مَاں عظیم مقام و مرتبہ والی ہستی

 آج میں جس ہستی کو موضوعِ تحریر بنانے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں، وہ دنیا کی عظیم ترین ہستی اور اس کا رشتہ انمول ترین ہوتا ہے ۔ آج میں جس ہستی زینت قرطاس کر رہا ہوں ، وہ ہستی ’’ماں‘‘ کی ہے ۔ماں جو دنیا کی عظیم ترین ہستی اور زندگی میں محبت و روشنی کا روشن مینا رہے۔۔۔ماں کی خوشنودی دنیا میں باعث دولت اور آخرت میں باعث نجات ہے۔۔۔دنیا میں سب سے شیریں اور دلنشین پیار صرف ماں کا پیار ہے ۔۔۔ماں کی آغوش انسان کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔۔۔ماں زندگی کی تاریک راہوں میں روشنی کا مینار ہے۔۔۔ گھرمیں ماں باپ موجود ہوں تو گھر میں اطمینا ن وسکون اورخیروبرکت ہوتی ہے۔
ماں باپ ایسی نعمت کوئی دنیا میں نہیں ہے
حاصل ہو یہ نعمت تو جہاں خُلدِ بریں ہے

ماں کو ہم جس روپ میں بھی دیکھنا چاہیں ا س کا ہر روپ ہمیں انوکھا اور نرالا نظر ا ٓتا ہے ۔۔۔اس کو اگر ہم محبت و شفقت کے روپ میں دیکھیں تو دنیا میں اس سے بڑھ کر کوئی محبت کر نے والا نہیں ہے ۔۔۔اس کو رشتوں کے باب میں دیکھیں تو کوئی رشتہ اس کا ہمسر نہیں ہے۔۔۔ اس کو ہم دوستی کی شکل میں دیکھیں تو اس سے بڑھ کر کوئی دوست نہیں ہے ۔۔۔ اور اگر ہم اس کو ہمدرد اور غمخوار کے روپ میں پرکھنا چاہیں تو ماں سے بڑھ کر کوئی ہمدرد و غمخوار نہیں ہوتا ہے ۔۔

جی ہاں میں جس ہستی کی بات کر رہا ہوں، وہ ہستی ’’ماں ‘‘ کی ہستی ہے ۔ ماں کے لفظ میں عجیب و غریب او ردلچسپ نکتہ یہ ہے کہ اس کو ہم دنیا کی جس زبان میں بھی پکاریں تو ماں کے لفظ میں لفظ ’’میم‘‘ ضرور آتا ہے، مثلاً اردو میں’’ماں‘ کہتے ہیں تو عربی میں’’ اُم‘کہتے ہیں۔ انگلش میں ’’مدر‘‘(Mother)، ہندی میں’ماتا‘‘،پنجابی میں ’’اماں‘‘، پشتو میں’’مور‘‘، سندھی میں ’’ماء ‘‘اورفارسی میں ’’مادر‘‘ کہتے ہیں۔

دنیاکی اکثر زبانوں میں ماں کو جس لفظ اور نام سے پکارا جاتا ہے، اس میں لفظ’’میم‘‘نگینہ کی طرح جڑا ہوا ملتا ہے۔ماں کے لفظ میں ’’میم‘‘ کا ہونا کیا ظاہرکرتا ہے اور اس میں کیا حکمت وفلسفہ پوشیدہ ہے؟ میرے ناقص فہم کے مطابق:
O ماں کی میم ……اس کی بے مثال’’ محبت و احترام‘‘ کو ظاہر کر تا ہے ۔
O ماں کی میم ……اولادسے اس کی ’’ہمدردی اور غمخواری‘‘ کوواضح کر تا ہے ۔
O ماں کی میم …… ماں کے رشتے کی’’ عظمت و اہمیت‘‘ کو بیان کر تا ہے ۔
O ماں کی میم ……ماں کی ’’رحمت و مہربانی‘‘ کو ہمارے سامنے آشکار کر تا ہے ۔
O ماں کی میم ……ماں کی انتہائی ’’ممتا اور محبت‘‘ کو سمیٹتا ہے۔
O ماں کی میم ……دعائے ماں سے اولادکیلئے کامیابی وکامرانی کو لازم کرتی ہے۔
O ماں کی میم ……دنیا کی ہر اولاد کو ماں کی ’’تعظیم و تکریم ‘‘کا درس اور سبق دیتا ہے ۔

ماں ! وہ ہستی ہے جو دکھ سکھ اور خوشی و غمی دونوں کو سمیٹ لیتی ہے ۔۔۔ مصیبت ہم پر آتی ہے تکلیف ماں کو ہوتی ہے ۔ چوٹ ہمیں لگتی ہے ،درد ماں کومحسوس ہوتا ہے ۔۔۔بخار ہمیں ہوتا ہے ، نیند ماں کو نہیں آتی ۔۔۔گرتے ہم ہیں ،لیکن چوٹ ماں کومحسوس ہوتی ہے ۔ ماں وہ ہے جو ہمارے لئے دن رات دعائیں کر تی ہے اوراپنے رب سے فریاد کرتی ہے کہ اس کے بچے اس دنیا میں کامیاب وکامران ہو جائیں۔
ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے ایک روز کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
ماں ایک ایسی خوشبو ہے جس سے یہ جہاں مہک اٹھتا ہے۔ رب العزت نے اپنا وصف رحمت اسے عطا کرکے اس کے درجات اور مقامات کو اتنا بلند کردیا کہ جنت اس کے قدموں کے نیچے رہ گئی۔ایک حدیث پاک میں اﷲ کے پیارے رسول ﷺ نے ماں کی عظمت بیان کر تے ہوئے ارشاد فرمایا کہ :’’جنت ! ماں کے قدموں تلے ہے‘‘۔
کتنی خاموش حقیقت ہے ذرا سوچو تو
ماں کے قدموں تلے جنت ہے ذرا سوچو تو

ماں ! کا دوسرا نام جنت ہے ، لہٰذا میرے آقا ﷺ کے فرمان کے مطابق ماں کی خدمت اور اطاعت کر کے جنت اور اس کی لا زوال نعمتیں حاصل کر سکتے ہیں کہ جنت بھی ماں کے قدموں میں ملتی ہے ۔ ماں کی خدمت و اطاعت دنیا میں باعث رحمت و برکت اور آخرت میں ذریعہ نجات ہے ۔ماں کی فرمانبرداری کر نے والا جنت میں اور نا فرمانی کر نے والا جہنم میں داخل کیا جائے گا ۔ ماں کی نا فرمانی کر نا کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ ہے ۔اسلام والدین اور خصوصاً ماں کے ساتھ حسن سلوک کی بے حد تلقین اور تاکید کرتاہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ:’’ او ر ہم نے انسان کو حکم دیا کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرے، اس کی ماں نے اسے تکلیف سے پیٹ میں رکھا اور اسے تکلیف سے جنا‘‘۔

اﷲ تعالیٰ نے انسان کو تاکید کے ساتھ حکم دیا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ ہمیشہ اچھا سلوک کرے اوربھلائی کا برتاؤ کرے اور خصوصی طور پر اپنی والدہ کے ساتھ حسن سلوک اورنیکی کرے،کیونکہ اولاد کی پرورش میں والدہ کو ہی زیادہ محنت ومشقت کرنی پڑتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ساری زندگی بھی ماں باپ کی خدمت کرتا رہے پھر بھی والدین اور خصوصاًوالدہ کا حق ادا نہیں کر سکتا۔
والدین کے ساتھ حسن سلوک ……حدیث کی روشنی میں ماں کی عظمت وشان اور اس کے ساتھ نیکی وحسن سلوک کے سلسلے میں رسول اﷲ ﷺ کا ارشادگرامی ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا :یا رسول اﷲ ﷺ ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے ؟،آپ نے فرمایا :تمہاری ماں، اس نے عرض کیا :پھر کون ؟،فرمایا : تمہاری ماں ،اس نے عرض کیا:پھر کون ؟،فرمایا :تمہاری ماں ، اس نے (چوتھی بار ) دریافت کیا : پھر کون ؟،فرمایا : تمہارے باپ ‘‘ ۔(صحیح البخاری ،رقم الحدیث:۵۹۷۱،مسلم، رقم الحدیث:۲۵۴۸مشکوٰۃ :رقم الحدیث، ۴۹۱۱ )

رضاعی والدہ کا احترام
ایک مرتبہ حضور سید عالم ﷺمقامِ جعرانہ پراپنے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے درمیان رونق افروز تھے کہ ایک ضعیف خاتون تشریف لائیں تو حضورنبی کریم ﷺ ان کے استقبال کے لئے کھڑے ہوگئے اور اپنا کمبل مبارک بچھا کر ان کو اس پر بٹھایا۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے یہ منظربڑے تعجب سے دیکھااور پوچھا، یارسول اﷲ ﷺ! یہ کون خاتون ہیں(جس کی آپ ﷺ اتنی تعظیم وتکریم فرمارہے ہیں)؟۔ آپ نے فرمایاکہ یہ میری رضاعی(دودھ پلانے والی) والدہ ہیں‘‘۔(مشکوٰۃ المصابیح،صفحہ440)

حضرت علقمہ کی والدہ کاناراض ہونا
حضرت علقمہ رضی اﷲ عنہ رسول اﷲ ﷺ کے بڑے جلیل القدر صحابی ہیں ۔ آپ سے بہت سی احادیث مروی ہیں آپ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ صدقات اور خیرات میں بہت آگے تھے۔ ایک دن سخت بیمار ہو گئے، بیماری اس قدر شدت اختیار کر گئی کہ آپ کے نزع کا وقت قریب آگیا ،یہاں تک کہ آپ کی بیوی نے رسول اکرمﷺ کو یہ پیغام بھیجا کی یا رسول اﷲﷺ آپ کا صحابی حالت نزع میں ہے تو رسول کریمﷺ نے حضرت عمّار ، حضرت بلال اور حضرت صہیب رضی اﷲ عنہم کو بھیجا کہ حضرت علقمہ کو کلمہ کی تلقین کریں ۔چنانچہ انہوں نے بہت کچھ کیا لیکن حضرت علقمہ رضی اﷲ عنہ کی زبان پر کلمہ طیبہ نہیں جاری ہو رہا تھا۔ جب حضورﷺ کو علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ کیا اس کے والدین میں دونوں یا کوئی ایک زندہ ہیں تو صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہمنے عرض کیا :ہاں !اس کی بوڑھی ماں زندہ ہے تو آپ ﷺ بڑھیا کے پاس پہنچے۔ جب کہ ایک روایت میں اس طرح ہے کہ حضرت علقمہ رضی اﷲ عنہ کی ماں حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو حضورﷺ نے اس بڑھیا سے پوچھا کہ بتاؤ تمہارا بیٹا علقمہ کیسا تھا۔ تو بڑھیا نے عرض کیا یا رسول اﷲ علقمہ بہت نیک آدمی ہے، نماز کا پابند ہے، خیرات و صدقات کرتا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا تو اپنے بیٹے سے راضی ہے یا کہ ناراض تو حضرت علقمہ کی والدہ نے عرض کیا یا رسول اﷲﷺمیں علقمہ سے راضی نہیں ہوں ۔جب آپ ﷺ سے ناراضگی کی وجہ پوچھی تو بڑھیا کہنے لگی کہ وہ میری بات نہیں مانتا تھا اور اپنی بیوی کے کہنے پر چلتا تھا اور اس کو مجھ پر فضیلت دیتا تھا ۔جب آپ ﷺ نے علقمہ کی ماں کی باتیں سنی تو آپ نے فرمایا کہ تیری اس ناراضگی کی وجہ سے علقمہ کی زبان پر کلمہ شریف پڑھنے سے بندہے۔

پھر نبی کریمﷺ نے حضرت بلال رضی اﷲ عنہ سے فرمایا کہ اے بلال(رضی اﷲ عنہ ) لکڑیاں جمع کرلو تو بڑھیا نے پوچھا یا رسول اﷲ ﷺ! لکڑیوں کو کیا کریں گے ۔ آپﷺ فرمایا کی ان لکڑیوں میں علقمہ کو جلاؤں گا تو بڑھیا نے عرض کیا یا رسول اﷲﷺ علقمہ میرا بچہ ہے اور میرا دل یہ گوارہ نہیں کرے گا کہ میں اس کو جلتے ہوئے دیکھوں ‘‘۔

رسول اکرمﷺنے فرمایا کہ وہ جہنم کی آگ میں جارہا ہے ۔ جو اس دنیاکی آگ سے زیادہ سخت ہے ۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اس ربّ کی قسم کہ علقمہ کو اس کی نماز روزہ صدقہ و خیرات اس وقت تک فائدہ نہ دے گا جب تک تو اس کو معاف نہ کرے گی تو بڑھیا نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲﷺ میں اس سے راضی ہوگئی ہوں ۔پھر آپ ﷺ نے حضرت بلال رضی اﷲ عنہ کو حضرت علقمہ رضی اﷲ عنہ کے پاس بھیجا اور حضرت بلال رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ میں جب علقمہ رضی اﷲ عنہ کے دروازے پر پہنچا تو اندر سے کلمے کی آواز آرہی تھی اور حضرت علقمہ رضی اﷲ عنہ کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گئے تو آپ ﷺ نے حضرت علقمہ رضی اﷲ عنہ کی نماز جنازہ پڑھائی اور ان کی قبر پر کھڑے ہو کر فرمایا:
اے مہاجرین اور انصار کے گروہ !جو شخص اپنی ماں پر بیوی کو فوقیت دے گا ،اس پر ا ﷲ اور اس کے فرشتے اور انسانوں سب کی لعنت ہوئی‘‘۔(زواجر :صفحہ نمبر58)

اس واقعے سے معلوم ہوا کہ انسان خُدا کا کتنا ہی عبادت گزاربندہ کیوں نہ ہو لیکن جب تک وہ اپنے والدین کو خوش نہیں رکھتا یا انہیں بُرا بھلا کہے گا اس کی عبادتیں رائیگاں جائیں گی۔

حضرت اویس قرنی رضی اﷲ عنہ کا ایمان افروز واقعہ
عاشق رسول حضرت اویس رضی اﷲ عنہ جو یمن کے علاقہ قرن کے رہنے والے تھے۔آقائے دو جہاں ﷺ کا زمانہ پایا اور حضورﷺ کے بے مثال عہد مبارک میں بیس سال تک رہنے کے باوجود وہ عشاق مصطفوی کا امام، آپ ﷺ کی حیات ظاہری میں زیارت سے محروم ہونے کی وجہ سے شرفِ صحابیت سے محروم رہا۔

علمائے کرام لکھتے ہیں کہ جس شخص نے ایمان کی حالت میں رسول اﷲ ﷺ کی زیات کی ہویا( ایک لمحہ کے لئے بھی )آپ ﷺکی صحبت ورفاقت اختیار کی ہو اور ایسے شخص کا خاتمہ ایمان پر ہواہویعنی وہ مسلمان ہو کرفوت ہواہوتو ایسے شخص کو صحابی کہتے ہیں۔

صحابی ہونا اتنا بڑا اعزاز ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا قطب، غوث حتیٰ کہ غوث اعظم بھی صحابیت کے درجے میں کسی مقابلے اور ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتے، خواہ کسی کو ہر روز عالم خواب یا عالم بیداری میں حضوراکرم ﷺ کی زیارت کی سعادت حاصل ہو۔ پھر بھی وہ ادنیٰ سے ادنیٰ صحابی کے درجے کو نہیں پہنچ سکتا۔

حضرت اویس قرنی رضی اﷲ عنہ جو حضورﷺ کی حیات طیبہ میں اپنی زندگی کے بیس سال گزارنے کے بعد بھی شرف صحابیت سے بہرہ ورنہ ہوسکے۔وہ عاشق صادق اس بات سے بھی بخوبی آگاہ تھے کہ حضورﷺ کے چہرہ مبارک کی ایک جھلک انہیں صحابیت کے مرتبے پر فائز کر سکتی ہے، جس سے ان کا مقام تابعیت کے درجے سے اونچا ہو گا مگر انہوں نے اپنی ضعیف ماں کی خدمت کی خاطر شرف ِصحابیت سے محروم ہونا گوارہ کرلیا اور جیتے جی اپنی ماں کے قدموں سے دوری اختیار نہ کی۔ماں کی خدمت گزاری میں بدستور لگے رہنے کا حکم بھی جناب آقا و مولا ﷺ کا حکم تھا جس کی تعمیل میں وہ زندگی بھر ماں کی خدمت میں محورہے اور تا دم آخر کی خدمت گزاری کو مرتبہ ٔ صحابیت کے حصول پر ترجیح دیتے رہے۔

ایک بار وہ عاشق صادق رضی اﷲ عنہ اپنی ماں کی اجازت سے شوق دید سے سرشار ہو کر اپنے آقا کی زیارت کے لئے مدینہ طیبہ حاضر ہوئے لیکن ماں کا حکم تھا کہ اگر حضورﷺ گھر میں تشریف فرما ہوں تو مل لینا اور نہ ہوں تو انتظار نہ کرنا اور واپس پلٹ آنا اتفاق کی بات تھی کہ حضورﷺ اس وقت جب حضرت اویس قرنی رضی اﷲ عنہ آپ کے درِ دولت پر پہنچے تو آپ گھر سے کہیں تشریف لے جاچکے تھے۔ چنانچہ وہ آقائے دوجہاںﷺ کے نام یہپیغام چھوڑکر واپس لوٹ آئے کہ آپ کا اویس زیارت کے لئے حا ضر ہوا تھا مگر چونکہ ماں کی طرف سے انتظار کرنے کی اجازت نہ تھی، اس لئے بغیر ملاقات کے واپس جارہا ہے۔

حضرت اویس قرنی رضی اﷲ عنہ نے جس طرح ماں کی خدمت کی ہے ، وہ تاریخ انسانیت کا ایک نادرالوقوع واقعہ ہے، جس کی نظیر ملنا محال ہے ۔ اگر کوئی ہم جیسا ہوتاتو مدینہ شریف پہنچ کر کچھ عرصے قیام کرتا کہ چلو اتنی طویل مسافت طے کرکے پہنچے ہیں تو دیدارِ جاناں سے شاد کام ہو کر ہی لوٹتے ہیں۔

ْْْذرا سوچئے کی عاشق صادق اویس قرنی رضی اﷲ عنہ جیسا ہو اور چند لمحوں کے توقف کے بعد دیدار یار بھی میسر آسکتا ہو ،مگر چونکہ ماں کا حکم تھا کہ اگر نہ ملیں تو انتظار کے بغیر پلٹ آنا اس لئے حکم کے آگے بلاچوں چراں سر تسلیم خم کر دیااور واپس چلے آئے۔

حضرت اُویس قرنی رضی اﷲ عنہ کا نگاہِ رسولﷺ میں مقام
ماں کی خدمت کے عوض حضرت اویس قرنی رضی اﷲ عنہ کو جو بلند مقام عطا ہوا اس کا اندازہ بھی ہم جیسے دنیادار نہیں لگاسکتے۔ اگرچہ انہیں حضورنبی کریمﷺ کا ظاہری دیدار اور صحبت میسر نہ آئی تھی مگر پھر بھی ان کے مقام ومرتبہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضورﷺ اپنی صحبت میں رہنے والے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے حضرت اویس قرنی رضی اﷲ عنہ کے فضائل اور درجات بیان فرمایا کرتے تھے۔

حضوراکرم ﷺ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو بتاتے تھے کہ میرے اویس کی یہ علامت ہے کہ اس کے ہاتھ پر داغ ہے اور اس کا مقام یہ ہے کہ اس کی دعا سے میرے لاکھوں امتیوں کی بخشش و شفاعت ہوگی۔

صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم جب ماں کی خدمت کے باعث شرف صحابیت سے محروم رہنے والے اویس قرنی رضی اﷲ عنہ کے فضائل واوصاف سنتے تو اُن کے دل میں موصوف کی زیارت کا اشتیاق پیدا ہوتا- ایک مرتبہ حضرت عمر اور حضرت علی شیر خدا رضی اﷲ عنہما نے اس خواہش کا اظہار کیا اور عرض کیا یا رسول اﷲﷺ کیا ہماری نگاہیں حضرت اویس قرنی رضی اﷲ عنہ کو دیکھ سکیں گی تو حضورﷺ نے فرمایا ہاں تم دونوں میرے اویس کو دیکھوگے۔

آپ ﷺ کے وصال فرمانے کے بعد امیرالمومنین سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کا جب زمانۂ خلافت آیا۔حج کے دنوں میں عرب کے دور و نزدیک سے لوگ حج کے لئے آئے تو حضرت عمررضی اﷲ عنہ اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ یمن سے آنے والے لوگوں کے مختلف وفود سے ملتے۔ اس خیال سے کہ حضرت اویس رضی اﷲ عنہ بھی دوسرے لوگوں کے ہمراہ حج کرنے کے لئے آئے ہوں گے۔ایک ایک وفد سے ملتے اور پوچھتے کہ کیا تم میں اویس نامی شخص بھی کوئی ہے اور وہ قافلے والے کہتے کہ ہم میں اس نام کا کوئی شخص نہیں ہے ہر وفد کا یہی جواب تھاکہ وہ کسی اویس کو نہیں جانتے ۔لوگوں کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ جناب عمر فاروق رضی اﷲ عنہ اور حضرت علی شیر خُدا رضی اﷲ عنہ ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھ رہے ہیں جو دیوانہ ہے اور آبادیوں سے دور جنگلوں ویرانوں میں رہتاہے اور جب شہر میں آتاہے تو لڑکے اُسے پتھر مارتے ہیں۔ جب انہوں نے علامات بتائیں تو لوگ کہنے لگے ہاں قرن شہر سے دور ویرانے میں اس نام کا ایک شخص رہتاہے۔ لیکن وہ دیوانا ہے جب ہنسنے پر آئے تو ہنستا ہی رہتاہے اوررورنے پر آئے تو روتا ہی رہتاہے۔

حج کے بعد دونوں حضرات (حضرت عمر فاروق اور حضرت علی رضی اﷲ عنہما) یمن گئے اور کھوج لگاتے لگاتے اس ویرانے میں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت اویس قرنی رضی اﷲ عنہ حالت نماز ہیں اور قریب ہی بکریاں چر رہی ہیں۔جن پر بھیڑئیے پہرہ دے رہے ہیں۔ حضرت اویس قرنی رضی اﷲ عنہ نماز سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اپنا تعارف کروایا ۔حضرت اویس قرنی رضی اﷲ عنہ کہنے لگے کہ میرا وہ تحفہ مجھے دے دو، جو میرے محبوب پاک ﷺ نے آپ کو دیا تھا یہ وہ جبّہ تھا جو حضورﷺ نے حضرت عمر فاروق اور حضرت علی رضی اﷲ عنہما کو دیا تھاکہ جب تم میرے اویس قرنی کو ملنا تو میری طرف سے یہ تحفہ پیش کردینا۔

یہ ملاقات بھی بڑی عجیب تھی دونوں اصحاب ان سے مختلف باتیں پوچھتے مگر حضرت اویس قرنی رضی اﷲ عنہ ہر بات کے مو ضوع کو اپنے محبوب ﷺ کے طرف لے جاتے اور کہتے کہ میرے آقاﷺ کی کوئی بات مجھ کو بتاؤ کہ وہ کیسے اٹھتے ،بیٹھتے تھے، باتیں کیسے کرتے تھے، وہ صرف اور صرف محبوب پاک ﷺ کی ادائیں ہی پوچھتے رہے۔

اچانک حضرت اویس قرنی رضی اﷲ عنہ نے دونوں احباب سے ایک ایسا سوال پوچھ لیا ،جسے سن کر وہ حیرت میں مبتلا ہو گئے۔ حضرت اویس قرنی رضی اﷲ عنہ نے ان سے پوچھا کہ آپ نے میرے محبوب ﷺکا چہرہ دیکھا ہے، وہ کہنے لگے کہ ہم تو زندگی بھر آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ رہے اور زیادہ سے زیادہ وقت حضورﷺ کی صحبت میں گزارا۔حضرت اویس قرنی رضی اﷲ عنہ فرمانے لگے کہ آپ نے میرے محبوب ﷺ کا جو کچھ دیکھا وہ تو میرے محبوب کا عکس تھا وہ تو محض ان کے پیکر کا سایہ تھا، اﷲ نے محبوب کا اصل رخ تو کسی کو دیکھنے ہی نہیں دیا اور اسے پس پردہ رکھا۔

اس سارے واقعے کا لباب یہ ہے کہ ماں کی خدمت سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں سارے درجات اور فضیلتیں اسی زینے سے حاصل ہوتی ہیں۔ حاصل کلام یہ کہ اگر نماز روزہ اور حج جیسی عبادت میں کوئی کمی واقع ہو جائے تو اﷲ تعالیٰ غفورالرحیم ذات ہے وہ معاف فرمادے گامگر ماں کی خدمت میں تساہل اور غفلت برتنے سے انسا ن کے سارے اعمال غارت ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، اس لئے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا۔
(اَلْجنّۃُ تَحتَ اَقْدَامِ الْاُ مَّھاَت)
ترجمہ: ’’ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے‘‘۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کاجنتی پڑوسی
O ایک دن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اﷲ تعالیٰ سے دریافت کیا’’ اے باری تعالیٰ! جنت میں میرا پڑوسی کون ہو گا‘‘۔ جواب آیا: ’’وہ ایک قصاب ہو گا اور فلاں بستی میں رہتا ہے‘‘۔چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس قصاب سے ملے اور فرمایا کہ کیاتم مجھے اپنا مہمان بنانا پسند کروگے تا کہ میں جان سکوں کہ اﷲ تعالیٰ نے تمہیں یہ بلند مقام ومرتبہ کس عمل کی بدولت عطا کیا ہے کہ تو جنت میں میرا ’’پڑوسی‘‘ ہو گا‘‘؟۔

وہ قصاب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بات سن کرآپ کو اپنے گھر لے آیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ اس نے اپنی ماں کو پالنے سے نکالا اور اسے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا۔ تب اس کی ماں نے اسے یہ دعا دی کہ……’’ اﷲ ! تجھے جنت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پڑوسی بنائے‘‘۔تب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو معلوم ہواکہ اس قصاب کو یہ بلند مقام ومرتبہ اپنی ماں کی دعا ؤں اورخدمت کی بدولت حاصل ہو اہے۔

ماں کی خاطرامام اعظم کافتویٰ پوچھنا
ماں کی فرمانبرداری اور اطاعت کے حوالے سے ایک بہت دلچسپ اورسبق آموز روایت جو ہمارے لئے ایک نمونہ عمل اورسند کی حیثیت رکھتی ہے۔ دنیا ئے اسلام کے نامور مجتہدوفقیہہ اور 80فیصدمسلمانوں کے مسلمہ پیشوا امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت (متوفی150ھ)رضی اﷲ عنہ علم وحکمت اورفقہ کے امام ہوتے ہوئے بھی اپنی والدۂ محترمہ کے حکم کے تعمیل کرتے ہوئے ایک کم علم واعظ عمر بن ذر کے پاس اپنی والدہ کا مسئلہ(فتوی) معلوم کرنے کے لئے جاتے ہیں تووہ پہلے امام صاحب سے فتویٰ معلوم کرتے ہیں اور پھر اپنی زبان سے دھراتے ہیں،پھر امام اعظم ان کی زبان سے مسئلہ سن کر اپنی والدہ محترمہ کو بتاتے تھے۔

ایک مرتبہ امام اعظم سے آپ کی والدہ نے فتویٰ پوچھا تو آپ نے شریعت کی روشنی میں مسئلہ بتادیا لیکن آپ کی والدہ نہیں مانیں اورکہا کہ میں تو یہ مسئلہ (قصہ گوواعظ) زرعہ سے معلوم کروں گی۔ چنانچہ امام اعظم ابوحنیفہ اپنی والدہ کو لے کر زرعہ واعظ کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ میری والدہ آپ سے مسئلہ معلوم کرنا چاہتی ہیں تو انھوں نے عرض کیا کہ آپ سے بڑھ کر کون عالم اور فقیہہ ہو سکتاہے؟ آپ خود فتویٰ بتا دیں۔امام صاحب نے فرمایا کہ میں نے تواس طرح فتویٰ دیاہے تو زرعہ نے کہا کہ آپ نے بجاطور پر درست فرمایاہے،یہ سن کر امام صاحب کی والدہ راضی ہوگئیں اور امام صاحب کے ساتھ گھرواپس چلی گئیں۔
( الخیرات الحسان:صفحہ197،علامہ ابن حجرمکی شافعی ،مطبوعہ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی)

امام محمد بن سیرین اور ما ں کاادب
تعبیررویاکے بہت بڑے امام محمد بن سیرین اپنی والدہ کے ساتھ حسن سلوک کاانتہائی خیال رکھتے تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ……’’ اﷲ کی قسم! والدہ کے گھر میں موجود ہوتے ہوئے میں کبھی اپنے گھر(کے مکان ) کی چھت پر نہیں چڑھا، صرف اس خیال سے کہ میں ان سے اُونچا نہ ہوجاؤں‘‘۔

امام محمد بن سیرین رحمتہ اﷲ علیہ کا معمول تھا کہ وہ اپنی والدہ کی خدمت میں کھانا خود پیش کرتے اور اس وقت تک کھانا شرع نہیں کرتے تھے جب تک کہ ان کی والدہ کھانا شروع نہ کر دیتیں۔نیز وہ اس برتن سے کھانا نہیں کھاتے تھے جس میں ان کی والدہ کھا رہی ہوتیں۔جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے فرمایاکہ:
’’ میں ڈرتاہوں کہ کہیں میری والدہ کی نگاہِ انتخاب کسی کھانے کی چیز پر پڑے اور میں اسے اٹھا کرکھا لوں اورماں کا نافرمان بن جاؤں‘‘۔

اسی طرح فقہ حنبلی کے بانی امام احمد بن حنبل رحمتہ اﷲ علیہ اپنی والدہ کی خدمت کا ازحدخیال رکھتے تھے۔ امام احمد اپنی والدہ کے کپڑے خوداپنے ہاتھوں سے دھویا کرتے اور ان کے لئے کھانابناتے اور ان کی دیگر ضروریات کا بھی بے حد خیال رکھتے تھے۔

ماں کی دعا،ولایت کی انتہا
سلطان العارفین تاجدارِ ولایت حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے ولایت کے جتنے بلندمراتب اور درجات حاصل ہوئے وہ سب میری والدہ کی دعاؤں اور خدمت واطاعت کرنے سے حاصل ہوئے ہیں۔ ایک مرتبہ میری والدہ نے رات کے وقت مجھ سے پانی مانگا۔ اتفاق سے اس وقت گھر میں پانی موجود نہیں تھا۔ چنانچہ میں پانی لینے کیلئے گھر سے دورنہر جا پہنچااور وہاں سے پانی لا کر واپس پہنچا تو والدہ سو گئیں۔ میں پانی لے کر ساری رات والدہ کے سرہانے کھڑا رہا اور شدید سردی کی وجہ سے پانی بھی انتہائی یخ (ٹھنڈا)ہو چکا تھا۔صبح جب والدہ بیدار ہوئیں اورمجھے پانی لئے کھڑا دیکھا تو فرمایا،بیٹے تم پانی رکھ کر سوجاتے،کھڑا رہنے کی کیا ضرورت تھی‘‘۔میں نے کہا’’ میں اس خوف سے نہیں سویا کہ شاید آپ کسی وقت بیدار ہوں اور پانی نہ پی سکیں‘‘۔
یہ سن کروالدہ بہت خوش ہوئیں اورمجھے بہت ساری دعائیں دیں۔(تذکرۃ الاولیاء،صفحہ90)
یہ کامیابیاں یہ عزت یہ نام تم سے ہے
اﷲ نے جو بھی دیا ہے مقام تم سے ہے

اﷲ تعالیٰ نے انسان کوجسم اور روح عطافرمائے اور والدین انسان کے دنیا میں آنے کا سبب ہیں۔ اس لئے ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک کی بندگی کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کی تعظیم وتکریم، ان کی اطاعت وفرمانبرداری اور خدمت گزاری کواپنے لئے لازم کر لے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ ماں،خدا کی طرف سے دی ہوئی سب سے بڑی نعمت ہے۔۔۔ اگر کسی کے پاس دنیا کی ہرنعمت موجود ہے اور وہ یہ کہے کہ میں بڑاخوش نصیب ہوں، مگراس کے پاس ماں نہیں تو وہ برکتوں سے محروم ہے۔۔۔بھائی بھائی کا ساتھ دیتا ہے۔بہنیں بھائیوں پر قربان ہوتی ہیں، مگر ماں کا نعم البدل دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے۔ ۔۔۔ ماں وہ ہیرا ہے جس کے آگے کوہِ نورہیرے کی روشنی بھی ماند پڑجاتی ہے۔۔۔ماں! کی محبت و شفقت پھول کی خوشبو سے زیادہ تر و تازہ اور فرحت افزا ہو تی ہے ۔ماں کے آنچل کی خوشبونہ تو گلاب میں ہے اورنہ کسی پرفیوم میں ہے۔۔۔ ماں کے بغیرانسان کا وجود نامکمل اورناتمام ہوتاہے۔
ہر عبادت ہر محبت میں نہاں ہے اک غرض
بے غرض بے لوث ہر خدمت کو کر جاتی ہے ماں
شکریہ ہو ہی نہیں سکتا کبھی اس کا ادا
مرتے مرتے بھی دُعا جینے کی دے جاتی ہے ماں

میں اپنی اس تحریرکے ذریعے اپنی ’’ماں‘‘کے حضور نذرانہ عقیدت ومحبت پیش کرنا چاہتا ہوں، رب کریم سے اس دعاکے ساتھ کہ اے باری تعالیٰ! میرے والدین پر (ایسا)رحم فرما، جیسا کہ انہوں نے مجھے بچپن میں(رحمت وشفقت سے) پالا‘‘۔

دُعاہے کہ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اپنے والدین اورخصوصاًماں کی خدمت و اطاعت اور ا ن کی تعظیم وتکریم کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین

Moulana Muhammad Nasir Khan Chishti
About the Author: Moulana Muhammad Nasir Khan Chishti Read More Articles by Moulana Muhammad Nasir Khan Chishti: 58 Articles with 180843 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.