ہر سال کی طرح اس سال بھی ملک کے مختلف حصوں میں بارشوں
کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے، جو محکمہ موسمیات کے مطابق ہفتے کے آخر تک جاری
رہنے کا امکان ہے۔ پیر کی شام شیخوپورہ، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات، حافظ
آباد، پسرور، ڈسکہ اور لالہ موسیٰ میں موسلادھار بارش ہوئی، جنوبی پنجاب کے
بیشتر علاقوں میں تیز آندھی کے ساتھ ابر رحمت برسی، بہاولنگر میں آندھی سے
مختلف مقامات پردرخت اکھڑگئے، ملتان، ڈیرہ غازی خان، لیہ، تونسہ، خانیوال،
چیچہ وطنی اور دیگر علاقوں میں بادل خوب جم کر برسے، چنیوٹ اور گردونواح
میں بارش کے بعد جہاں موسم خوشگوار ہوا، وہیں گندم کی کٹائی میں مصروف
کاشتکاروں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری جانب پشاور میں صبح سے
گہرے بادل چھائے رہے اور شام کے وقت بارش سے درجہ حرارت 10 درجے تک کم
ہوگیا، ڈیرہ اسماعیل خان، کرک اورسوات میں بھی وقفے وقفے سے بارش ہوتی رہی،
کرک میں شدید بارش سے بعض افراد برساتی نالے میں بہہ گئے۔ ادھر گلگت
بلتستان کے ضلع استور میں پہاڑوں پر برفباری اور بارش کا سلسلہ دوبارہ شروع
ہوگیا، جس کے باعث نظام زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا، مری میں کالی گھٹاؤں کے
ساتھ موسلادھار بارش سے موسم پھر سے سرد ہوگیا، ملک کے معاشی حب کراچی کے
علاقے طارق روڈ پر بھی ہلکی ہلکی بوندا باندی ہوئی۔ اسی طرح سندھ کے بعض
علاقوں میں بھی بارشیں ہوئیں، جن میں ٹنڈوالٰہیار، مٹیاری، جوہی، دولت پور،
میر واہ گورچانی، نوبشاہ شامل ہیں۔ سب سے زیادہ بارش مالم جبہ میں 37،
راولپنڈی 19 اور اسلام آباد میں 20 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی۔ پیر کے روز
ہونے والی بارشیں کافی تباہ کن ثابت ہوئیں، جن کے نتیجے میں ملک بھر میں
مجموعی طور پر پندرہ افراد جاں بحق اور پینتیس کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔ تیز
ہواﺅں، گرج چمک اور بارشوں کے باعث کئی گھروں کی چھتیں اور دیواریں گرگئیں،
سڑکوں کے کنارے لگے سائن بورڈ، بجلی کے پول اور درختوں کے اکھڑنے کے باعث
نقصان میں مزید اضافہ ہوا اور بجلی کا نظام درہم برہم ہوگیا، جس کی وجہ سے
متعدد علاقے کئی گھنٹے بجلی سے محروم رہے۔
دوسری جانب کراچی میں جمعرات سے بارشیں ہونے کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ دو روز
قبل کراچی میں ہلکی سی بارش ہونے کی وجہ سے بارشوں کا پانی سمندر تک لے
جانے والی ملیر ندی کچرا کنڈی میں تبدیل ہوچکی ہے۔ ذرائع کے مطابق کراچی
میں بارشیں ہونے سے سیلاب کا خطرہ ہے، کیونکہ ملیر ندی میں کچرے کے باعث
پانی کے بہاﺅ کا راستہ بند ہوتا جا رہا ہے۔ شہر میں 12 ملی میٹر سے زاید
بارش ان علاقے کے مکینوں کے لیے تباہی لاسکتی ہے۔ بلدیہ عظمیٰ ذرائع کے
مطابق شہر کے بیشتر برساتی نالے کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ یہی
نہیں، شہر میں 13 برساتی نالوں اور دو ندیوں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔
کورنگی انڈسٹریل ایریا کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ وہ حکومت اور انتظامیہ کو
مطلع کرچکے ہیں، مگر کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔ واضح رہے کہ ملک میں گزشتہ سال
اگست کے مہینے میں بھی ملک بھر میں موسلادھار بارشوں اور دریاؤں میں آنے
والے سیلاب نے تباہی مچائی تھی۔ سیلابی پانی سے ہزاروں دیہات متاثر ہوئے
تھے، جب کہ بارشوں سے شہروں اور دیہات میں چھتیں اور مکانات وغیرہ گرنے سے
متعدد ہلاکتیں بھی ہوئی تھیں۔ سیلاب کے باعث پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں
میں لاکھوں ایکڑ اراضی متاثر ہوئی اور کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی تھیں۔ نیشنل
ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے گزشتہ سال اگست میں سیلاب اور
بارشوں سے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ افراد کی ہلاکتوں، 812 افراد کے زخمی ہونے اور
5لاکھ 44 ہزار سے زاید افراد کے متاثر ہونے کی تصدیق کی تھی۔ جب کہ 4 لاکھ
12 ہزار ایکڑ زرعی اراضی بھی متاثر ہوئی تھی اور مون سون بارشوں اور سیلاب
سے مکمل یا جزوی طور پر 27 ہزار سے زاید گھروں کونقصان پہنچا تھا، سیلاب سے
ایک ہزار 746 دیہات متاثر ہوئے اور9 ہزار 215 افراد ریلیف کیمپوں میں زندگی
بسر کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں بارشیں اور سیلاب اچانک نہیں آتے، بلکہ یہ ایسا
موسمیاتی عمل ہے جو ہر سال پیش آتا ہے اور صدیوں سے یہ عمل جاری وساری ہے۔
ہر سال دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بارشیں ہوتی ہیں۔ پھر ان بارشوں کی وجہ
سے ہی دریاؤں میں سیلاب آتے ہیں، لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ اچانک
آنے والی قدرتی آفت ہے۔ پاکستان میں برسراقتدار آنے والی حکومتیں اگر موسمی
تغیر، بارشوں اور سیلاب کے سالانہ ریکارڈ کو سامنے رکھ کر اقدامات کریں تو
یہ موسم زحمت اور تباہی کی بجائے رحمت میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ بارشوں اور
سیلاب کے باعث ہر سال لاکھوں ایکڑ فٹ پانی ضایع ہوتا ہے۔ ہر سال ہونے والی
بارشوں کے بے پناہ پانی کومحفوظ کرنے اور اسے خشک سالی کے موسم کے لیے
ذخیرہ کرنے کے لیے بہتر منصوبہ بنایا جاسکتا ہے اور اگر اس قدر اہم مسئلے
کی طرف حکومت کی توجہ مبذول نہیں ہوتی تو کیا اسے مجرمانہ غفلت کا نام نہیں
دیا جا سکتا؟ ہمارے ارباب بست و کشاد جہاں کشکول تھامے ترقی یافتہ ممالک کے
سرکاری دورے کرتے ہیں تو کیا ان سرفراز ممالک سے سیلاب سے بچاؤ کا کوئی
طریقہ نہیں پوچھ سکتے؟ یورپی ملکوں میں ہالینڈ نے تو اس حوالے سے ایک ایسا
جدید ترین اسٹیٹ آف دی آرٹ نظام وضع کر لیا ہے جس سے وہ اس معاملے میں دیگر
ممالک کی بھی رہنمائی کر سکتا ہے۔ پاکستان میں جتنی بارشیں ہوتی ہیں، دنیا
میں کئی ملکوں میں اس سے کئی گنا زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔ وہاں دریاؤں میں
پانی ہمارے دریاؤں سے کئی گنا زیادہ آتا ہے، لیکن ان حکومتوں نے ایسے
اقدامات کیے ہیں جس سے نقصان نہیں ہوتا۔ لندن شہر کے درمیان میں بہنے والے
دریائے ٹیمز میں یقینی طور پر بعض ایام میں پانی کا حجم بہت بڑھ جاتا ہو
گا، لیکن کبھی یہ نہیں سنا کہ دریائے ٹیمز میں آنے والے سیلاب کے باعث لندن
شہر میں کوئی نقصان ہوا یا اس کے اردگرد دیہات پانی میں ڈوب گئے۔ اسی طرح
پیرس میں دریائے سین بہتا ہے۔ وہاں سے بھی کبھی بری اطلاعات نہیں آئیں،
امریکا میں سینڈی جیسے بڑے بڑے طوفانی سیلاب آتے ہیں، جس کے بارے میں ہمارے
معاشرے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ امریکا کو بہا لے جائیں گے، لیکن
انتظامات کی بدولت ہمارے مقابلے میں انتہائی کم نقصان ہوتا ہے۔
پاکستان ان ملکوں میں شامل ہے جہاں ہر سال بارشوں اور سیلاب سے قیمتی جانوں
کا بھی نقصان ہوتا ہے اور فصلیں بھی تباہ ہوجاتی ہیں، لوگ بے گھر ہو جاتے
ہیں۔ شہروں میں بارشوں کے باعث معمولات زندگی معطل ہو جاتی ہے، گلیاں ندی
نالوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں، سیوریج سسٹم بیٹھ جاتا ہے اور گندے نالے
ابلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ سڑکوں پر لگے سائن بورڈ اور بجلی کے پول اکھڑ جاتے
ہیں، جس سے جگہ جگہ بجلی کی تاروں کا جال بچھا دکھائی دیتا ہے اور اس سے
بہت زیادہ جانی نقصان بھی ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ حکومتی نا اہلی کے زمرے میں
آتا ہے۔ اگر حکومت عوامی اداروں کو مضبوط کرے تو ایسی صورت حال پیدا نہ ہو۔
کراچی، لاہور، فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی اور پشاور جیسے شہروں میں لوگوں
نے ایسی جگہ آبادیاں قائم کی ہوئی ہیں جہاں سیلاب آتا ہے یا وہ نشیبی علاقے
ہیں جہاں بارش کا پانی جمع ہو جاتا ہے۔ حکومت نے اس جانب توجہ نہیں دی اور
اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معمولی بارشوں سے بھی نشیبی آبادیاں پانی سے
بھر جاتی ہیں۔ گندے نالوں کی صفائی کا بندوبست نہیں کیا جاتا۔ دیہات میں جو
سیم نالے بنائے گئے تھے، انھیں بھی کبھی صاف نہیں کیا جاتا۔ راولپنڈی میں
نالہ لئی برسوں سے تباہی مچا رہا ہے، اس حوالے سے بھی کوئی کام نہیں ہوا۔
سیالکوٹ نارووال میں نالہ ڈیک ہر سال تباہی مچاتاہے۔ کراچی میں ملیر ندی
تباہی مچاتی ہے، لیکن اس حوالے سے حکومتوں نے کوئی ماسٹر پلان تیار نہیں
کیا۔ کراچی جیسے بڑے شہروں میں نکاسی کے بہتر نظام کے نہ ہونے کی وجہ سے
بھی سیلاب کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ ہمارے ملک میں مسئلہ یہ ہے کہ بارشیں
اور سیلاب جہاں غریبوں کے لیے مصائب و آلام لاتے ہیں، وہاں امراءکے لیے یہ
تفریح کا باعث ہوتے ہیں۔ اس لیے انہیں کوئی نقصان نہیں اٹھانا پڑتا اور
انہیں ان کی تباہی کا ادراک بھی نہیں ہوتا۔ تمام صوبائی حکومتوں کو چاہیے
کہ بارشوں کے سیلاب کی صورت اختیار کرنے سے قبل ہی ایسے انتظامات کریں جس
سے نقصان سے بچا جا سکے۔ |