھا ، لیکن اسے گرفتار بھی پاکستانی پولیس نے کیا ۔ گویا یہ شخص آیا تو پولیس کی تربیت کے لیے تھا ، لیکن پاکستانی پولیس کو معلوم نہیں تھا کہ یہ شخص ان کی تربیت کے لیے آیا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ موجودہ دور کا میڈیا بہت تیز ہے ۔ امریکا کی طرف سے پاکستان کے لیے چھوٹی چھوٹی " خدمات" بھی ہائی لائٹ ہو جاتی ہیں ۔ مبینہ شخص اگر (امریکی حکام کے موقف کے مطابق) پاکستانی پولیس کی تربیت کے لیے آیا تھا تو اتنی اہم خبر کی بھنک پاکستانی میڈیا کو کیوں نہیں پڑی ؟

بعد میں یہ خبربھی پڑھنے کو ملی کہ ایف بی آئی کے اس ایجنٹ کے لیپ ٹاپ سے کراچی کی اہم معلومات امریکا کو بھیجنا کا انکشاف ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ اس شخص کے بیگ سے ایک چاقو اور ایک آہنی مکا بھی ملا ہے ۔

لیکن اتنے خطرنا ک مجرم کو خصوصی پروٹوکول فراہم کیا گیا ۔ اگلی صبح ہوتے ہی ملزم کو غیر ملکی ریسٹورینٹ کا ناشتا بھی پیش کیا گیا ۔ ملزم کو لاک اپ کے بجائے علیحدہ کمرے میں رکھا گیا ۔ یوں ایک بار پھر ریمنڈ ڈیوس کی یاد تازہ ہوگئی ، جس نے لاہور کے دو شہریوں کو قتل کیا تھا ، لیکن اس کے باوجود اس کی خوب آؤ بھگت کی گئی ۔

بلا شبہ یہ امریکی حکام کی شدید فعالیت کا مظہر ہے کہ دس مئی سے پہلے پہلےایف بی آئی کا یہ ایجنٹ رہا ہو گیا ۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملیر محمد یامین نے گرفتار امریکی شہری جیوئل کاکس کی دس لاکھ روپے کی ضمانت منظور کرتے ہوئے اسے رہا کر دیا ۔

ایف ۔ بی ۔ آئی کے اس ایجنٹ کے فوری رہا ہونے پر میں سوچ رہا ہوں کہ اگر ہمارا کوئی آدمی امریکی ائیر پورٹ سے نائن ایم ایم گولیوں کے ساتھ گرفتار ہوتا تو کیا امریکا بھی اس شخص سے وہی سلوک کرتا ، جو ہم نے کیا ہے ؟ کیا وہ شخص بھی ضمانت پر رہا کر دیا جاتا ؟ اور اگر اس شخص کے لیپ ٹاپ سے خفیہ معلومات پاکستان کو بھیجنے کا انکشاف ہوتا تو امریکا اس کو محض دس لاکھ روپے کی ضمانت پر رہا کر دیتا ؟ پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا اس شخص کی گرفتاری پر پاکستانی حکام کی وہی فعالیت نظر آتی ، جوامریکی حکام نے اپنے شخص کی گرفتاری پر دکھائی ؟ہر گز ایسا نہ ہوتا ۔ اگر امریکا ایسا نہیں کرتا تو ہم کیوں ایسا کر رہے ہیں ؟

پاکستان کے حالات روز بروز خراب ہوتے جا رہے ہیں ۔ شہر ِ قائد کی خونی ٹارگٹ کلنگ نے پورے پاکستان کی فضا سوگ وار کر رکھی ہے ۔ ایسا کوئی دن مشکل ہی آتا ہے ، جس دن کراچی میں کوئی لاشہ نہ گرے ۔ اس میں شک نہیں کہ فرقہ واریت ، زبان اور قوم کے نام پر گرائی جانے والی اکثر لاشوں میں وطن ِ عزیز کے بھٹکے ہوئے باسیوں کا ہاتھ ہے ، لیکن جیوئل کاکس اور ریمنڈ ڈیوس جیسے امریکی باشندے سر ِ عام پاکستان کے ائر پورٹوں اور گلیوں میں گھومیں پھریں اور ہمارے شہروں کی معلومات امریکا تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ ہمارے شہریوں کو بھی کھلم کھلا قتل کرتے جائیں ، تو اس صورت میں کراچی کی ٹارگٹ کلنگ ، بلوچستان کی علیحدگی پسند تحریکا ت اور خیبر پختون خوا کے بم دھماکوں میں ایف بی آئی اور بلیک واٹر کے ایجنٹوں کی کار فرمائی کا سرے سے انکار ہر گز ۔۔۔ہر گز قرین ِ مصلحت نہیں ہے ۔

نہ جانے ہم امریکا سے اتنے خائف کیوں ہے ؟نہ جانے ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ ہم صحیح ، غلط کی کی تفریق کے بغیر امریکا کی ہر بات ماننے پر مجبور ہو چکے ہیں ۔ اگر ہم یوں ہی رہے تو پھر پاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرات سے کسی صورت نہیں نمٹ سکیں گے ۔ اگر امریکا ہمارا سو فیصد دشمن نہیں تو سو فی صد یار بھی نہیں ہے ۔ یہ بات ہمارے حکام ِ بالا کو سمجھنی چاہیے ۔ ہمارے حکمرانوں کو اس بات کا بھی ادراک کرنا چاہیے کہ اگر امریکا ہماری مدد کر رہا ہے تو اسکا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ ہم امریکا کی ہر بات مانتے ہوئے " جی حضور ، جی حضور" کرتے رہیں ۔

یہ نازک وقت متقاضی ہے کہ پاکستان کی خود مختاری اور سلامتی کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے امریکا کی ہربات ماننے کی پالیسی ترک کر دینی چاہیے۔
(نوٹ : میرا فیس بک رابطے کا ایڈریس یہ ہے : https://www.facebook.com/naeemurrehmaan.shaaiq)

Naeem Ur Rehmaan Shaaiq
About the Author: Naeem Ur Rehmaan Shaaiq Read More Articles by Naeem Ur Rehmaan Shaaiq: 122 Articles with 155688 views میرا نام نعیم الرحمان ہے اور قلمی نام نعیم الرحمان شائق ہے ۔ پڑھ کر لکھنا مجھے از حد پسند ہے ۔ روشنیوں کے شہر کراچی کا رہائشی ہوں ۔.. View More