ہر شخص دعویٰ کرتا ہے کہ اس کی ماں دنیا کی سب سے عظیم
اور اچھی ماں ہے۔ سچ بھی یہی ہے کہ دنیا کی ہر ماں عظیم ہوتی ہے بلکہ ہر وہ
عورت عظیم ہوتی ہے جس کے اندر جذبۂ مامتا ہو۔ مامتا کے جذبے سے عاری عورت
کے کتنے ہی بچے کیوں نہ ہوں، وہ کتنی ہی اچھی ماں بننے کے دعوے کیوں نہ
کرے، اچھی ماں کبھی نہیں ہوسکتی۔
اﷲ تعالیٰ نے ہر عورت کے اندر ممتا کا جذبہ رکھا ہے مگر اسے محسوس کرنے
والی خاص ماں ہوتی ہے۔ ماں کو اپنی اولاد سے بہت محبت ہوتی ہے، وہ خود
بھوکی رہتی ہے مگر اپنے بچوں کو بھوکا نہیں رہنے دیتی۔ وہ دنیا کی ہر تکلیف
برداشت کرتی ہے مگر یہی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی اولاد کو ہر دُکھ تکلیف سے
دور رکھے۔ ایک ماں کو اگر کسی ایک فیصلے کا حق دیا جائے تو وہ اپنی اولاد
کی قسمت کا فیصلہ اپنے ہاتھ میں لینا پسندکرے گی تاکہ وہ اس کے مقدر سے ہر
دکھ درد مٹا دے۔
آج کی تحریر اس عظیم ماں کے نام جس نے اپنی اولاد کے لیے کئی برسوں تک اپنے
والدین کے سامنے ایک گاؤں میں رہتے ہوئے ان کے پاس سے گزرنے کے باوجود بات
کرنا تو درکنار سلام تک نہ کیا۔ سُسرال والوں کی یہ ستم ظریفی کئی برسوں تک
اپنی جان پر برداشت کرنے کے بعد آخر اس کے دل نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ موت کی
دہلیز پر پڑتے اس کے قدم، فرماں برداری اور حُسنِ اخلاق بھی سُسرال والوں
کا دل موم نہ کر سکا تاہم، اس کے شوہر سے یہ سب برداشت نہ ہوا تو اس نے بہت
مشکل سے اپنی بیوی کو اس کے والدین سے ملنے کی اجازت لے کر دی۔ تب اس نے
موت کو شکست دے کر ایک نئی زندگی میں قدم رکھا۔
ہمت وحوصلہ، حُسنِ ِاخلاق، صبروتحمل کی پیکر، سرتاپا نرم دلی کا مجسمہ یہ
ماں دنیا کی ہر ماں کے لیے ایک بہترین مثال ہے۔ لفظ ماں ذہن میں آتے ہی ایک
خوش گوار احساس پیدا ہوتا ہے۔ تحفظ کا یقین ہونے لگتا ہے، اپنا آپ ہر
پریشانی سے بَری لگنے لگتا ہے، دل کو ایک تسلی بخش تشفی اور سکون مہیا ہونے
لگتا ہے، جسم تو کیا روح بھی پُرسکون اور مطمئن ہوجاتی ہے۔
زندگی میں جب بھی سانس کی ڈور کٹنے لگے، پاؤں اکھڑنے لگیں، زندگانی کی کشتی
ڈگمگانے لگے تو ماں کے آنچل میں آتے ہی زندگی کا سفر پھولوں کی خوشبو سے
مہک اٹھتا ہے۔ ستاروں کی طرح جگمگانے لگتا ہے، ایک انجانا سا تاعدم رہنے
والا اطمینان محسوس ہوتا ہے۔ ماں کے بغیر جینے کا تصور بھی ادھورا لگنے
لگتا ہے۔ جب ماں کی دعا لے کے گھر سے نکلو تو کسی طوفان سے بھی ڈر نہیں
لگتا کیوں کہ :
کتنے طوفان مجھے دیکھ کر رُخ موڑتے ہیں
مجھ پر ماں تیری دعاؤں کا اثر ہے کتنا
اُترنے ہی نہیں دیتی مجھ پر کوئی آفت
میری ماں کی دعاؤں نے آسمان روک رکھا ہے
ماں کی عظمت کا اعتراف ہر دور میں ہر شخص نے کیا ہے۔ رابعہ بصری نے کہا:
’’جب بھی مَیں دنیا کے ہنگاموں سے تھک جاتی ہوں، لوگوں کی باتوں سے کترانا
چاہتی ہوں، اپنے اندر کے شور سے ڈر جاتی ہوں پھر مَیں اپنے سچے سائیں کے
آگے جھک جاتی ہوں یا․․․․ اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کے جی بھر کے رولیتی
ہوں۔‘‘
انسان کو جب بھی کوئی بھی دکھ پریشانی ہو، وہ کتنا ہی اداس کیوں نہ ہو اسے
سکون ماں کی گود میں ہی آ کر ملتا ہے۔ زمانے بھر کی تھکن دور ہو جاتی ہے،
زندگی بھر کی بے خوابی ختم ہو جاتی ہے۔
ماں اپنے آنچل کی ہوا دے مجھ کو
پھیر کر انگلیاں بالوں میں سُلا دے مجھ کو
ماں کا رتبہ اسلام میں بہت بلند ہے اسی لیے اس کے قدموں میں جنت رکھ دی
گئی۔ اولاد پر اس کا احترام واجب کر دیا گیا بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ
’’والدین میں سے اگر کوئی ایک بھی بڑھاپے کو پہنچ جائے تو اسے اُف تک نہ
کہو اور نہ ہی جھڑکو۔‘‘
ایک ماں دنیا جہان کی تکلیفیں برداشت کر نے کے بعد ایک بچے کو جنم دیتی ہے۔
اسے بہت مان سے، بہت چاہ سے بڑا کرتی ہے۔ اپنے کئی ارمان اس سے وابستہ کر
لیتی ہے لیکن جب وہی بچہ بڑا ہوکر اس کے سارے ارمانوں کو توڑ دے تب اس ماں
کو اپنے ارمانوں کی کرچیاں اٹھاتے اُٹھاتے، انہیں سمیٹتے سمیٹے یہ بھی
دھیان نہیں رہتا کہ کب اس کے ہاتھوں کے ساتھ اس کا دل بھی زخمی ہو گیا۔
ایک ماں اپنی اولاد سے اس قدر محبت کرتی ہے کہ اسے اولاد کے دیے ہوئے زخم
بھی تکلیف نہیں دیتے اور اولاد کی ایک مسکراہٹ کے بدلے وہ سب کچھ ایسے
بُھلا دیتی ہے جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں، کبھی اس کی اولاد نے اسے کوئی
حزن وملال کا موقع دیا ہی نہیں۔ تب اس کی پیار بھری آنکھیں آنسوؤں کے پیچھے
چمک رہی ہوتی ہیں مگر اولاد کو وہ آنسو نہیں صرف پیار بھری چمک ہی نظر آتی
ہے۔
ایسی ماؤں کو عظیم نہ کہیں تو پھر کیا کہیں؟ اﷲ نے ایک ماں کے اندر اتنی
محبت کے ساتھ حد سے زیادہ برداشت کرنے کی صلاحیت بھی رکھی ہے۔ وہ اپنے بچوں
کی بڑی سے بڑی غلطی کو بھی بہت آسانی سے معاف کر دیتی ہے۔ ان کی ڈھال بن کے
انہیں ہر مصیبت سے بچاتی ہے۔ اس کی ہر دعا ، ہر تمنا، ہر التجا، اولاد کی
خوشی کے لیے ہوتی ہے۔ اس کی خوشی کے لیے وہ اپنی اَنا، اپنے اصولوں کو بھی
پسِِ پشت ڈال دیتی ہے۔ مگر کبھی کبھی وہی اولاد اُسے غموں اور دکھوں کی
دَلدَل میں دھکیل دیتی ہے، اس کے جذبات کو مجروح کرتی ہے اور اُس کے سارے
احسانات، ساری قربانیاں، سارے دکھ بھول جاتی ہے۔
بدقسمت ہے وہ شخص جو ماں کے لیے غموں کا باعث بنے۔ اُس کی ماں کی آنکھ میں
اُس کی وجہ سے آنسو آئیں۔ تو کیوں نہ ہم اپنی ماں کو خوش رکھ کر اپنا مقدر
سنوار لیں، اپنی آخرت اچھی بنا لیں، اپنے لیے دنیا میں ہی جنت حاصل کرلیں۔ |