لادین، اسلام مخالف اور مغربی قوتوں کے بہت سارے ہتھکنڈوں،
مذہب اسلام کے تقدس واحکامات کی پامالی کے لیے بروئے کار لانے والے منصوبوں
اور مسلمانوں کے دلوں سے شعائر اسلام سے تعلق ومحبت کونکالنے کے لیے
جاہلانہ پروپیگنڈوں میں سے ایک نعرہ جو زیادہ اٹھ رہاہے اور دیارمغرب سے
تجاوز کرکے بڑی تیزی سے مسلمان ’’دانشور‘‘ طبقہ کے اذہان کوبھی اپنی لپیٹ
میں لے رہاہے وہ عورتوں کے حقوق سے متعلق ہے۔ کلمۃ حق اُریدبھاالباطل (یعنی
حق کلمہ یابات کہہ کر برائی کی نیت کرنا) کے مصداق مختلف سمتوں سے اٹھنے
والی یہ آوازیں تو بظاہرکانوں کوبھلی لگتی ہیں لیکن ان کے پشت پرموجودوہ
ارادی یاغیرارادی سازش یاعمل کبھی نہ بھولناچاہئے جس کے ذریعے مسلم معاشرے
سے ’’حیا‘‘ جیسی عظیم صفت کو نکال کرعریانی و فحاشی کوپروان
چڑھایاجارہاہے۔بالواسطہ یابلاواسطہ مذہب اسلام اور مسلمانوں پر یہ الزام
لگایاجاتاہے کہ ان کے ہاں عورتوں کے حقوق نہیں ہیں اور اگرکچھ ہیں بھی تو
ان کالحاظ نہیں، حالانکہ حقیقت اس کے سراسر خلاف ہے۔ اسلام نے عورتوں
کوجتنے حقوق اور آسانیاں دے رکھی ہیں دنیاکاکوئی دوسرامذہب اس کی مثال پیش
نہیں کرسکتالیکن دراصل انسانی مزاج واشتہا کے اختلاف سے معاشرتی رجحانات
وترجیحات میں بھی فرق آتاہے۔ اگرحق اس بات کانام ہے کہ عورت کوچڈی پہناکر
ننگا بنادیاجائے تو اسلام اس کی نفی کرتاہے۔ اسلام ومسلمان یہ بات بھی
گوارا نہیں کرتاکہ اس کی بہن، بیٹی یابیوی کسی اجنبی شخص کے ساتھ خلوت
اختیار کرے یاصباکی پری بن کرغیروں کے ساتھ کسی محفل میں جلوت کے کرشمے
دکھابیٹھے۔ اسلام یہ تعلیم بھی نہیں دیتا کہ کوئی عورت ایک شوہر سے ہٹ
کربہت سارے لوگوں کے لیے کسی بھی طریقے سے لذت وتسکین کاسامان بنے۔ اسلام
عورتوں پر یہ بوجھ بھی نہیں ڈالتاکہ وہ گھرسے نکل کرمختلف دفاتر اور
کمپنیوں کے چکرکاٹتے ہوئے اپنے شوہر اور خاندان کے لیے آمدنی کے ذرائع تلاش
کرے ، مذہب اسلام نے شادی کے سلسلے میں عورت کی رضامندی اور پسند کاپورا
خیال رکھا ہے لیکن اس کے لیے یہ طریقہ قطعاً نہیں بتایاہے کہ لڑکی اپنے لیے
بوائے فرینڈ رکھے یاگلیوں پارکوں میں گھوم کراپنے لیے شوہر تلاش کرے۔ البتہ
اسلام مسلمانوں کوتاکیدکرتاہے کہ عورت کوانتہائی عفت وپاکدامنی کے ساتھ
گھراندررکھ کراس کی تمام ترضروریات کو پورا کردیاجائے اور اس کو آمدنی
وغیرہ کے سلسلے میں قطعاً تکالیف ومصائب میں نہ ڈالاجائے۔ اسی طرح اگرکوئی
شوہردرست طریقے سے اپنی بیوی کی کفالت نہ کرسکتاہو یانہ کرتاہو تو شریعت
اسلامی کی روسے بیوی اپنے شوہرکے خلاف مقدمہ دائرکرسکتی ہے۔کیا دنیاکے کسی
بھی معاشرے میں عورت کو اتنے آرام وسکون سے گھربیٹھنے کاموقع فراہم
کیاجاتاہے!!! شریعت اسلامی کی روسے عورت کے لیے بہت ساری حدودوقیود متعین
ہیں جن سے باہرنکلنا غیروں کو تو اچھا لگے گالیکن ایک مسلمان ایساکبھی
برداشت نہیں کرتا۔ غیرمسلم اور ان کے کھوکھلے نعروں سے مرعوب ہمارے کمزور
مسلمان لاکھ دفعہ مردوعورت کی ’’برابری‘‘ کادعوی کریں لیکن اسلام نے بہرحال
مردکوعورت کے مقابلے میں فوقیت دی ہے اور قرآنی آیات واحادیث رسولﷺ اس
سلسلے میں واضح طورپرموجودہیں۔ ہاں بنیادی انسانی ضروریات وحقوق میں
مردوعورت کے درمیان کوئی تمیزنہیں؛ اسلام دونوں کوبہتراندازسے زندگی گزارنے
کاحق دیتاہے۔ اگرغورکیاجائے تو اپنے آپ کوانسانی اور بالخصوص حقوق نسواں کی
علمبردارکہلانے والی مغربی قوتیں مردوعورت کی برابری کے جونعرے لگاتی رہتی
ہیں ان کی وجہ سے عورتوں کوبہت بڑانقصان ہوا کیونکہ برائے نام’’حقوق نسواں‘‘
کاعملی مطلب یہ نکل آیا کہ خواتین کی عزت وعفت اور حیاختم ہوگئی، کھلونے کی
طرح ان کو تختۂ مشق بنایا گیا، ان کا سکون اور گھرکے اندرآرام سے بیٹھ
کرکھا پیتے ہوئے زندگی گزارنے کے عمل کوچھین کران کو آمدنی اور باہرگھومنے
پھرنے کے سلسلے میں تکالیف کاشکار بنایاگیا۔ اس کے مقابلے میں اسلام نے
عورت کے مقابلے میں مردکو فوقیت دیکرتمام انتظامی اور معاشی ذمہ داریوں کا
بوجھ مرد کے کندھے پرڈالدیا؛ وہی کمائے گا، وہی خرچ کرے گااور وہی معاشرے
میں تمام ترانتظامی امورچلائے گا۔ ساتھ ساتھ عورت علم کے زیورسے آراستہ
ہوگی لیکن اس کے لیے خاص اسلامی طریقہ اپنایاجائے گا، اگرعورت کے لیے مردنہ
رہا تو سخت مجبوری کی صورت میں آمدنی کے ذرائع بھی ڈھونڈے گی لیکن یہ سب
کچھ اس اندازسے کہ اس کے حق عزت پرحرف نہ آئے۔ الغرض عورت گھرسے باہر کے
تمام کاموں سے بے پرواہ ہوکر انتہائی محفوظ اندازسے گھریلو امور پرتوجہ
دیکر اپنے مرد کے مال ، جان اور عزت وآبروپرنظررکھے گی اور اس کی حفاظت کرے
گی۔ کیا خاتون خانہ بن کرپرسکون زندگی گزارنا بہترحق ہے یاصباکی پری بن
کراپنا سب کچھ لٹانا باعث آرام ہے!!!
میری دعوتِ فکر۔۔۔ کہ ہمارے مسلم معاشرے میں خواتین کی جانب سے روز پیش آنے
والے خودکشیوں، عزت کی پامالی، گھروں سے بھاگنے وغیرہ جیسے واقعات سے سبق
حاصل کرتے ہوئے حالات سدھارنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ |